تب دَرویش دوم نے عَندلیب خوش لہجۂ زبان کے تئیں بیچ گلزار بیان کے یوں داستان سرا اِس معنی رنگیں کا کیا کہ۔
یہ بندہ پِسر فرماں رواے مُلک فارس کا ہے جو اکتسابِ کمالات ہر فن کا جوہر ابناے مَلوک کا ہے۔ والد بزرگوار یعنی والی اس دیار کے نے میرے تئیں عہد طفولیت سے واسطے تکمیل فنونِ جہانداری اور تحصیل شیون شہریاری کے بیچ خدمت مُعلّمان دانشور و ادیبان خرد پرور کے نصب کیا اور اتالیقان صاحب ذکا کے تئیں جہت اصلاح طبع نو آموز کے تعیّن فرمایا کہ آئین آداب خلافت و فرمانروائی و قوانین انتظام سلطنت و کشور کشائی کے سے بیچ تربیت میری کے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔ چنانچہ بہ فضل الٰہی بیچ سن چہاردہ سالگی کے فیض تربیت اُن کی سے شایستگیِ حال و آراستگیِ مقال بہ ہمہ وجوہ حاصل کی۔ جو بیچ تہذیب اخلاق و حسن معاش کے بہرہ وافر رکھتا تھا، شبانہ روز اوقات عزیز کے تئیں بیچ صحبت ارباب فضل و کمال کے سُننے حکایات رنگیں و افسانہ ہاے شیریں کے سے تمتّع کافی حاصل کرتا۔ اتفاقاً ایک روز اصحاب فِطنَت و خبرَت سے ایک شخص نے کہ بیچ مطالعہ کتب تواریخ کے مہارت تمام رکھتا تھا، ذِکراً بلبل زبان کے تئیں بیچ سبزہ زار محفل مسرت کے بہ ترنُم تعریف حاتم طائی کے اس طور سے کہ صداے سخاوت و مروّت اُس کے کی بیچ گلشنِ دہر کے قیامت تک مترنم رہے گی، نغمہ سرا کیا۔ بندہ نے کہا اگر مجملاً کیفیت حال اُس کے سے بیان کرے تو میں بھی سمع دل کے سے مستمع ہو کر اطلاع حاصل کروں۔
اُس عزیز نے طوطیِ شیریں مقالِ ناطقہ کے تئیں بہ تقریر حکایت دل پذیر احوال حاتم کے بہ طریق اجمال کے شکر ریز تکلّم کا کیا کہ ایام سلف میں جس وقت نوفل نامی ایک شخص رؤساے عرب سے ساتھ حاتم کے مُنَازَعت و مُخاصمت سے پیش آ کے لشکر جرّار سے مستعد کارزار کا ہوا، اس وقت حاتم نے بہ مقتضاے کرم جِبلِّی کے بہ خیال اس کے کہ بیچ میدان جَدال و قِتال کے خون بندہ ہاے الٰہی کا ناحق وبال گردن میری کا ہوگا، اپنے تئیں بہ جان واحد کے بیچ کنج ایک غار کے مخفی و متواری کیا۔ بہ مُجرّد اِستماع خبر غائب ہونے حاتم کے نوفل نے تمامی متاع و املاک کے تئیں ضبط کر کے اذن عام دیا کہ جو کوئی سر حاتم کا لاوے، دو سو اشرفی انعام پاوے۔ جو ہر ایک کے تئیں ہَوا و حِرص زر کی دامن گیر ہے، ایک عالم بہ توقع اشرفیوں کے واسطے تلاش حاتم کے اُٹھا۔ اتفاقاً نزدیک اُس غار کے ایک پیر مرد نے با دو سہ بچّہ صغیر اور ایک پیر زن بہ تہیہ ہیزم کشی کے گذر کیا۔ از بس کہ تلاش حاتم کی شہرۂ آفاق تھی، اس حالت میں پیر زن نے پیر مرد سے کہا کہ کاش اگر رہبری طالع و یاوری بخت کے سے حاتم ہمارے ہاتھ آوے تو خراب آبادِ مفلسی و پریشانی بیچ شہرستان جمعیت و شادمانی کے پہنچ کر شاخسار مُراد کے سے گل کامیابی چُنیں۔ پیر مرد نے کہا، یہ سچ ہے ؎
اگر عدم سے نہ ہو ساتھ فکر روزی کا
نہیں میں طالب رزق آسمان سے کہ مجھے
تو آب و دانہ کو لے کر نہ ہو گُہر پیدا
یقیں ہے کاسۂ واژوں میں کچھ نہیں ہوتا
وے نصیب کہاں کہ اپنا کاسۂ اُمید صہباے کامرانی کے سے لبریز ہو۔ تو اپنے شغل میں رہ ؏
ہر چہ نصیب است بہ تو می رسد
لاچار پیر زن مایوس ہو کر خاموش رہی۔ اس عرصہ میں حاتم کہ مُتّصل درمیان غار کے تھا، کرم و ہمت و سخاوت و مروّت اس کی مُقتضی نہ ہوئی کہ باوجود سُننے اِس بات کے نقد جاں کے تئیں نثار استدعا پیر مرد کے نہ کرے اور اس مفلوک بے چارہ کے تئیں ورطۂ احتیاج کے سے اوپر ساحل جمعیت کے نہ پہنچاوے۔ واقعی اگر آدمی کے تئیں کرم نہ ہو، مانند باغ کے ہے کہ گُل ندارد اور جس دل میں رحم نہ ہو، مانند ایاغ کے ہے کہ مُل ندارد۔ بہ قول تحسینؔ، شعر ؎
شیشہ ہے بے شراب کا، جس دل میں تو نہ ہو
کس کام کا وہ گل ہے کہ جس گل میں بو نہ ہو
پس حاتم نے غار سے اُٹھ کر پیر مرد سے کہا کہ اے عزیز! حاتم میں ہوں۔ تو اپنے ساتھ میرے تئیں نزدیک نوفل کے لے جا کے کیسۂ آرزو کے تئیں متاع امید کی سے پُر کر۔ ؏
خنک آں کس کہ گوے نیکی بُرد
پیر مرد نے کہا کہ فی الواقعہ میرے تئیں فلاح و بہبود اپنی مسلّم ہے لیکن نہ اس صورت سے کہ دَست طمع کا ناحق خون تیرے سے آلودہ کروں۔ استغفرُ اللہ! یہ وہ مثل ہے کہ بارہ برس پیچھے روزہ کھولا تو چرکین سے۔ تو ہرگز مُصر اس بات کا نہ ہو۔ مجھ سے یہ حرکت لغو زینہار نہیں ہونے کی کہ مرد آدمی کے نزدیک اس طرح رفعت حاجت اپنی محض دوں ہمتی و بے حمیتی ہے۔ حاتم نے ہرچند مبالغہ کیا، انکار اس کا کم نہ ہوا۔ لاچار حاتم نے کہا: اگر تو میرے تئیں نہیں لے چلتا تو میں خود بخود شاہ سے جا کر اظہار کرتا ہوں کہ فلانے شخص نے میرے تئیں بیچ غار کے پنہاں کیا تھا۔ آخرش پیر مرد وہاں سے باہر نکل کر لگا کہنے کہ جو جو خدا دکھاوے سو لاچار دیکھنا۔ یہ بھی اپنی قسمت ہے کہ نیکی برباد گناہ لازم۔ اس گفتگو میں انبوہ مردم کا جمع ہوا اور حاتم کے تئیں دستگیر کر کے حضور نوفل کے گئے۔ پیچھے پیچھے بڈھا بھی اس گروہ میں شامل ہوا۔ نوفل نے پوچھا کہ حاتم کے تئیں کون لایا۔ ایک عزیز کہ سرگروہ لشکر شیطان کے تھے، بولے کہ یہ عرش پر جھنڈا ہم نے گاڑا اور ایک عزیز اُس سے بھی پرے چلے۔ غرض ہر ایک اپنی اپنی ترنگ میں خوش تھا گویا دو سو اشرفیوں کا توڑا باندھ کے لے ہی تو جاویں گے۔ لیکن پیر مرد بے چارا خاموش ایک گوشہ میں کھڑا ہوا تماشا قدرت الٰہی کا ملاحظہ کرتا تھا۔ اس عرصہ میں حاتم نے نوفل سے کہا کہ اگر مجھ سے سُنے تو راست کہوں کہ میرے تئیں وہ پیر مرد کہ ایک گوشہ میں غریب سا کھڑا ہے لے آیا۔ تیرے تئیں لیاقت ہو تو قِیافہ سے سمجھ دیکھ اور مُوافق اُس کے شرط اخلاص کی بجا لا اور داد اخلاق کی دے کہ خلق مُحمدی نور ایک چراغ ہدایت کا ہے کہ بیچ ایوان مزاج ہر اہل مزاج کے درخشاں ہو رہا ہے اور یہ جلوہ اُسی کی جوت کا ہے کہ وہ لعل شب چراغ درمیان نگیں خاتم سلیمانی لیل و نہار کے حلیہ دست قدرت خدا کا ہے۔ اس وقت نوفل نے پیر مرد کے تئیں نزدیک بُلا کر استفسار ماجرے کا کیا۔ اس عزیز نے تمام قصہ ابتدا سے انتہا تک نقل کیا۔ نوفل نے اس بات کے سننے سے نہایت متحیر اور محجوب ہو کر اُس مردود جھوٹے بد ذات کے تئیں کہ مگس چِرکیں طمع کی بن کر اشرافیوں کی لالچ میں گرفتار کرنا حاتم سے شخص مخیّر کا روا رکھ کر بولا تھا کہ عرش پر جھنڈا ہم نے گاڑا، نوفل نے نپٹ زَجر و تَوبیخ سے کہا کہ اے حارِث ملعون! سچ کہہ یہ کیا حرامزدگی تھی کہ حاتم بے چارے پر وار کیا تھا۔ آئیے، لیجیے اشرفیاں موجود ہیں اور مشکیں بندھوا کر ایسی ہی پاپوش کاری کی کہ سر گنجا ہو کر مانند تونبی کے بن گیا۔ مجھے تو ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ ایک کلاونت اُس وقت حاتم کی گرفتاری کا بدھاوا گانے آیا تھا، یہی گا رہا تھا کہ یہ تونبا میرے طنبورے کے واسطے عنایت ہو۔ تب نوفل نے تبسّم کر کے اُسے چھوڑ دیا اور اپنی محفل میں ذکر کیا کہ جھوٹ بولنا ایسی بد بلا ہے کہ مرد آدمی کے نزدیک کوئی گناہ اِس سے بدتر نہیں، خدا کسی کے نصیب نہ کرے۔ استغفر اللہ! میرے نزدیک تو اگر فرشتہ بھی جھوٹا ہو تو واللہ وہ بھی شیطان ہے۔ آخرش نوفل نے اوپر جواں مردی و بزرگ ہمتی حاتم کے ہزار آفریں کر کے تصور کیا کہ ساتھ ایسے شخص کے کہ بیچ غمخوارگی بیچارگان عالم بے سر انجامی کے اپنی جان سے دریغ نہ کرے اور رضاے حق کے تئیں رضا اپنی پر مقدم رکھے، خشونت و خصومت رکھنا شرط مروت و فُتوت کی نہیں بلکہ سخت دوں ہمتی و پست فطرتی جاننا چاہیے۔ پس نہایت تپاک سے حاتم سے کہا، سبحان اللہ ؎
لکھے ثنائے جود کا تیری جو ایک حرف
تجھ سا نہیں ہے ایک زمانے میں بے مثال
نقطہ نہ پاوے راہ قلم کی زباں تلک
دیتا ہے تو جو داد سخاوت کی یاں تلک
اور لوازم اِکرام و احترام اس کے سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کر کے از سَر نو اوپر مِسند حکومت و ریاست کے متمکن کیا۔
سنتے ہو صاحبو! جس وقت زبانی اُس جلیس محفل بلاغت کے قصہ حاتم کا بیچ سماع میری کے پہنچا، موج سخاوت کی بیچ دریاے دل میرے کے جوش میں آئی اور بیچ خیال میرے کے گذرا کہ حاتم نُجباے عرب کے سے ایک شخص تھا کہ علم سخاوت کا اس درجہ بلند کیا اور میرے تئیں وَاہب بے ہمتا نے فرماں رواے ملک فارس کا کیا ہے، اگر نعمت عظمیٰ فیض بخشی و فیض رسانی کے سے محروم رہوں تو واقعی جاے فراواں تاسّف و حسرت کی ہے اور اپنے جی میں جو سوچتا ہوں تو واقعی دنیا میں کوئی امر شریف تر سخاوت سے نہیں۔ پس اُسی وقت کار پردازان حضور کے تئیں حکم کیا کہ ایک عمارت عظیم الشان چالیس در نہایت مرتفع و بلند بیرون شہر پناہ کے درست کرو۔ چنانچہ چند روز میں ایک مکان وسیع رفیع حسب دلخواہ میرے تیار ہوا اور میں صبح سے شام تک دست سخاوت سے موتی ثواب کے چنتا۔ یعنی جس در سے ارباب حاجت کف سوال کی کھولتے، زر بخشی و گہر ریزی سے دامن اہل مراد کا پُر کرتا۔ اتفاقاً ایک روز ایک قلندر نے ایک دروازے سے آ کے سوال کیا۔ میں نے اُس کے سوال کا جواب باصواب دیا۔ وہ پھر دوسرے دروازے سے دست طلب کا کھولتا ہوا آیا۔ پھر میں نے اس حرکت سے اغماض کر کے اور جو کچھ توفیق ہوئی نثار کیا۔ اسی طور سے اس نے ہر ایک در سے آنا شروع کیا۔ بندے نے دامن آرزو اُس کی کے تئیں بذل و نوال سے مالا مال کیا۔ بعد ازاں اُس نے پھر دروازہ اوّل سے گذر کر کے لب سوال کا کھولا۔ میرے تئیں یہ حرکت باعث گرانی خاطر کی ہوئی اور اُس قلندر سے کہا کہ اے حریص جہاں گرد! خزانہ وقف کا واسطے حاجت روائی محتاجوں اور حصول مقصد مسکینوں کے مقرر کیا ہے، نہ واسطے تجھ سے بو الفضول بد روزگار و طامعِ زر بے شمار کے لیے کہ آب حیا کا چشمۂ توکل سے ٹپکا کے چشمۂ قناعت کا خس و خاشاک ہَوا و حرص کے سے مکدر کیے پھرتا ہے، اَستَغفِرُ اللہ! وہ بھی درویش ہے کہ التَکلیف حرام سے خبر نہ رکھتا ہو۔ درویش اس بات سے نہایت بد دماغ و پریشان خاطر ہو کے جو کچھ مجھ سے پایا تھا، زمین پر پٹک کر بولا: بابا گرم کیوں ہوتا ہے؟ “عطاے توبہ بہ لقاے تو بخشیدم”، لیکن یہ یاد رکھیو کہ سخاوت کی طرف سے تکلف برطرف، ہنوز دلّی دور ہے۔ آئندہ زینہار رقم سخاوت و علو ہمتی اپنی کا اوپر جریدۂ روزگار کے نہ لکھنا کہ السَّخِیُّ حَبِیبُ اللہِ وَ لَو کَانَ فَاسِقاً کا وصف کوئی بادشاہ زادی بَصرہ کی سے سیکھے کہ تشریف سخاوت و مروّت کا کس مرتبہ اپنی قامت پر راست کیا ہے۔ پھر میں نے ہرچند زبان معذرت کھولی اور قسم یاد دے کر کہا کہ جو کچھ چاہے حاضر ہے، ہرگز قبول نہ کیا اور آخر کلام یہ کہہ کے چلا کہ اب اگر سلطنت بخشے تو یہاں اِستغنا سے تُف نہ کروں ؎
گو کہ اب دل میں سمجھ کر کے تو پچھتاوے گا
کفِ افسوس کو ملتا ہی تو رہ جاوے گا
پر مرے دل کو تو زنہار نہیں پاوے گا
جو دل اس بار گیا ہاتھ نہ پھر آوے گا
می روم از درِ تو باز بہ تو رو نہ کنم
گر درت قبلہ شود سجدہ بہ آں سو نہ کنم
میرے تئیں اُسی وقت سے اشتیاق مُشاہدہ جمال شہزادی بصرہ کا سلسلہ جُنباں ہوا۔ ہر چند اس عاجز نے وزراے روشن ضمیر و امراے صاحب تدبیر سے کہ ظہیر سریر سلطنت و مشیر تدبیر مملکت کے تھے، اجازت سفر بصرہ کی چاہی، کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ لاچار ایک روز بے اطلاع سب ارکانِ خلافت کے مَدارکار سلطنت و مملکت محروسہ کا اوپر راے رزیں ایک وزیر درست تدبیر کے چھوڑ کر لباس درویشی کا بہ موجب شعر مرزا جلالی اسیرؔ کے ؎
خرقہ پوشی ست خود نمائی نیست
عشق بازی ست میرزائی نیست
اوپر اپنے آراستہ کر کے قدم تردّد کا بیچ راہ سیاحت کے رکھا۔ تھوڑے عرصہ میں طے مسافت بعید کا کر کے بیچ سرحد ملک بصرہ کے پہنچا۔ اُس دیار میں بیچ جس منزل اور مقام کے وارد ہوتا، ملازم اُس کے مراسم استقبال و احترام کے بجا لا کے کوئی دقیقہ مراتب دلنوازی و مہمانداری و لوازم دلجوئی و حاجت برآری کے سے فروگذاشت نہ کرتے۔ غرض اسی صورت چلتے چلتے بیچ دار السلطنت بصرہ کے پہنچا۔ وہاں ایک جوان خوش رو، چار ابرو، زیبا طلعت، خجستہ خصلت، نیکو منظر، سیّاح پرور، خالِ رخسار مروّت، گلگونِ چہرۂ فتوّت، کتابِ دبستانِ سخنوری و سخندانی، شمعِ شبستاں کام بخشی و کامرانی، جوہر معدنِ جود و سخا، گوہرِ لُجّہ حِلم و حیا بیدار بخت نامی میرے ساتھ دو چار ہوا اور زبان شیریں سے گویائی کے تئیں اس طور سے حلاوت بخشی کہ یہ خادم الفُقرا مدت سے طلب گار صحبت درویشوں کا ہو کے حلقۂ اِنقِیاد و اطاعت اس گروہ حق پژوہ کا بیچ گوش کے اور غاشیۂ اعتقاد و ارادت اس فریق ارباب تَدقیق کا اوپر دوش کے رکھتا ہے، اگر کلبۂ احزان میرے کے تئیں مقدم شریف سے رشک افزا گلستانِ ارم کا کیجیے تو بعید عاجز نوازی و خادم پروری سے نہیں ؎
گر لطف سے قدم رکھو میرے مکاں تلک
کیا نقص فیض عام میں خورشید کے ہو گر
پہنچے بہ فرق فخر مرا فرق داں تلک
ذرہ ہو جس کی تاب سے تاباں یہاں تلک
بارے یہ عاجز بعد مبالغہ بسیار کے بیچ مہمان خانہ اُس نیک سرشت کے حاضر ہوا۔ چنانچہ اس عزیز نے کمال تکلّف سے سامان ضیافت کا مہیا کر کے سُفرہ دعوت کا آراستہ کیا اور انواع طعام ہاے لذیذ و خوشگوار و اقسام شیرینی ہاے حلاوت بخش و چاشنی دار و اَصناف شربت ہاے گلاب و بید مشک و گوناگون میوہ ہاے تر و خشک وغیرہ و لوازمۂ اکل و شُرب از قسم نان یزدی و نان ورقی و نان تنکی و نان پنیری و نان خمیری و نان باقر خانی و گاؤ زبان و گاؤ دیدہ آبی و روغنی و خطائی و شیر مال و نان گُلدار، قلیہ دو پیازہ، نرگسی و شیرازی و زعفرانی و بادامی، کباب، قلیہ، کوفتہ، خاگینہ، ملغوبہ، پَن بھتہ، بورانی، بریانی نور محلی و خراسانی، رومی، تبریزی، شب دیگ، دم پخت، خشکہ و مزعفر و شولا و متنجن پلاؤ و قورمہ پلاؤ و یخنی پلاؤ و حبشی پلاؤ و بیگمی، چاشنی، عنبری، کاشانی و ماہی کباب و مرغ کباب و سیخ کباب و بیضہ کباب و حلیم و حریسہ و سموسہ و قبولی و طاہری و کھچڑی و فرنی و ملائی و حلوا و فالودہ و نمش، قندی با مشک نافہ، وساقِ عروس و لوزیات، اچار، مربّے، ناشپاتی، بہی، انگور، انجیر، سیب، انار، کشمش، بادام، چھوہارے، پستے وغیرہ اغذیہ و اشربہ قسم قسم کے کہ جن کی چاشنی کی حلاوت اور ذائقہ سے ارواح فرشتوں کی بھی تر و تازہ ہو جاوے، انسان کا تو کیا ذکر ہے؛ نہایت سلیقہ و کاردانی سے بیچ ظروف مرصّع کاری و مینا سازی و طلائی و نقرئی و غوری و فغفوری و چینی و خطائی و حلبی و بلّوری کے لا کر چُنے۔ میرے تئیں کہ آتش اِشتہا کی بیچ دل کے مشتعل تھی، غذاہاے لطیف سے فرو ہو گئی۔ جس وقت میزبان آفتاب کا بیچ میہماں سَراے تحت الثریٰ کے رونق افزا ہوا اور ناظورہ شب کی نے گیسوے مشک فام اپنے کے تئیں اوپر رخسارہ گیتی کے دراز کیا، اُسی جوان زیبا طلعت نے میرے تئیں اوپر بستر نفیس و نرم کے کہ ملائم تر ورقِ گل سے تھا، اشارہ استراحت کا کیا۔ تب میں نے کہا کہ از براے خدا اس تکلف سے در گذر، میرے تئیں سجادہ حصیر کا بہتر مسند حریر سے ہے اور دلقِ کہنہ ناتوانوں کا خوشتر ہے کسوت لطیف بادشاہوں کے سے۔ بہ مضمون اس کے، شعر ؎
سریرِ سلطنت سے آستانِ یار بہتر ہے
مجھے ظِلّ ہُما سے سایۂ دیوار بہتر ہے
جوان نے کہا کہ جو کچھ اس مکان میں ہے، وقف درویشوں کا ہے۔ میرا تصرف بیچ اس کے مطلق نہیں۔ چنانچہ تین دن اور تین رات گذرے اور میں نے روز چہارم جس وقت کہ مسافر جہاں پیما آفتاب کا بستاں سراے مشرق کے سے بر آیا رخصت روانگی کی چاہی۔ در جواب فرمایا کہ اے عزیز! مگر بندہ سے کچھ تقصیر صادر ہوئی کہ اوپر طبع شیریں تیری کے تلخ گذری۔ میں نے کہا کہ از براے خدا اس کا کیا ذکر ہے لیکن بزرگوں نے کہا ہے۔ فرد ؎
مطلب مرد مسافر بہ جہاں دیدار است
ورنہ نعماے الٰہی بہ جہاں بسیار است
اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھا۔ بیت ؎
دیکھنا ہر صبح اُس رُخسار کا
ہے وظیفہ مجھ دلِ بیمار کا
اس کمترین کے تئیں کہ مدّ نظر اوپر سیاحت اور سفر کے رکھتا ہے بقول اس کے کہ، شعر ؎
ما خود بہ گرد دامنِ مردے نہ می رسم
شاید کہ گرد دامن مردے بہ ما رسد
اس واسطے رخصت ہونا ضرور ہے۔ کہا کہ خوب، ایک لمحہ صبر کر کہ بیچ جناب پرستاران حضور ملکہ کے خبر جاوے اور آپ ارادہ سفر درپیش رکھتے ہیں جو کچھ ازقسم لباس و پوشاک و ظروف و آلات، طلا و نقرہ و جواہر وغیرہ کہ بیچ اس میہمان خانہ کے ہے تعلق تجھ سے رکھتا ہے، بیچ لے جانے اس اسباب کے آمادہ و مستعد رہ۔ تب میں نے کہا کہ استغفر اللہ، یہ کون بات چیت ہے۔ فرد:
دریا دلیم و دیدۂ ما معدنِ دُر است
گر دست ما تہی است ولے چشم ما پُر است
اور مطابق اس مضمون کے، رباعی:
گیرم کہ سریرت از بلّور و یشم است
ایں مسند قاقم و سمور و سنجاب
سنگش داند ہر آں کہ او را چشم است
در دیدۂ بوریا نشیناں پشم است
اس آلودگی و آلایش دنیاوی سے کچھ مجھ کو سروکار نہیں۔ اُس عزیز مصر خوبی کے نے کہا کہ اگر ملکہ اس بات کے تئیں سُنے تو اس خادِم القران کو درجہ عزت و اعتبار کے سے ڈال کر واللہ اعلم کس غضب میں گرفتار کرے۔ اگر تو تنہا و بے پروا ہے تو سر بہ مہر بیچ ایک حجرہ کے امانت رکھ، پھر جو چاہے گا سو عمل میں لائیو۔ آخر الاَمر جو مبالغہ و مُکَابرہ جانبیں کا حد سے گذرا، بہ موجب مصلحت اور استصواب اُس کے سب اسباب کو لے کر ایک حُجرہ میں سر بہ مہر کر کے منتظر رخصت کا بیٹھا کہ اتنے میں دیکھتا کیا ہوں کہ ایک خواجہ سرا سراپا ملمع بد ستیاری عصاے مرصع با چندے خدمت گار دروازے سے در آیا۔ جو نزدیک میرے پہنچا، زبان بیچ تواضع و مدارات و دلبری و دلداری کے کھولی اور اس قدر سلوک اور آدمیت خرچ کی کہ زبان بیان اُس کے سے عاجز و قاصر ہے اور کہا کہ اے عزیز! فرد:
خوش آمدی و خوش آمد مرا زآمدنت
ہزار جان گرامی فداے ہر قدمت
اگر از راہِ اشفاق اور الطاف کے کلبۂ احزان اس مشتاق کے تئیں نور قدوم بَہجت لُزوم اپنے کے سے رشک افزا گلستان ارم کا کریے تو بعید از بندہ نوازی و آشنا پروری سے نہ ہوگا کیونکہ، فرد:
آنکھوں کے اپنے نور کو تیرے قدم تلے
اے نور دیدہ فرش بچھایا نہیں ہنوز
اگر احیاناً ملکہ سُنے کہ ایک شخص مسافر اس مکان پر آ کر بغیر از تواضع و مدارات کے رُخ توجہ کا نہ فرمایا اور در گذرا، واللہ کہ زندہ نہ رکھے گی اور بہ انواع شداید گرفتار رنج و مصیبت کا کرے گی اور حقیقت اپنی یہ ہے، بیت:
ما تنک ظرفاں حریف ایں قدر سختی نہ ایم
دانۂ اشکیم مارا گردشِ چشم آسیا ست
اور خواہ مخواہ میرے تئیں بیچ ایک مکان کے کہ روشن تر آئینۂ ضمیر صافی نہاداں کے سے تھا، لے گیا اور بہ دستور میزبان اول کے اس مہمان غریب کے تئیں زنداں خانہ فکر و آلام کے سے نکال کر بیچ دار المعمور عیش و سرور کے سہ شبانہ روز دو وقتہ طعام ہاے لذیذ و غذا ہاے لطیف سے شکم سَیر کیا اور جو کچھ کہ ظروف طلائی و نقرئی و تحفہ ہاے عجیب و غریب و فرش و فروش و رخوت ہاے خواب گاہ جمع ہوا تھا فرمایا کہ اس کا تو مالک و مختار ہے۔ میں نے دریافت کرتے ہی اس کلام کے متحیّر اور متعجب ہو کر چاہا کہ نقد رخصت کا بیچ کف مراد کے حاصل کروں۔ اسی عرصے میں خواجہ سرا بولا کہ اے مرد خدا! کچھ مطلب اور مُدَّعا اپنا اظہار کر کہ حاجت تیری بیچ حضور ملکہ کے عرض کروں۔ فرد:
جا کر کہوں میں تیری طرف سیتی ایک ایک
مطلب جُدا، مراد جُدا، مدعا جُدا
میں نے کہا کہ اے عزیز! لباس درویشی میں مال دنیا کے سے کیا طلب کروں کہ بغیر استدعا کے میسّر ہے۔ مجھ کو ساتھ اس کے کچھ سروکار نہیں، تب اُس نے کہا، کبت:
نکہہ بن کٹا دیکھے، جوگی کن پھٹا دیکھے، سیس بھاری جٹا دیکھے، چھار لائے تن میں
مکھ میں ابول دیکھے، سیورا سر جھول دیکھے، کرت کلول دیکھے، بن کھنڈے بَن میں
بیر اور سور دیکھے، کینے گُنی اور کوڑ دیکھے، مایا میں اَپور دیکھے، پور رہے دھن میں
جنم کے دُکھی دیکھے، اَدِاَنت کے سکھی دیکھے، ایسا کوؤ نہ دیکھے، لوبھ جا کے نہیں من میں
میں نے در جواب اُس کے لآلی شاہوار سخن کے تئیں دُرج دہان سے نکال کر بیچ میدان بیان کے اس طور سے جلوہ نمائش کا دیا کہ ایک رقعہ سر بہ مہر مدعا اپنے کا دیتا ہوں، اگر حضور موفور السرور ملکہ کے پہنچاوے تو بعید اہلیت و جواں مردی سے نہ ہوگا۔ کہا کہ البتہ کیا مضائقہ۔ پس میں نے ایک پرچہ کاغذ کا لے کر بعد از شکر الٰہی و حقوق خدمت لا متناہی کےلکھا کہ، فرد:
جام جہاں نماست ضمیر منیر دوست
اظہار احتیاج در آنجا چہ حاجت است
بندہ چند روز برسرِ خوانِ احسان بے پایاں کے مہمان رہا اور جو کچھ خوبی اَوضاع و اطوار ملکہ کا سُنا تھا، سو بہ چشم خود دیکھا۔ اب ملازمانِ سرکار فیض آثار کے کہتے ہیں کہ کچھ مطلب اپنا عرض کر۔ اس واسطے بے تکلف عرض کیا جاتا ہے کہ مال دنیا میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہوں۔ بیچ اپنے مُلک کے تخت سلطنت کے اوپر جلوہ افروز و فرماں روا تھا، بہ اِستماع خوبی ہاے ذاتی و صفاتی ملکہ مہر طلعت کے ساتھ بدرقہ شوق کے اپنے تئیں تنِ تنہا یہاں تک لا پہنچایا ہے۔ فرد:
شوق مشتاق، آرزو مشتاق، جان مشتاق تست
ایں چنیں ساماں کہ دارد غیر مشتاق شما
اور احوال میرا یہ ہے، ریختہ:
جسے عشق کا تیر کاری لگے
نہ چھوڑے محبت دم مرگ لگ
نہ ہووے اُسے جگ میں ہرگز قرار
اُسے زندگی جگ میں بھاری لگے
جسے یار جانی سے یاری لگے
جسے عشق کی بے قراری لگے
پس اگر از راہ نوازش و تلطف کریمانہ کے اس خاکسار کے تئیں خاک مَذلَّت سے اٹھا کر اوپر تخت کامرانی کے سرفراز و ممتاز کیجیے گا تو لایق ہے اس واسطے کہ مستحق و مشتاق ہوں۔ فرد:
آرزو دارم کہ خاکِ آں قدم
توتیاے چشم سازم دم بہ دم
پیشتر جو کچھ کہ مرضی مبارک اقتضا فرماوے، بہتر ہے۔ اگر التماس فدوی کا مقرونِ اجابت نہ ہوگا تو اس جانِ ناتواں کے تئیں عشق تیرے میں نثار کر کے کوچہ گردی و صحرا نوردی میں گوے سبقت کا مجنوں و فرہاد سے لے جائے گا ؎
ما برفتیم و تو دانی و دل غم خورِ ما
بخت بد تا بہ کجا می برد آب و خورِ ما
یہ رقعہ لکھ کر خواجہ سرا کو دیا اور وہ لے گیا۔ بعد ایک لمحے کے میرے تئیں اوپر دروازہ حرم سرا کے طلب کیا۔ جو بندہ داخل حریم حرم تعظیم کے ہوا، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پیر زن صد سالہ ذی ہوش و باشعور الفربہ خواہ مخواہ مرد آدمی اوپر کرسی زرّیں کے بیٹھی ہے اور کئی ایک خدمت گار و خواجہ سرا بہ لباس ملوکانہ جواہر میں غرق، دست بستہ رو برو اس کے کھڑے ہیں۔ میں نے بمجرّد دیکھنے کے مشار الیہ و معتمد جان کر نہایت ادب سے سلام کیا۔ اُس مادرِ مہربان نے جواب سلام کا دے کر کہا کہ اے جواں! بیا و بہ نشیں، خوش آمدی و صفا آوردی۔ بارے پیغام خواستگاری ملکۂ ما کردی۔ بندہ اس بات کو سُن کر سرنگوں و خاموش ہو رہا۔ بعد از ایک ساعت کے کہا کہ اے جوان! ملکہ نے بعد دعا کے فرمایا ہے کہ مجھ کو شوہر کرنے میں عار نہیں ہے۔ اگرچہ تو نے بہ حسب شرع درخواست کی لیکن فخر اپنا بیان کرنا اور باوجود اس خاکساری کے سلطنت سے دم مارنا محض بے جا ہے، کس واسطے کہ بنی آدم سب آپس میں جنسیت رکھتے ہیں۔ بقول آنکہ، رُباعی:
ایں خورد و بزرگاں کہ ہمہ انسانند
امروز اگر بلند و پستی دارند
در دست زمانہ ہم چو انگشتانند
فردا کہ بخوانند ہمہ یکسانند
مگر بہ موجب فَضَّلنا بَعضَکُم عَلیٰ بَعضٍ کے تفاوت شرافت دین اسلام کی ہے اور میں بھی ایک مدت سے شوہر کی مشتاق و آرزو مند ہوں۔ بیت:
اشتیاقے کہ بہ دیدار تو دارد دلِ من
دلِ من داند و من دانم و داند دلِ من
جس قدر تو مالِ دنیا سے مستغنی و بے پروا ہے، اُسی قدر میں بھی دولت بے شمار کی مالک ہوں کہ یہ دولت بے زوال میری احاطہ حساب کے سے باہر ہے۔ پر جو بیچ شرع کے ہر ایک عورت کا مہر اور شرطوں پر مقرر ہے، میرے مہر میں ایک شرط ہے۔ اگر عہدہ برآ ہو سکے تو تَعہد اُس کا قبول کر۔ میں نےکہا: سُننے سے معلوم ہو کہ وہ کیا شرط ہے۔ فرمایا کہ آج تو مہمان ہمارا رہے، بعد ازاں اظہار کیا جائے گا۔
القصہ جس وقت سیّاح جہاں پیما آفتاب کا قَطع مسافت گیتی کا کر کے بیچ آرام گاہ منزل مغرب کے پہنچا اور مسافر سَریع السیر ماہ کا منزل گاہ مشرق کے سے برآمد ہو کے روانہ منزل مقصود کا ہوا، میرے تئیں بیچ حریم حرم تعظیم کے لے گئے اور اوپر فرش مُکلّف کے بٹھلایا۔ اتنے میں ریش سَفیدان و اَکابِران ملکہ کے آن کر بیچ صحبت میری کے بیٹھے اور خوان دعوت کا آراستہ کیا۔ بعد فراغ طعام کے ایک لمحہ کے بعد ایک دائی برآمد ہوئی اور کہا کہ بہرہ ور کو بُلا لو، وہیں خدمت گاروں نے فی الفور حاضر کیا۔ ایک مرد بصورت اکابران لباس فاخرہ پوشیدہ و قریب ہزار کلید بہ میاں آویزاں آ کر پہلو میرے بیٹھا۔ دائی نے کہا کہ جو کچھ دیکھا ہے مفصّل بیان کر۔ اس عزیز نے گلدستۂ رنگین بہار اس داستان کے تئیں بیچ چمن زار محفل مِینُو مشاکل کے یوں نشو و نما کیا ؎
ہست ایں قصّہ داستانِ عجیب
ہوش باید کہ نکتہ گوش کند
بہرہ دارد این بیان عجیب
مرد باید کہ جرعہ نوش کند
اے جوان ملکہ! ہماری ہزار غلام تجارت پیشہ رکھتی ہے کہ کمترین آنہا یکے منم اور سب کے تئیں سرمایہ دے کر ہر طرف عالم کے بھیجتی ہے۔ جس جس طرف سے تجارت کر کے آتے ہیں تو اَوضاع اور اطوار اس دیار کے سے تفحّص و تفتیش احوال کا کرتی ہے۔ اتفاقاً ایک مرتبہ یہ کمترین بھی واسطے تجارت کے گیا تھا کہ گذر میرا بیچ شہر نیمروز کے ہوا۔ تمام آدمی وہاں کے سیاہ پوش دیکھے، وہاں کی خلقت پر سخت ماتم تھا۔ چہرہ ہر ایک کا پُر از غم تھا اور باعث اس کا جس کسی سے پوچھا، جواب نہ پایا۔ آخرش چند روز گذرے کہ موافق قاعدہ مستمرہ کے کنارے افق کے سے جب ماہ نو پدیدار ہوا اور وقت صبح کے شاہ زرّیں کلاہ مہر کا اوپر تخت زمردیں آسمان کے جلوہ افروز ہوا، خلقت شہر کی و جَمیع مردُم از ہفت سالہ تا ہفتاد سالہ سب نکل کر بیچ ایک صحراے وسیع کے آئے اور بادشاہ عالی جاہ، کَیواں بارگاہ، ملائک سپاہ، خَلایق پناہ اُس ملک کا اوپر تخت رواں کے بیٹھا اور تمام خلق اللہ صف باندھ کے کھڑی منتظر تھی کہ ناگاہ ایک جوان فرشتہ طلعت، زیبا صورت کہ آفتاب نے تاب دیدار اُس کے کی نہ لا کر شیوہ ہَرزَہ گَردِی کا اختیار کیا ہے اور ماہتاب بیچ آرزوے جمال با کمال اُس کے کے داغ حسرت کا اوپر جییں کے رکھتا ہے، جوشاں و خروشاں و کف بہ لب، اوپر ایک گاؤ زرد کے سوار، بیچ سن چہار دہ سالگی کے، کچھ ایک چیز بیچ ہاتھ کے لیے طرف خَلقت شہر کے پہنچا۔ بیت:
گوے بہ زمیں ستارہ آمد
یوسف بہ جہاں دوبارہ آمد
اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھوں فرد:
نکلا ہے وہ ستم گر تیغ ادا کو لے کر
سینہ پہ عاشقان کے اب فتح باب ہوگا
وہ سوار پیادہ پا ہو کر جَلو گاؤ کی بیچ ہاتھ کے لپیٹ کر شمشیر بَرہنہ در دست دو زانو مقابل صف خلقت شہر کے بیٹھا اور ایک غلام سِیم اَندام، دل آرام، پَری پیکر، بَدیعُ الجَمال، لطیف الاعتدال، بیت:
دیدہ از دیدنش نگشتی سیر
ہم چناں کز فرات مستسقی
ہمراہ اس کے تھا، بہ موجب امر جلیلُ القَدر خداوند نعمت اپنے کے وہ تحفہ ہاتھ اُس کے سے لے کر ایک سرے سے دکھلاتا چلا۔ جو کوئی اُس صنعت کو دیکھتا تھا بے اختیار بیچ تعریف اور توصیف اُس کی زبان ثنا کی کھولتا تھا اور اوپر صانع اُس صنعت کے ہزارہا تحسین و آفریں کرتا تھا۔ فرد:
کوئی کب مقابل ترے ہو سکے
خدا نے تجھے دی ہے صنعت گری
ناگاہ نوبت اُس کی مجھ تک پہنچی۔ فی الواقعہ عجب تحفہ تھا اور نہایت کاریگری کی تھی۔ چوں ازیں سر تا بہ آں سر، سب خلقت طواف اُس نادِرُ الادوار کا کر چکی، بیچ خدمت خداوند نعمت اپنے کے لایا۔ اُس جوان نے اُس جا سے جَست کر کے مرتبان کے تئیں اوپر زمین کے دے مارا اور ٹکڑے کیا اور ایک ضرب شمشیر کی اوپر گردن غلام کے جھاڑ کر اور اوپر گاؤ کے سوار ہو کر جس راہ سے آیا تھا، روانہ ہوا۔ جب تک کہ بیچ نظر خلقت شہر کے نمایاں تھا، سب دیکھتے تھے اور بے اختیار روتے تھے۔ جس وقت وہ جادو ادا، حور لقا ناپیدا ہوا، خاموش ہو رہے۔ میں نے جتنا کہ اکثر مردم کو بہ زر فریفتہ کیا اور نپٹ تملق اور چاپلوسی سے تفتیش احوال اس جوان گاؤ سوار کا کیا، اصلاً کسی نے میرے تئیں اوپر حقیقت احوال کثیر الاختلال اُس کے سے مطلع نہ کیا۔ ملکہ ہماری نے جب سے میری زبانی یہ بات سُنی ہے، نہایت تعجب اور حیرت میں ہے اور کمال تَعشّق سے ساتھ اس شعر کے اِشتغال رکھتی ہے، شعر ؎
بلاے عشق سے کچھ چھوٹنے کی راہ نہیں
خجل نہ کر مجھے مہماں، مرا نہ ہو اے عشق
جہاں کے بیچ کہیں آبرو نہیں اس کو
بغیر مے کدہ یارو کہیں پناہ نہیں
کہ میری آنکھوں میں آنسو جگر میں آہ نہیں
یقیںؔ جو حضرت خوباں کا خاک راہ نہیں
اور اُس روز سے ملکہ نے اپنا مہر بھی یہ مقرر کیا ہے کہ جو کوئی انکشاف اس راز سَر بَستہ کا کرے، مالک ملک اور ملکہ کا ہو۔ اگر تجھ سے یہ شرائط ادا ہو سکے تو بسم اللہ، کمر عزم کی اوپر ہمّت کے باندھ کر روانہ منزل مقصود کا ہو، والّا نہ پھر حرف مواصلت ملکہ کا اوپر زبان کے لائیو۔ اگر ایں شرط بجا آوری بہ مطلب رسیدی والَّا آنچہ دیدی از خود دیدی۔ القصہ جس وقت بہرور کلمات حیرت افزا اس داستان بے نظر کے روبرو میرے بیان کر چکا تب میں نے در جواب عرض کیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ اگر فضلِ الٰہی شامل حال ہے تو بعد از چند روز کے اُس مکان پر پہنچ کر جواب با صواب اس بات کا دیتا ہوں لیکن اگر ملکہ ایک عُقدہ ما لاینحل کہ بیچ خاطر میری کے خلش رکھتا ہے، کھولے اور پیچھے پردے کے بلا کر عرض میری بہ گوش ہوش استماع کرے بعید از مسافر پروری و بندہ نوازی سے نہ ہوگا اور یہ مناجات بیچ جناب قاضی الحاجات کے عرض کیا، مناجات:
اَحدا سامع المناجاتِ
صمدا کافی المہّماتِ
ہیچ پوشیدہ از تو پنہاں نیست
عالم السّر و الخفیاتِ
ہر دعای کہ می کنم شب و روز
اِستجب یا مجیب الدعوات
القصہ دائی نے التماس میرا بیچ حُضور لامع النّور، اس تخت نشین کِشور حسن و غرور کے گزارش کیا، چنانچہ از راہ عنایات بے غایات میرے تئیں بہ وسیلہ دائی کے متصل پردے کے بُلایا۔ جس وقت کہ گذر میرا بیچ خلوت سراے خاص کے ہوا بہ مجّرد ملاحظہ کنیزکان و خَادمان حضور وافر السُّرور کے کہ ہر ایک بیچ حُسن و جمال کے گردا خوبان صبیح و لُعبتان ملیح کے سے لے گئی تھی، حواس خمسہ میرا بیچ کمال تخلُّل کے آیا اور سننے سے سرود اور دیکھنے سے رقص کے کہ بہ لحن داؤدی و بہ اداہاے خوبی و غمزہ ہاے محبوبی کے، بیچ کام اپنے کے بے نظیر و عدیم المثال تھیں، ہوش بجا نہ رہا اور دل بے اختیار چاہتا تھا کہ نعرۂ عاشقانہ بہ آواز بلند سر کر کے راہ صحرا کی لوں اور مجنوں وار اپنے تئیں بیچ شوق جمال ان لیلیٰ نژادوں کے بیچ ہر کوے و بَرزن کے رسواے خاص و عام کا کروں لیکن بہ امید وصال اُس پری تمثال کے طبیعت اپنی پر استقلال کو راہ دی اور یہ مصرع زبان میری پر گذرا ؏
ایں کہ می بینم بہ بیداریست یا رب یا بخواب
حاصل کلام یہ کہ ملکہ بیچ ایک مکان مطبوع و دلکش کے، فرد ؎
گلِ سُرخش چو عارضِ خوباں
سنبلش ہم چو زلفِ محبوباں
کہ نمونہ بہشت بَریں کا تھا، بیٹھی تھی اور باہر پردے کے ایک صندلی مرصع میرے واسطے بچھوائی اور دائی باہر پردے کے متصل صندلی کے آ بیٹھی اور مجھ کو اشارہ بیٹھنے کا کیا اور فرمایا کہ کہہ جو کچھ کہنا ہے۔ میں نے اوّل زبان اپنی بیچ توصیف و تعریف خوبی ہاے ذاتی و صفاتی و مسافر پروری و بندہ نوازی ملکہ کے کھولی، بعد ازاں عرض کیا کہ ملکہ زمانی مَرجَع آمال و اَمانی، سلامت! جس روز سے یہ فقیر دیدہ سے قدم کر کے داخل سرحد ملکہ مہر نگار سخاوت شعار کے ہوا، بیچ ہر منزل اور مقام کے کارگزاران و عہدہ داران سرکار کے نے بیچ سر انجام لوازمہ ضیافت کے اور اسباب شب خوابی کے مبلغ خطیر بہ طریق نذر و نیاز کے و انواع تحفہ جات از قسم جواہر و ظروف طلائی و نقرئی و از لوازمہ پوشاک دیبا و حَریر و پرنیاں و سمور و سنجاب و قاقم سے متواضع ہو کر تین تین روز سے کم رخصت نہ کیا بلکہ رخصت ہونا میرا موجب ناخوشی و آزردگی کے جانا اور جو کچھ کہ مبلغ نمایاں و اسباب نفیس و طلا آلات و جواہر آلات از قسم پاندان و چوگھڑہ و چنگیر مرصّع و چلمچی و آفتابہ و ظروف اکل و شرب طلائی و نقرئی و پوشاک خاصہ براے پوشش ہر روز و فرش فروش ملوکانہ و چاندنی و شامیانہ کہ درمیان مہمان خانہ بہ توجہ کارگزاران عاقل و فرزانہ جمع ہوا تھا، بیچ قبض و تَصَرّف میرے چھوڑا اور جس قدر کہ یہ فقیر در حالت تباہ ہر ایک متنفس سے منزل بہ منزل بہ سلوک و رعایت مَرعی ہوا ہے اسی قدر بلکہ زیادہ ازیں جس فلک زدہ و سرگشتہ بادیہ غربت کا گذر طرف ممالک محروسہ خاص کے پڑا، مال دنیا سے مستغنی و بے نیاز ہوا ہے مگر اندیشہ یہ دل میں رہا کہ بیچ سرکار ملکہ کے اس قدر دولت خداداد و بے زوال کہاں سے بہم پہنچائی ہے۔ چنانچہ اگر انتفاع ولایت کا مد نظر کیجیے تو فقط ایک خرچ مہمان خانہ سے عہدہ برآئی معلوم، تابہ دیگر اخراجات چہ رسد۔ اگر یہ عقدہ مشکل بہ توجہ ملکہ ملک سیرت آفتاب صورت کے سے اوپر خاطر نیاز مآثر اِس ثنا خوانِ حاشیہ نشینان بساط دولت و اقبال کے حل ہو تو بہ خاطر جمع اوپر امر مامورہ کے رہ نورد بادیہ تلاش و تردّد کا ہو کر شاہد مراد کا بیچ آغوش کامرانی کے لاوے۔ در جواب فرمایا کہ اے عزیز سراپا تمیز! اگر چاہتا ہے کہ اس سرگذشت پر اطلاع حاصل کرے، آج بیچ مہمان خانہ کے اور مقام کر۔ جس وقت کہ شاہ انجم سپاہ کا اوپر عرصہ نیلگوں آسمان کے سَریعُ السِّیر ہو، اپنے تئیں حسب الطلب حضور کے نزدیک ہمارے پہنچا، تیرے تئیں اوپر حقیقت احوال اس مقدمہ کے اطلاع مفصل دی جائے گی۔ پس میں وہاں سے اُٹھ کر بیچ مہمان خانہ کے آیا اور ملکہ بیچ خلوت سراے خاص کے تشریف لے گئی اور میرے واسطے سب اسبابِ عیش و طرب و اکل و شرب کا خدمت گاران اور خواجہ سرایان سرکار کے نے مہیا اور موجود کیا۔ جس وقت کہ زاہد صَومَعہ دار روز کا بیچ خلوت خانۂ مغرب کے گیا، ملکہ نے میرے تئیں معرفت دائی کے حضور میں طلب کیا۔ مکان خلوت سرا بادشاہی کا روشنی جھاڑ بندی کے سے مثل روز کے تاباں و درخشاں تھا اور شمع دان طلائی و نقرئی و بلوری و مرصع و دو شاخہ و چہار شاخہ بلکہ درخت ہاے روشنی شاخ در شاخ فروزاں و لمعاں تھے اور فرش ملوکانہ و مسند زربفتی و نقرئی و طلائی و شامیانہ ہاے زردوزی پاکیزہ باطنابہاے ریشمی و زری و جھالر مروارید بے شکن و شکنج استادہ و اسباب ثروت و حشمت آمادہ۔ ایک جانب کو مردم اہل طرب منتظر مجرائی اور ایک سمت کو مردم شاگرد پیشہ از براے خدمت مستعد مجلس آرائی۔ میں نے جو یہ اوج و حشمت اور سامان و ثروت اور روشنی مکان کی دیکھی، دائی سے پوچھا کہ ہر روز بہجت اَفروز و ہر شب شب قدر اسی طور سے ہنگامہ آرائش سے معمور ہوتے ہیں؟ کہا کہ ہمیشہ سے یہاں یہی معمول ہے۔ ملکہ اس وقت بیچ خلوت خانہ کے ہے، تو ایک دم یہاں ٹھہر تو میں جا کے خبر کروں۔ پھر اُسی وقت اندرون خلوت سرا جا کے میرے تئیں بُلوایا۔ میں کہ داخل خلوت خانہ کے ہوا تمام جڑاؤ اور آئینہ بندی سے ہر ایک تختہ حلبی دراز تر از قد آدم نظر پڑا کہ بیچ ہر ایک محراب اور نشیمن کے نصب کیا ہے۔ یہ کیفیت مکان کی دیکھ کر ہوش دماغ میرے سے پَرَّاں ہوا اور یہ شعر بے اختیار زبان سے نکلا، بیت ؎
اگر فردوس بر روے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
جو غور کر کے دیکھا تو معلوم کیا کہ جواہر تمام عالم کا جمع کر کے اُس مکان میں جَڑ دیا ہے۔ پس ملکہ عقب پردے کے بیٹھی اور دائی نے باہر پردے کے بیٹھ کر میرے تئیں حکم بیٹھنے کا فرمایا۔ القصہ دائی نے حسب الاِرشاد ملکہ کے عروس مُدعا کے تئیں اوپر منَصّۂ اظہار کے یوں جلوہ افرز بیان کا کیا کہ۔
والی اس دیار کا ولی نعمت ملکہ کا تھا اور ہفت دختر مثل تابندہ اختر کے اولاد رکھتا تھا۔ اتفاقاً روز جشن کے سبھوں نے اپنے تئیں بہ لباس ملوکانہ مرتب اور نہفت کیا تھا اور حضور بادشاہ کے حاضر تھیں۔ اِس اثنا میں خسرو عالی تبار و بخت بیدار نے فرمایا کہ اگر جناب مقدس قدر قدرت و قضا سطوت حضرت ولی نعمت قبلہ حاجات تمھارا نہ ہوتا تو تم کو ملکۂ زماں و زمانیاں اور نور دیدۂ جہاں و جہانیاں کون کہتا۔ پس تم سب کے تئیں بہ سبب میرے یہ عزت اور افتخار حاصل و مُتَواصل ہے۔ اُن ساتوں میں سے چھ لڑکیوں نے کہا کہ حضرت سلامت! الحق است۔ فی الواقع کہ جو کچھ زبان مبارک بیان سے ارشاد ہوتا ہے، سچ ہے اور یہ بات بے شبہ و شک ہے مگر یہ بادشاہزادی کہ سب سے چھوٹی تھی اور بیچ سَن خورد سالگی کے ہوش و شعور سے بہرہ وافی و نصیبہ کافی رکھتی تھی، خاموش رہی اور بالاتفاق ہمشیرہ ہاے کلاں کے اس کلام میں کہ کلمہ فی الحقیقت کفر کا تھا نہ بولی۔ بادشاہ نے بہ چشم عبرت اس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اے فرزند دلبند و جگر پیوند! باعث خاموشی تیری کا معلوم نہ ہوا۔ عرض کیا کہ اگر تقصیر معاف و جاں بخشی ہو تو یہ کمینہ پرستار عرض کرے۔ فرمایا کہ کہہ، کیا کہتی ہے۔ عرض کیا کہ حضرت سلامت! اَلحقُّ مُرّ بیچ سمع مبارک کے پہنچا ہوگا۔ اگرچہ مستوجب عتاب کا ہے اور اس وقت کی راست گوئی وبال جان کی ہے لیکن منشی تقدیر کے نے لوح پیشانی میری پر جو کچھ کہ روزِ ازل سے لکھا ہے کسی طور سے مٹ نہیں سکتا۔ جس قادر علی الاطلاق نے کہ از راہ فضل و کرم اپنے کے ذات مَیمنت آیات تمھاری کو فرماں رواے اقالیم کا کیا ہے، ہم کو بھی اسی نے ملکۂ جہاں و جہانیاں مقرر کیا ہے۔ اور اَستَغفِرُ اللہ آپ کا اس مقدمہ میں کیا ذکر ہے، ذات فایض البرکات تمھاری کو قبلہ و کعبہ دو جہاں کا جان کر خاک پاے مبارک کو کحل الجواہر دیدۂ بینا کا کرنا مُسلّم، لیکن طالع ہر کسی کے ساتھ اُس کے راہ بر ہیں۔ بادشاہ کے تئیں بقول اس کے کہ چھوٹا منھ اور بڑی بات، یہ سخن سخت ناپسند آیا اور بے حد برا مانا اور جی سے بیزار ہوا اور فرمایا کہ زیور اور لباس اس کا لے کر ایک پالکی میں ڈال کر بیچ صحراے لق و دق کے کہ جہاں کوئی انسان کا نام نہ ہو چھوڑ آؤ۔ چنانچہ بیچ نصف شب کے کہ تاریک تر از شبِ دیجور تھی، بہ موجب حکم بادشاہ کے اس ملکہ فرشتہ طلعت پاک طینت کو بیچ ایک صحراے ہولناک و جاں گداز کے چھوڑ آئے اور بادشاہ زادی کہ بیچ دریاے غم و اندوہ کے از سر تا پا غرق تھی، کمیں داران خواب کے اوپر قافلہ بیداری اس کی کے تاخت لا کر متاع ہوش کی غارت کی۔ باقی شب بیچ خواب غفلت کے کاٹ کر جس وقت مؤذن صبح خیز شمس کے نے اوپر مصلّی نیلگوں فلک کے نماز فجر کی ادا کی، ملکہ خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور اپنے تئیں محرمانِ ہمراز و مصاحبانِ دمساز سے تن تنہا دیکھا، دوگانہ شکر کا بیچ جناب خداوند حقیقی کے ادا کیا اور زار زار اس دشت ناہموار و صحراے پُر شیر و مار میں روتی تھی، بیت ؎
خدا کسی کو نہ دکھلاوے دن جدائی کا
تصّدق اپنے محمدؐ کی پارسائی کا
بارے پالکی میں سے اٹھ کر چند چوب جمع کر کے استادہ کیے اور غلاف پالکی کا اوپر اس کے ڈال کر سایہ بنایا اور یاد الٰہی میں مستغرق اور مشغول ہوئی۔ سچ ہے کہ برے وقت کا اللہ ہی یار ہے۔ القصہ سہ شبانہ روز گذرے۔ گُرسنہ و تشنہ، حیران و پریشاں، گریاں و نالاں، ضعیف و نَزار ہوئی۔ چنانچہ گل روے مبارک اس کے کا آفت صرصر حوادث کے سے پَژمردہ و خَمول ہو گیا۔ روز چہارم جس وقت کہ موسی فلک نے ید بیضا آفتاب کا بلند کیا، ایک فقیر مرد پیر، روشن ضمیر پیدا ہوا۔ ملکہ کو بایں حالت تباہ دیکھ کر اور اوپر حقیت حال خُسراں مآل اس کے سے مطلع ہو کر کہا کہ اے نور چشم، راحت جانِ ایں ناتواں! تو دختر روشن اختر حضرت بادشاہ ظل اللہ کی ہے، از گردش دورانِ دوں و حادثات زمانہ بوقلموں مصؤون ہو گئی ہے۔ اب اس فقیر کو اپنا خادم جان کر بیچ اس جنگل سخت کے یاد الٰہی میں خوش رہ، خدا خوب کرے گا اور پارچۂ گدائی کہ بیچ کجکول کے رکھتا تھا، کھلایا اور پانی بہ تلاش میسر کرکے پلایا۔ بارے ملکہ اندک ہوش میں آئی۔ جو فقیر نے بے کس و بے چارہ و از خانماں آوارہ دیکھا از راہِ لطف بزرگانہ و شفقت مُربّیانہ کے تسلی و دلاسا دلبری اور دلداری از حد زیادہ کی اور اوپر احوال کثیر الاختلال اس کے بہت رویا۔ چنانچہ وہ درویش دِل ریش محبت کیش ہر روز واسطے گدائی کے بیچ شہر کے جاتا اور جو کچھ کہ خدا تعالیٰ از راہ پرورش و بندہ پروری کے دیتا، سو لا کر بیچ خدمت ملکہ کے حاضر کرتا۔ اسی طور سے چند روز گذرے۔ ایک روز ملکہ نے کنگھی اور تیل طلب کیا اور وقت شانہ کشی کے ایک جوہر آبدار بالوں میں سے مانند ستارہ کے گرا۔ ملکہ نے اس کو حوالہ فقیر کے کیا اور کہا کہ اس کو شہر میں لے جا کر بیچ لا۔ چنانچہ درویش اس موتی کو بہ قیمت پانسو روپے کے بیچ لایا۔ ملکہ نے فرمایا کہ ایک حویلی لایق گزران کے اس مکان پر بنایا چاہیے۔ فقیر نے کہا کہ اے فرزند! قدرے قدرے مٹی کھود کے جمع کر، ایک روز پانی لا کر دیوار بنانا شروع کروں گا۔ ملکہ نے حسب الاِیما فقیر کے مٹی کھودنا شروع کیا۔ تماشا قدرت کا دیکھیے کہ جس وقت ایک گز گڑھا کھدا ہوگا، ایک دروازہ نظر آیا۔ بہ مجّرد کھولنے در کے ایک خانہ عالی کہ تمام جواہر و اشرفی سے مُلبَّب تھا، ملاحظہ کیا بقول آنکہ، بیت ؎
کیمیا گر بہ غصّہ مردہ بہ رنج
ابلہ اندر خرابہ یافتہ گنج
ملکہ نے قدرے اشرفی لے کر وہیں بدستور سابق بند کیا اور خاک اوپر اس کے ڈالی کہ اس اثنا میں فقیر آیا۔ ملکہ نے فرمایا کہ معماران استاد کار و مزدوران چابک دست کو لاؤ کہ اس مکان پر ایک عمارت عالی بنیاد اور نقشہ شہر پناہ و حویلی شہر و قلعہ کا تیار کریں کہ یادگار زمانہ رہے۔ القصہ حسب الامر کرامت اثر ملکہ جہاں کے ایک عمارت عالی و شہر و شہر پناہ از خلل خالی تیار کی۔ بعد چند روز کے خبر اس بنیاد خجستہ نہاد کی بیچ عرض خدمت ظلِ سبحانی خلیفۃ الرحمانی کے کہ قبلۂ دو جہانی و کعبۂ جاودانی ملکہ زمانی کے تھے، پہنچی۔ وہ بادشاہ عالی جاہ، خلایق پناہ، فلک بارگاہ، انجم سپاہ سننے اس واردات کے سے حیران و متعجب ہوا اور جتنا کہ تفحص اس ماجرے کا کیا، از بس کہ کوئی مطلع اس مقدمہ کا نہ تھا، مفصل حضور پُرنور میں عرض نہ ہوا۔ آخر الامر بادشاہ نے معرفت یکے از ملازمان بارگاہ کے پیغام کیا کہ میں واسطے دیکھنے حویلی اور باغ اور نقشہ شہر و شہر پناہ کے، خصوصاً براے دریافت کرنے حقیقت حال ملکہ زمانی کے کہ کس خاندان سے ہے، تشریف لایا چاہتا ہوں۔ ملکہ نے بہ مجرد سننے اس مژدۂ راحت افزا کے بہ ہزار جان و دل خوش و خرم ہو کر در جواب عرض کی کہ حضرت جہاں پناہ سلامت۔ بیت ؎
اے از نظر تو کار ما راست
آراستہ تو ہر چہ ما راست
سننے خبر بہجت اثر تشریف آوری حضرت خداوند نعمت کے سے سر عزت افتخار کا اوپر فرقِ فرق داں کے رکھا، شعر ؎
زہے طالع زہے دولت زہے بخت
کہ تشریف آورد چوں تو جواں بخت
زہے طالع و نصیب اس مکان کے جس جا پر وہ شہنشاہ کیواں بارگاہ قدم رنجہ فرما کر ساکِنان اس دشت و دیار کے تئیں بہ نظر تفضّل و ترحّم کے سرفراز و ممتاز فرماویں۔ رباعی:
اے آمدنت باعث آبادیِ ما
ما را چہ بود تا نثارت سازیم
ذکر تو بود زمزمۂ شادی ما
قربان سر تو باد آزادی ما
یہ کنیز بے تمیز، سراسر ناچیز، امیدوار تفضّلات بادشاہانہ و تفقُّدات کریمانہ سے یوں ہے کہ فردا روز پنجشنبہ کہ روز مبارک و ساعت سعید بیچ حق اس کمترین کے بہتر از نو روز و روز عید ہے، تشریف ارزانی فرماویں اور جو کچھ کہ اس سرگشتہ بادیہ ناکامی سے سربراہ ہو سکے، نوش جان فرماویں۔ بادشاہ نے انگشت قبول کی اوپر دیدۂ رضا کے رکھ کے التماس ملکہ کا مقرونِ اجابت کیا۔ بارے ملکہ نے ملازمان بارگاہ و کارگزاران درگاہ اپنے کو فرمایا کہ لوازمہ ضیافت کا بہ آئین شائستہ جیسا کہ لایق بادشاہوں کے ہوتا ہے، جلد تیار کریں بلکہ آپ بھی بہ جان و دل مصروف بہ کاروبار مہمانی کے تھی۔ چنانچہ از قسم انواع طعام ہاے لذیذ و غذا ہاے لطیف و شیرینی ہاے خوشگوار و ہر گونہ مُربّہ و اچار، و ہفت خوان جواہر و اشرفی و چند خوان پشمینہ و شالینہ و تاش و زری بافت و بادلہ و دو زنجیر فیل فربہ و طویل و دہ راس اسپ خوش رنگ و باد رفتار معرفت سوداگران شہر کے منگوا کر واسطے پیشکش کے موجود کیا۔ جس وقت کہ خسرو زرّیں کُلاہ آفتاب کے نے خلوت خانۂ مغرب کے سے برآمد ہو کر اوپر تخت زمردیں فلک کے جلوس فرمایا، وہ سلطان عادل دریا دل بہ سواری تخت رواں کے سوار ہو کر بیچ منزل اور مکان ملکہ کے تشریف لایا۔ ملکہ واسطے استقبال کے باجماعت کنیزکان خوش لقا و خوش آواز و سرود خوانان جادو نوا و طایفہ خُدَمہ ہمراہ برآمد ہوئی۔ جیوں ہی کہ تخت بادشاہ کا نظر آیا، ایک مجرا بدستور شاہانہ اس طور سے ادا کیا کہ باعث ازدیاد حیرت بادشاہ کا ہوا اور حضرت قدر قدرت کیواں منزلت کو اوپر تخت مرصع کے بٹھلایا اور آپ دست بستہ حضور میں کھڑی ہوئی۔ بادشاہ نے از سر عاطفت و الطاف کے فرمایا کہ ملکہ کس خاندان عالی سے ہے اور اس ملک بیگانہ میں آنے کا کیا باعث ہے۔ ملکہ نے در جواب آداب بجا لا کے عرض کیا کہ یہ وہی کنیز بے تمیز سراسر ناچیز ہے کہ باعث عتاب و خطاب حضرت خداوند نعمت کے بیچ صحراے جانگداز کے پہنچی تھی۔ بادشاہ نے فی الفور دریافت کر کے از راہِ شفقت پدری کے بغل میں لے کر بوسہ اوپر پیشانی اس سرمایۂ زندگانی کے دیا اور متصل تخت کے کرسی پر بیٹھنے کا حکم فرمایا۔ القصہ ملکہ نے تمام کشتیاں جواہرات و آلات وغیرہ کی نظر مبارک سے گزران کر خاصہ طلب کیا۔ بادشاہ بعد تناول طعام کے متعجب و متحیر بیٹھا اور بادشاہ بیگم کو مع بادشاہزادیوں کے طلب کیا۔ ملکہ نے بیچ خدمت جناب بیگم کے خوان جواہر اور زر کے اس قدر نذر کیے کہ اگر جواہر اور خزانہ ہفت اقلیم کا جمع کریں، شاید کہ پاسنگ اس کے کو نہ پہنچے۔ چند مدت بادشاہ نے بہ حین حیات اپنی سلطنت کی۔ بعد ازاں سلطنت دنیا سے اوپر مملکت عقبیٰ کے کامیاب ہوا۔ بعد رحلت اس شہنشاہ فردوس آرام گاہ کے سلطنت اس ملک کی نے اوپر ملکہ زمانیہ کے قرار پایا۔ پس جس وقت کہ دولت خداداد و بے زوال ہووے اور روز بروز ترقی رہے خسّت کرنا اور مہمان داری سے باز رہنا محض بے جا ہے بقول اس کے، فرد:
ہر کہ دریں عالم است روزی خود می خورد
واسطہ خوشنما ست مفت کرم داشتن
ایک مضمون اور پڑھوں، بیت:
شکر بجا آر کہ مہمان تو
روزی خود می خورد از خوان تو
القصہ دائی نے زبان ہدایت ترجمان سے لآلی دلپذیر اس حکایت بے نظیر کے بیچ صدف گوش سراپا ہوش کے تئیں پُر کرکے کہا کہ اے جوان! حقیقت سرگذشت ملکہ کی اور روز بروز افزونی اس دولت خداداد کی یہ ہے کہ گزارش کی۔ اب تو روانہ منزل مقصود کا ہو۔
الغرض یہ فرہاد دَشت کربت و غربت کا مد نظر اوپر فضل الٰہی کے کر کے اور مُعتَصِم بہ عُروَۃ الوثقیٰ فیض نا متناہی کا ہو کر چلا۔ بعد مدت یک سال کے بیچ ولایت بہجت افروز نیم روز کے پہنچا۔ سکنَہ اس دیار کے مُلَبّس بہ لباس سیاہ، جیسا کہ سنا تھا بہ چشم خود دیکھا اور کئی ایک روز چاند رات کے کہ باقی رہے تھے منقضی ہوئے اور جس روز کہ ماہ نو اوپر فلک کے نمودار ہوا، بدستور مذکور علی الصباح اس کے خلقت اس شہر کی از خورد تا کلاں و از پیر تا جواں و بادشاہ تا وزیر و از امیر تا فقیر تمامی زَن و مرد بیچ صحراے وسیع کے مجتمع ہوئے اور یہ فقیر، قید عشق میں در زنجیر، کام اپنے میں نہایت متحیر اور بے تدبیر، ہمراہ اُس جماعت کثیر کے حیران و پریشاں، مہجور از اقربا و خویشاں، بہ شکل و صورت دَرویشاں، تماشا قدرت الٰہی کا معائنہ کرتا تھا کہ اس عرصہ میں وہ جوان گاؤ سوار ہمچو رستم و اسفندیار نشۂ مستی میں سرشار، مانند سیماب کے بے قرار ظاہر و نمودار ہوا۔ یہ ذرّہ بے مقدار کہ ایک مدت سے مشتاق دیدار، فائز الانوار اُس کے کا تھا، مانند قالب بے جان و بے تاب و تواں، متحیر و حیران رہا بہ حدّیکہ وہ نیّر سپہر عظمت و کَرامت و مظہر شجاعت و شَہامَت موافق قاعدہ مَعہود کے عمل میں لا کر معاوَدَت مکان مالوفہ کو کر گیا اور خلایق شہر کی نے رُخ طرف آبادی کے کیا۔ تب میں نے ورطہ بے ہوشی کے سے اوپر ساحل افاقت کے پہنچ کر کہا۔ بیت:
وہ صنم جب سے بسا دیدۂ حیران میں آ
آتشِ عشق پڑی عقل کے سامان میں آ
فرد:
تہی دستانِ قسمت را چہ سود از رہبر کامل
کہ خضر از آب حیواں تشنہ می آرد سکندر را
مدت یک ماہ تک پھر منتظر اس واردات کا رہا۔ بعد اِنقضاے عرصہ تیسں روز کے کہ میرے اوپر برابر تیسں سال کے گذرے تھے، وہ دن پھر نصیب ہوا اور میں نے اپنے دل پر یہ ارادہ مضبوط کیا کہ اپنے تئیں بہ استقلال طبیعت ہوشیار رکھ کر اور درپے اُس جوان کے جاکر مغز سخن کے سے مطلع ہوں۔ بقول اس کے، بیت:
دکُھ تو دیتا ہے اُسے جی سے رجھادوں تو سہی
شاہ بازِ مدعا کو ہاتھ لا دوں تو سہی
القصہ وہ گاؤ سوار بر آمد ہوا اور بدستور سابق کے وہ تحفہ سب کو دکھلا کے مرتبان کو توڑ کر اور غلام ہمراہی پر وار شمشیر کا کرکے چلا۔ جو یہ بندہ پیچھے اس کے جلد قدم ہو کر روانہ ہوا، خلقت شہر میں سے کئی ایک آدمیوں نے میرے تئیں پکڑا اور جانے نہ دیا اور کہا کہ اگر زندگانی سے سیر ہوا ہے تو اس طرح سے کیوں جی دیتا ہے، کوئی اور طرح مرنے کی مقرر کر۔ ہم اس طرح سے تجھے مرنے نہ دیں گے۔ ایں مرتبہ باز ہموں آش در کاسہ ماند۔ لا چار و مجبور ہمراہ خلق اللہ کے داخل شہر کے ہوا اور ایک مہینہ کہ برابر ہزار سال کے تھا، بہ ہزار خرابی بسر لے گیا اور جو بتاریخ سَلخ کے کہ فی الحقیقت غرَّہ کامیابی میری کا تھا، ماہ نو نظر آیا اور علی الصباح بقول اس کے، بیت:
جس کو لذّت ہے سجن کے دید کی
اُس کو خوش وقتی ہے صبح عید کی
جمیع خلقُ اللہ رونق افزا صحرا کی ہوئی، یہ فقیر از سرگشتہ، بادلِ بَرِشتہ پیشتر ہی پہر رات سے اُٹھ کر بیچ ایک نیستان کے کہ سر راہ اس جوان کے تھا، جا بیٹھا تاکہ کوئی مانع و متعرض احوال میرے کا نہ ہو۔ جس وقت وہ جوان بہ قاعدہ قدیم طریقہ اپنا ادا کرکے باز گشت ہوا اور مانند نسیم کے روانہ مکان مالوفہ کا ہوا، میں نے بھی اُفتاں و خیزاں، رواں دواں تعاقب کیا۔ اُس جوان نے معلوم کیا کہ کوئی شخص آتا ہے، فی الفور جلو گاؤ کی پھیر کے ایک نعرہ مہیب مارا اور شمشیر نیام سے نکال کر حملہ کیا۔ میں از راہ غریبی کے سلام اور آداب بجا لایا۔ تب وہ نا آشنا مزاج متکلم ہوا کہ اے درویش! مفت میں ہوا تھا۔ جا بچ گیا کہ زندگی تیری تھی اور خنجر مرصع نکال کر طرف میرے ڈال دیا۔ گویا کچھ سحر کیا تھا کہ اُس وقت مجھ کو نہ پاے رفتار نہ یاراے گفتار تھا۔ جب کہ وہ شیر غرّاں و پیلِ دَماں پیشتر کو روانہ ہوا، میں بھی جرات کر کے پیچھے سے چل نکلا۔ پھر وہ عزیز آنے میرے سے مطلع ہوکر بہ قصد ہلاک کرنے میرے کے پھرا۔ تب تو میں نے قسم دے کر کہا، فرد:
چھٹے ہم زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے
وصیت ہے ہمارا خوں بہا جلّاد کو پہنچے
اے عزیز! ایسا ہی وار کر کہ تسمہ لگا نہ رہے اور اس رہ نَوردی و بیابان گَردی سے خلاصی پاؤں۔ بہ مجرد سننے اس کلام حیرت انجام کے سر دُھنا اور کہا کہ اے سر گروہ قافلہ شیطان کے! میرے تئیں کیوں ناحق خون میں گرفتار کرتا ہے، جا اپنا کام کر۔ میں نے اوپر “صَاحِبُ الغَرض مَجنُون” کے عمل کر کے پیچھا اُس کا نہ چھوڑا اور کہا، فرد:
تجھ ابروے خمدار سے ہرگز نہ پھرے دل
کیوں جاوے سپاہی دم شمشیر سے ٹل کر
پھر تو دیدہ دانستہ متعرض احوال میرے کا نہ ہوا اور قریب دو فَرسخ کے راہ بیابان کی طے کی۔ اس عرصہ میں ایک باغ نمودار ہوا۔ جوان نے اوپر دروازہ باغ کے پہنچ کر ایک ایسا نعرہ مہیب مارا کہ خود بخود وا ہوا اور آپ اندر تشریف لے گیا اور میں باہر متحیر و متفکر کھڑا رہا۔ بعد ایک ساعت کے ایک غلام چوں ماہ تمام پیام اس مرجعُ الانام کا لے کر آیا کہ اے اجل گرفتہ! اُس ماہ دو ہفتہ نے نہفتہ با ایں حال خراب و خستہ حضور میں طلب کیا ہے۔ چنانچہ یہ تباہ ہمراہ اُس جادو نگاہ کے بیچ خدمت اس شاہ کے پہنچ کر ہم نگاہ ہوا اور ایک سلام بہ آئین اہل اسلام بادب تمام ادا کیا اور بہ موجب ارشاد کے شاد و ناشاد یہ عقیدت نہاد بیچ اُس جاے نو ایجاد کے بیٹھا۔ جوان کو دیکھا کہ بیچ اُس عمارت عالی اغیار سے خالی کے اوپر مسند زریں کے ایک شہ نشین نیکو آئین میں از بس تمکیں نہایت محزوں و غمگیں بیٹھا ہے اور اسباب زرگری کا پیش پا اُفتادہ اور ایک جھاڑ زمردیں جلا دَادہ بیچ تیاری اس کے مستعد و آمادہ ہے۔ بوقت شام کے وقت برخاست ہونے اُس کے کا تھا، غلامان غلماں سرشت کہ گرد شہ نشین اُس کے حاضر تھے، ہر ایک بیچ حجروں کے مخفی ومتواری ہوئے۔ میں بھی یہ طرح دریافت کر کے ایک حجرہ میں گیا۔ وہ جوان عالی خاندان بیچ ایک آن کے دروازے حُجروں کے بند کر کے طرف گوشہ باغ کے روانہ ہوا اور ساتھ اس نر گاؤ سواری کے بہ ضرب و شَلاق پیش آیا۔ جیوں ہی کہ آواز فریاد و فغاں گاؤ کی گوش زد میرے ہوئی، نہایت خوف و رَجا کے مقام میں آ کر اور حجرے سے نکل کر عقب ایک تنے درخت کے پنہاں ہوا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ اُس جوان نے چوب دستی ہاتھ سے ڈال کر اور ایک کلید جیب سے نکال کر ایک مکان مُقَفّل کو کھولا اور داخل ہوا۔ میں نے مانند جسم بے جان کے اس مکان نمونہ طوفان سے حرکت نہ کی۔ چنانچہ بعد ایک ساعت کے اُن نے اس مکان سے نکل کر اوپر پشت اُس گاؤ کے دست شفقت کا پھیر کر ایک بوسہ دیا اور دانہ دکھلا کر متوجہ شہ نشین کا ہوا۔ میں نے اپنے تئیں جلدی بیچ حجرہ کے پہنچایا اور اُن نے دروازے حجروں کے کھول دیے اور غلام باہر آئے۔ آپ وضو کر کے واسطے اداے نماز کے کھڑا ہوا۔ بعد فراغ نماز کے دستر خوان پر بیٹھے کر آواز کی کہ درویش کہاں ہے۔ میں فی الفور باہر آیا اور بیچ خدمت فیض موہبت اس عالی درجت کے حاضر ہوا، اشارہ بیٹھنے کا کیا۔ بہ موجب حکم کے آداب بجالا کے اوپر گوشہ بساط کے مؤدب بیٹھا اور تناول طعام سے فراغت کر کے غلاموں کے تئیں رخصت خواب کی دی اور مجلس خواب کی آراستہ کر کے میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ اے عزیز! سچ کہہ مطلب تیرا کیا ہے۔ میں نے جو کچھ مطلب و مدعا تھا مفصل گزارش کیا۔ وہ مرد ایک آہ سرد دلِ پُر درد سے بر لا کر بے خود ہوا اور کہا، بیت:
الٰہی درد مندی دہ دلِ بے درد منداں را
کہ بے درداں نمی دانند حال درد منداں را
بعد ایک ساعت کے اِفاقت میں آیا اور ایک آہ کھینچی۔ تب تو میں نے حالت تعَشُّق اس کے کی دریافت کر کے بہ قسم کہا،ل کہ اے عاشق صادق و اے ہمدرد موافق! تیرے تئیں لایق ہے کہ اوپر حقیقت حال کثیر الاختلال حیرت اشتمال اپنے کے میرے تئیں مُطّلع کرے کہ اول سرِشتہ مقصود تیرے کا بیچ چنگل کے لا کے بعد ازاں پیروی مطلب اپنے کی کروں، بقول اس کے، بیت:
شاہ بازِ مدعا کو ہاتھ لادوں تو سہی
آتشِ حسرت کو سینہ سے بجھا دوں تو سہی
القصہ اُس مسند نشین کشور عشق کے نے مشفق شفیق اور بہ دل و جان رفیق اپنا جان کر معشوقہ داستاں کے تئیں اس وجہ سے حُلی بند زیور بیان کا کیا کہ میں فرزند دلبند بہ جاں پیوند والی اس ولایت نیم روز بہجت افروز کا ہوں۔ بادشاہ نے وقت تولد میرے مُنجمانِ دانش ور و رمالان خرد پرور کے تئیں طلب کرکے فرمایا کہ زائچہ طالع اس روشن اختر والا گہر نصیبہ ور نونہال، بلند اقبال، خجستہ خِصال، گل گلشن شہریاری، ثمر شجر سعادت و بختیاری کا درست کریں اور حقیقت حال روز بروز، ماہ بہ ماہ و سال بہ سال کی بیچ عرض معتکفان بساط مسرت مناط کے گزارش کریں۔ چنانچہ بعد تَقَیّد کمال کے از راہ علم اپنے، اہل تنجیم نے عرض کیا کہ بہ فضل الٰہی و توفیقات نا متناہی از جمیع کَسب کمالات و فنون شہر یاری و جہانگیری و کشور کشائی کے سے کمال ہی آگاہی حاصل کرے گا اور کوئی دقیقہ از دقایق سخاوت و شجاعت و فتوت و مروت کے سے نہ چھوڑے گا مگر بیچ سن چہاردہ سالگی کے دیکھنے آفتاب یا ماہتاب کے سے ایک خطرہ درپیش ہے۔ لازم کہ تا مدت چہاردہ سال دھوپ اور چاندنی بلکہ آسمان کو نہ دیکھے۔ اگر یہ مدت بخیریت گذری تو کامران جہاں و سلطان زماں و شہریار دوراں ہووے، وَالّا بہت مصیبت اور رنج کھینچے گا۔ اَغلب کہ دیوانہ ہو اور خونریزی کرے بلکہ آبادی اور انسانوں سے اجتناب کرے اور اُلفت ساتھ حیوانوں کے پکڑے۔ چنانچہ یہ حقیقت دریافت کر کے حضرت ولی نعمت قدر قدرت کیواں منزلت نے از راہ شفقت کے میرے تئیں مع دایہ و چند نفر خواص کے بیچ ایک خانہ باغ کے پرورش کا حکم فرمایا اور یہ باغ بیرون شہر کے بنایا ؎
روضۃً ماء و نہرہا سلسال
آن پُر از لالہ ہاے رنگا رنگ
باد در سایہ درختانش
دوحۃً سجع و طیرہا موزوں
ویں پُر از میوہ ہاے گونا گوں
گسترانید فرش بوقلوں
اور دیوار ہاے بلند اور جاہاے طبع پسند چند روز میں بیچ اُس کے تیار ہوئے اور گنبد نمد کا آراستہ بنوا کے شیشہ ہاے حلبی واسطے روشنی کے بیچ اُس کے نصب کیے کہ تابش آفتاب و ماہتاب کی بیچ اُس کے دخل نہ پاوے۔ بندہ مع دایہ و چند خادمہ اور ایک اوستاد، ادیب، صاحب فضل و کمال کے اُس مکان بہشت نشان میں پرورش پاتا تھا اور حقیقت تعلیم علم اور لکھنے ہفت قلم کی ہمیشہ بیچ حضور لامع النور خلیفۃ الرحمانی، قبلہ و کعبۂ دو جہانی، مرجع آمال و امانی کے عرض ہوتی، تا بیچ مدت دہ سال از جمیع علوم بہرہ ور و کامیاب ہوا اور اس باغ کو روضۂ رضواں جان کر فصل بہار میں بہ گلہاے رنگا رنگ و میوہ ہاے گونا گوں بیچ کھانے اور کھیلنے کے مشغول رہتا کہ ناگاہ بیچ ایک دریچہ باغیچہ کے گنبد کے نیچے ایک عجایب گل نظر آیا۔ میں نے اس کے لینے کے لیے ہر چند ہاتھ چلایا، اُس کو نہ پایا اور نہایت تعجب نے منھ دکھلایا اور وہ گل شعاعی اوپر جاے اپنی کے ہر دم زیادہ ہوتا تھا اور میرا ہوش و عقل کھوتا تھا اور میں ملاحظہ اُس کے سے ایک دم غافل نہ ہوتا تھا۔ ناگاہ بلندی گنبد سے ایک آواز تبسم کی بیچ گوش ہوش اس مدہوش کے پڑی۔ گردن بلند کر کے کیا دیکھتا ہوں کہ نمد پارہ شق ہوا ہے اور گویا بدلی کو چیر کر چودھویں رات کا چاند نمودار ہوا ہے، فرد ؎
بہ زیر پیرہنش ہر کہ دید حیراں شد
چہ دید خانہ خرابی کہ دید عریانش
بہ مجرد دیکھنے آفتاب جمال اس پری نژاد کے یہ ذرہ ناچیز خالی از ہوش و تمیز کے ہوا اور یہ کبت کب دیو کا پڑھ اٹھا۔ کبت:
گوری مکھ کنول پڑے لو چن بول بول موتی بھاسیں لاج پر (؟)
شوبھا کے لال دِکھے کوو للچات کوو پھاسے اٹھت روپ کی ساج پر
بادلے کی ساری در دامن کناری جگمگے جیوں تارے چھٹے جھالر کی ساج پر
موتی گوندھے، گوری چمک، جہوں آوان، جیوں نرون کے پاس دوج راج پر (؟)
پھر اپنے کو سنبھال کر دیکھا تو ایک تخت مرصع بیچ ہوا کے اوپر دوش پری زادوں کے مُعلق ٹھہر رہا ہے اور وہ پری نژاد تاج مُکلل بر سر اور چار قب مروارید در بر، جام یاقوت در دست نشہ شراب کے سے سرشار متوجہ زمین کی عالم بالا سے ہوئی اور میرے تئیں اس ماہ دلبری کے نے اپنے آگے بٹھا لیا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور ساتھ کلمات محبت آمیز کے اور سخن ہاے عشق انگیز کے سے میرے تئیں فریفتہ و بندۂ بے درم خرید کیا۔ بند مخمس:
نکلے جو بچن منھ سے جھڑی پھول کلی گویا
امید ستی جل کے دن رین نہیں سویا
تب بیج محبت کا دل بیچ مرے بویا
سدھ بُد نہیں تن من کی سب ہوش و خرد کھویا
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
اور دو جام شراب ارغوانی کے پلا کر کہا ؎
آدمی زادہ بے وفا ہے گا
گرچہ دل تجھ پہ مبتلا ہے گا
چنانچہ عجب حالت بشاشت اور خُرمی کی حاصل اور متواصل ہوئی اور اُس آرام جاں و باعثِ تاب و تواں نے مہربانی ہاے بسیار و الفت ہاے بے شمار سے اس قدر دلبری و دلداری و مہر ورزی و غم خواری کی کہ کسی سے نہ سنی تھی، نہ دیکھی تھی۔ ناگاہ عین مزے میں ایک پری زاد، خانہ برباد نے ہواے فلک سے آن کر کچھ اپنی زبان میں کہا، تب وہ نازنیں بہ قول اس کے ؎
خوبرو خوب کام کرتے ہیں
پل میں دل لے کے بھول جاتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
صبح عاشق کوں شام کرتے ہیں
چہرہ افروختہ کر کے میری طرف مخاطب ہوئی اور کہا کہ اے یار عزیز! چاہتی تھی کہ ایک دم ترددات دنیوی سے یکسو ہو کر ساتھ تیرے داد مُعاشرت اور مُباشرت کی دوں لیکن ازانجا کہ زمانۂ سفلہ پرور عیش برہم زن و روزگار غدار جہاں کہیں کہ دو دل کو یکجا دیکھتا ہے ووہیں نغمہ دوری و مہجوری کا آغاز کرتا ہے، لاچار اور معذور ہوں۔ بیت:
رفتیم و داغ ہجر تو بُردیم یادگار
بر یاد ما تو ہم دل خود را نگاہ دار
میں نے کہا کہ اے مجموعہ خوبی ہاے بے کراں و اے باعث آرام جان ناتواں! پھر کب تشریف لاووگی و اِلّا ہم کو نہ پاووگی ؎
تیرے خیال آنے کی پاووں اگر خبر
سینے کو داغ عشق سے گلزار کر رکھوں
اس واسطے چاہتا ہوں کہ یہ جمال باکمال پھر دیکھوں اور ملاقات سراسر بہجت و نشاط حاصل کروں۔ اس بے سر و ساماں کے تئیں اپنے نام اور مکان سے نشان دیجیے۔ فرد:
ترس تجھ کو نہیں اے شوخ اتنی کیا ہے ترسائی
ترے دیدار کو میں دیدۂ تر سوں کھڑا ترسوں
کہا کہ میں دختر بادشاہ جِنوں کی ہوں اور اوج مکان میرے کے اگر مُرغ تیز رو وہم و خیال کا بال پرواز کا کھول سکے کیا مقدور۔ اس قدر کہا اور تیغ جدائی سے میرے تئیں بسمل کر کے روانہ ہوئی۔ جب تک کہ تخت اس عالی بخت کا مقابل تھا میں اس کو دیکھتا تھا اور وہ مجھ کو دیکھتی تھی۔ آخرش بہ مضمون اس مصرع پر آن ٹھہری ؏
آرام دل برفت و دلم بے قرار ماند
واردات اس احوال کے سے عقل و ہوش میرا کاخ دماغ سے رخصت ہوا اور جہاں آنکھوں میں تاریک نظر آیا اور آشفتہ و پریشاں خاطر، نالاں و گریاں، بادل بریاں و تن عریاں اوپر زمین کے غلطاں بے قرار اور سرشار مانند ابر کے روتا تھا اور کہتا تھا، فرد:
مہربانی ہاے لیلا کرد مجنوں را خراب
ورنہ ایں بیچارہ را میل گرفتاری نہ بود
اور کبھی دل اپنے کے تئیں ساتھ اس شعر کے مشغول کرتا تھا، نظم:
کہاں ہے عزیزاں وہ رشک پری
کہاں ہے وہ گلزار باغ وفا
وہی ہے مرے حرف کا قدرداں
کوئی جا کہے اُس سے میرا پیام
کہ جس کا بہ جاں ہے دو جگ مشتری
کہ ہے شان جس کی سدا دلبری
کہ جوہر نہ بوجھے بہ جُز جوہری
کہ کہتا ہوں از جان و دل ہر گھڑی
شتابی خبر لے کہ بے تاب ہوں
ترے عشق میں بے خور و خواب ہوں
آخرش اوپر احوال کثیر الاِختلال خسران مآل میرے کے دایہ اور معلم نے اطلاع حاصل کر کے نہایت خوف و رجا میں ہو، بیچ عرض سلطانی معروض کیا، فرد:
سر نوشتے چو بد افتاد ز تدبیر چہ سود
کس بہ ناخن نہ کشاید گرہِ پیشانی
بادشاہ نے سننے اس سانحۂ ہوش رُبا و حیرت افزا کے سے بے ہوش و حواس ہو کر وُزراے صائب راے اور حکماے ذوفنون اور علماے مُتبحر کے تئیں تعین گیا کہ بیچ دریافت کرنے اس آفت ناگہانی کے سعیِ موفورہ تقدیم پہنچا کر، بیچ چارہ جوئی شفاے شاہزادہ بلند اقبال کے کوشش فراواں و جہد بے پایاں عمل میں لاویں اور حضرت خدیو کشور جہانیاں، دیں پرور، رعیت نواز، عدالت گستر بذات خود بیچ باغ کے تشریف لائے اور مجھ کو بہ ایں حالت تباہ دیکھا، از راہ شفقت پدری کے اشفاق اور الطاف از حد زیادہ فرمایا اور بیچ بغل کے لیا اور بوسہ اوپر پیشانی کے دیا اور ہر چند حُکما بہ دوا و شربت و غذا اور فضلا بہ دعا اور فقرا بہ تعویذ اور منجمان بہ تصدق چارہ گری کرتے تھے لیکن سعی کسی کی پیش نہ جاتی تھی اور میں روز بروز زرد و لاغر اور بے خور و خواب اور بے قرار و آرام، گرفتار رنج و آلام، بہ تکلیف تمام روز و شب باگریہ و سوز بسر لے جاتا تھا اور یہ پڑھتا تھا ؎
اُس نازنیں کا آنکھوں میں میرے مقام ہے
اُس گلبدن کو میری طرف سے کوئی کہو
دل میں مرے خیال یہی صبح و شام ہے
تیری جُدائی کا مجھے اب غم تمام ہے
بدیں مِنوال بے استقلال تین سال گرفتار رنج و نکال کا تھا، اس عرصے میں ایک سوداگر بامال و زر با کر و فر وارد ہوا و تحفہ ہاے ہر ولایت و اقلیم کے بہ آں صاحب تاج و دیہیم و خداوند ناز و نعیم کے گزرانے اور شرف ملازمت عالی جناب کرامت مآب کا حاصل کیا۔ بادشاہ نے تفتیش حال طبیب ہر ولایت عجیب و غریب از دور و قریب کا کیا۔ اُس سیاح ممالک رُبع مسکوں اور دشت پیماے کوہ و ہاموں کے نے عرض کیا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت! بیچ ولایت ہندوستان جنت نشان کے ایک جوگی پسر بہ نہایت حُسن و جمال اور علم حکمت میں صاحب کمال ایک جزیرے میں دنگ و دوال سے رہتا ہے۔ رباعی:
جوگی پسرے نہفتہ در خاکستر
در خاک فزوں شود جمالش آرے
دُزدیدہ رُخ از لیلی و از مجنوں سر
آئینہ ز خاک می شود روشن تر
برس روز کے بعد ایک روز بہجت افروز کہ روز عید اُس کے کا مقرر ہے، ایک باغ بے زغن و زاغ میں سے بہ خاطر فراغ نکل کر بیچ دریا کے شناوری کرتا ہے اور بعد غسل وقت مُعاودت کے کہ بیماران و رنجوران ہر دیار کے اوپر دروازہ باغ کے از راہِ دور و دراز با عجز و نیاز، چارہ ساز بیچارگان عالم کا جان کر رجوع لاتے ہیں اور فوج فوج جمع ہوتے ہیں، وہ افلاطون وقت اور بقراطِ زماں ایک نظر دیکھ کر بہ ملاحظہ نبض و قارورے کے ایک ایک نسخہ لکھ کر ہر ایک کی گود میں ڈال دیتا ہے اور مریض بہ مجرد عمل کرنے کے شفاے کامل حاصل کرتا ہے۔ اگر حکم ہو تو شاہزادۂ عالی جاہ خلایق پناہ، سلطنت و ابہت دستگاہ کو بیچ جزیرہ مذکور کے پہنچا دوں۔ بادشاہ سننے اس بات کے سے مانند گُل کے شگفتہ و خنداں ہوا اور فرمایا کہ ازیں چہ بہتر۔ اور مجھے ساتھ ایک وزیر صاحب تدبیر اور اُس سوداگر کے روانہ کیا۔ بعد انقضاے چند مدت کے بفضل الٰہی اوپر منزل مقصود کے پہنچا۔ بارے آب و ہوا وہاں کی سے امیدوار زندگانی کا ہوا۔ رباعی:
از فیض ہواش در تنم جاں آمد
بادل گفتم اے اسیرِ غم و درد
یا قاصد خوش خبر ز ملک جاناں آمد
خوش باش کہ شام غم بپایاں آمد
اوپر دل میرے کے ایک فرحت حاصل ہوئی لیکن زبان کو یارائی گفتگو کی نہ تھی اور اشک بے اختیار چشمۂ چشم کے سے جاری تھے اور دل اپنے کو ساتھ اس شعر کے تسلی کرتا تھا، شعر ؎
رسید مژدہ کہ ایام غم نہ خواہد ماند
فراق و ہجر دلا دم بہ دم نہ خواہد ماند
کسے ہمیشہ گرفتار غم نہ خواہد ماند
ز یار رسم جفا و ستم نہ خواہد ماند
چناں نہ ماند چنیں نیز ہم نہ خواہد ماند
بعد اِنقضا کئی ایام کے قریب دو سہ ہزار مریض کے کہ امیدوار شفا کے تھے نہایت شادی اور مبارک بادی سے کہا کہ فردا روز عید سعید جوگی کا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ شفاے کامل نصیب ہر بیمار کو ہوگی۔ القصہ صبح کے وقت کہ خورشید جہاں تاب دریچہ مشرق کے سے برآمد ہوا۔ بعد ایک ساعت کے وہ نیر سپہر حسن و لطافت کا بر آیا اور کہا ؎
در فراقِ یار جوگی گشتہ ام
میل دارد شاہِ من با جوگیاں
بہر آں دلدار جوگی گشتہ ام
زیں سبب لاچار جوگی گشتہ ام
اور بیچ دریاے موّاج کے کہ متصل دیوار باغ کے تھا، واسطے غسل و شناوری کے گیا۔ بعد فراغ عبادت معہود کے طرف بیماران ہر ملک و دیار کے رُخ توجہ کا فرمایا اور ایک قلمدان مرصع در بر و دستار جوڑہ دار بر سر برہنہ، لنگوٹ بند، سینہ فراخ، چار شانہ، خوش شکل، خوبرو، بہ جُفت بروت تاب دادہ، از تمتعات دنیوی آزاد ایک ایک متنفس کو دیکھنا اور نسخہ دینا شروع کیا تاکہ نوبت مجھ تک پہنچی۔ میری طرف دیکھ کر اور متامل ہو کر بعد فراغ جمیع بیماران و امیدواران کے میرے تئیں ہمراہ اپنے بیچ باغ کے لے گیا اور ایک مکان دلچسپ میں حکم رہنے کا فرمایا اور آپ بیچ ایک خلوت خانے کے گیا۔ بعد عرصۂ چہار روز کے میرے پاس آیا اور مجھ کو بہ ہمہ وجوہ خوش پایا، تبسم کیا اور کہا کہ بیچ سیر اس گلزار کے مشغول رہ اور میوہ ہاے گوناگوں جس قدر رغبت طبع ہو تناول کر۔ اور ایک مرتبان معجون کا عنایت کیا کہ برابر نخود کے ہر روز بلا ناغہ عمل میں لا۔ یہ کہہ کے اُٹھ گیا اور میں موافق فرمانے کے عمل کرتا تھا۔ چنانچہ روز بروز قوت و بشاشت حاصل ہوتی تھی لیکن عشق اُس صنم کا غالب تھا۔ ایک کتاب کہ لُب لباب ہر علم و عمل کے تھی، بیچ ایک طاقچہ ایوان کے دھری تھی۔ پس اکثر اوقات اپنے بیچ مطالعہ اُس کے صرف کرتا۔ چنانچہ تمامی عمل و حکمت و تسخیر پر قادر ہوا۔ بعد مدت سال تمام کے روز بہجت افروز عید کے جوگی خلوت خانے سے نکلا اور قلمدان و کاغذ مجھ کو سپرد کیا اور کہا کہ ساتھ آ۔ پس باہر نکلتے ہی بیرون دروازے باغ کے کہ خلقت بسیار اور مریض بے شمار گرفتار مرض و آزار جمع ہوئے تھے، سبھوں نے زبان اپنی بیچ ثنا و تحیت کے کھولی اور وزیر و سوداگر و مردم ہمراہی میرے آداب شکرانہ بجا لائے اور جوگی اوپر قاعدہ مستمرہ کے عمل کر کے متوجہ بیماروں کا ہوا۔ ایک جوان با روے چوں آفتاب و گیسوے مشک تاب کہ ضعف سے قادر اوپر کھڑے ہونے کے نہ تھا، در زمرۂ مریضان و مجانین دیکھا اور بعد فراغ خلق اللہ کے مجھ کو فرمایا کہ اس کو ساتھ لے آؤ۔ چنانچہ بہ موجب فرمانے اُس کے وہ اندرون باغ کے پہنچا۔ پس بیچ خلوت خانہ خاص کے لے جا کر قدرے کھوپری اُس کی تراش کے چاہتا تھا کہ زنبور سے ہزار پایہ کے تئیں کہ اُس کے مغز پر جم رہا تھا، اُٹھاوے اتنے میں میں کہ روزن میں سے دیکھتا تھا، اس حقیقت کو دریافت کر کے بولا کہ دست پناہ اُس کی پیٹھ پر گرم کر کے رکھ خود بخود جدا ہوگا، و اِلا مغز نہ چھوڑے گا۔ پھر خوف زندگی کو ہے۔ یہ سُن کر میری طرف دیکھا اور وہاں سے اُٹھ کر بیچ ایک گوشہ باغ کے جا کر اپنے تئیں ایک درخت سے لٹکایا اور جان بحق تسلیم ہوا۔ میں نے وقوع اس واقعہ جاں گداز سے نہایت تاسف کیا اور چاہا کہ بیچ خاک کے دفن کروں دو کلید جوڑے میں سے نکلے۔ اُسے مدفون کر کے قفل اُن کلیدوں کا متلاشی ہوا۔ جس وقت کہ حجرہ ہاے مقفل دریافت کر کے کھولے، دیکھتا کیا ہوں کہ تمام پُر از جواہر و زر ہیں اور ایک صندوقچہ مخملی طلائی مقفل ایک طاقچہ میں رکھا ہے۔ اس کے تئیں جو کھولا تو اسم اعظم اور ترکیب چِلا نشینی اور تسخیر جنات و ارواح و شمس وغیرہ پایا۔ بہ مجرد دیکھنے اس نعمت عظمیٰ و دولت کبریٰ کے فرحت و نشاط تازہ و مسرت و انبساط بے اندازہ حاصل کر کے یاد کرنا اُن اسموں کا شروع کیا اور دروازہ باغ کا کھول کر مردمان ہمراہی کو ساتھ لے کر جواہر و کتب و زر وغیرہ کشتیوں میں پُر کر کے از راہ دریا روانہ وطن کا ہوا۔ بعد چندے گرد دار الخلافت عالیہ کے پہنچا۔ والد بزرگوار نہایت مشتاق اور بے قرار واسطے استقبال کے آئے۔ میں نے بعد از قدم بوسی کے عرض کیا ؎
حب الوطن از ملک سلیماں خوشتر
یوسف کہ بہ مصر بادشاہی می کرد
خارِ وطن از سنبل و ریحاں خوش تر
می گفت گدا بودنِ کنعاں خوش تر
اس کمترین کے تئیں حکم ہو کہ بیچ اس باغ قدیم کے اقامت پذیر ہوئے۔ فرمایا کہ اے نور چشم! میں نے اُس مکان کے تئیں منحوس و نامبارک جان کر ویران مطلق کیا۔ بہتر یوں ہے کہ بیچ قلعہ مبارک کے ایک حویلی مقطع و مصفا و مکان بہجت افزا، طرب پیرا، رواں آسا پسند کر کے داد عیش و عشرت کی دے اور پائیں باغ واسطے فرحت طبع اور سیر کے مقرر کر۔ میں نے پر بجِد ہو کر اسی باغ کے تئیں از سر نو رشک ارم کا کیا اور بہ خاطر جمع واسطے تسخیر جنوں کے بیچ اربعین کے بیٹھا۔ بعد چہل روز کے ایک بڑی سی آندھی مع غرّش رعد و تپش برق کے نمودار ہوئی اور بادشاہ جنوں کا تخت پر آیا۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے کے سلام بآداب تمام ادا کیا۔ اُس پیر مرد نے کہا کہ اے جوان! مطلب تیرا کیا ہے، میں نے عرض کیا کہ یہ کوچہ گرد صحراے جنوں کا اوپر دختر روشن اختر پاکیزہ گوہر تیری کے ایک مدت سے عاشق و فریفتہ و مشتاق و طاق ابروے حلاوت سے بے مذاق ہے۔ اگر اس مہجور سراپا رنجور کے تئیں شب دیجور مہاجرت کی سے بہ صبح وصال اُس صاحب حسن و جمال کے رہنماے گم گشتگان بادیہ ضلالت و گمراہی کا ہو کر خضر وار چشمۂ جمال اُس نونہال باغیچہ دلبری و دلداری کے سے اس تشنۂ دیدار کو سیراب کرے تو بعید از عنایات بے غایات و توجہات بلا نہایات نہ ہوگا۔ تب اُس بزرگ دانش سُترگ نے کہا کہ آدمی زاد کو ساتھ آتشیں نہاد کے نسبت اور موافقت کیوں کر ہو۔ میں نے بعد از عہد و پیمان واثق کے کہا کہ سواے دیکھنے دیدار فایض الانوار اس سرو جوئبار محبوبی کے اور کچھ سروکار نہیں۔ اُن نے کہا کہ اوپر اس بات کے کہ الکریم اِذا وعد وفی ہرگز راسخ دم و ثابت قدم نہیں رہنے کا کہ آدم زاد کو وفاے عہد نہیں۔ اور بے وفائی مخمر خمیر اس کے کی ہے۔ لیکن میں تجھ سے از راہ خیر خواہی کے کہتا ہوں کہ اگر قصد مباشرت کا کرے گا تو باعث ہلاکت اُس کی کا اور موجب مزید محنت و مشقت تیری کا ہوگا ؎
من انچہ شرط بلاغ است با تو می گویم
تو خواہ از سخنم پند گیر خواہ ملال
میں نے کہا کہ ایک نظر مجھ دیدار فرحت آثار اس کے سے نور افزا دیدہ رمد رسیدہ کا کر۔ رنج و راحت ؏
ہر چہ از دوست می رسد نیکوست
ناگاہ وہ نازنین با نہایت زیب و تزئین دروازے سے در آئی۔ فرد:
کماں ابرو مرے گھر کیوں نہ آوے
کہ جس کے واسطے کھینچے ہیں چلے
اور میں نے مانند جان کے بغل میں لیا اور وہ نازنین وفاے عہد اور پرہیزگاری میری سے نہایت تعجب کرتی تھی اور بایک دیگر بیچ اُس باغ کے بخوبی شب و روز بسر لے جاتے تھے۔ اس آرام جان نے طرف میرے دلسوزی اور یگانگت سے کہا کہ کتاب اپنی سے خبردار رہ کہ جنان بے ایمان لے جائیں گے۔ چنانچہ ایک رات بیچ حالت مستی کے شیطان غالب ہوا اور میں نے چاہا کہ ہاتھ بیچ گردن اُس کی ڈال کر کام دل حاصل کروں۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا کہ کتاب مجھ کو دے، اپنے پاس رکھنی خوب نہیں۔ میں کہ مست خواب غفلت اور عشق اُس کے کا تھا، بے تحقیقات اور شناسائی کے اوراد اور دعوات بغل سے نکال کر حوالہ اُس کے کیا۔ اُس نازنین نے کہا کہ اے ظالم! پند مرا فراموش کر دی کار از دست برفت، اور بے خود ہو کے پڑی۔ میں نے جو پسِ پشت نگاہ کی تو ایک عفریت بچہ نظر آیا۔ میں نے اوپر اُس کےحملہ کر کے جوں ہی چاہا کہ بیچ قابو کے لا کر خوب ہی ضرب شلّاق کروں کہ ایک اور ہی شخص کتاب ہاتھ اُس کے سے لے گیا۔ پس چند افسوں کہ یاد رکھتا تھا، پڑھ کے اُس عفریت بچہ کو بہ صورت گاؤ کیا۔ بعد ازاں جو اوپر بالیں اُس نازنین خجستہ آئین کے گیا، مدہوش اور خاموش پایا۔ عیش میرا ساتھ طیش کے مبدل ہوا اور اُس وقت سے ترک اختلاط کا کر کے اس کنج باغ میں اوقات حیات اپنی کے بسر لے جاتا ہوں اور یہ تیاری نہال زمرد واسطے اِشتغال طبیعت اور رفع سودا کے ہے۔ اور بعد ہر ماہ کے بیچ اس صحرا کے جانا اور مرتبان کا توڑنا اور غلام کا مارنا واسطے کام اس کے ہے کہ خلق اللہ کا دل اوپر احوال میرے کے جلے اور کوئی بندۂ خدا بیچ حق میرے کے دعا کرے کہ بہ مقصد و مراد اپنی پہنچوں۔ احوال میرا یہ ہے کہ گزارش کیا۔ میں نے کہا کہ اے سر گروہِ قافلۂ عاشقاں! قسم ہے رب العزت کی کہ جب تک تجھ کو کامران نہ دیکھوں، تلاش مطلب اپنے سے دست بردار رہوں۔ اور میں نے رخصت ہو کر سر بیچ بیابان کے رکھا۔ تا مدت پنچ سال در شہرہا و بیابان ہا ہرزہ گرد و صحرا نورد رہا۔ لاچار عاجز ہو کر اوپر ایک کوہ کے پہنچا اور چاہا کہ اپنے تئیں پہاڑ سے ایسا ہی ڈالوں کہ استخواں سے نشان نہ رہے کہ ایک متبرک ذات خضر صفات دو چار میرے ہوا اور بہ طریق اُس رفیق کے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ مقصد اپنے کو پہنچے گا، خاطر جمع رکھ۔ اس عرصہ میں ملاقات تمھاری میسر آئی۔ اب امیدوار فضل الٰہی کا ہوں کہ بہ برکت قدوم تمھارے مطلب میرا حاصل ہو۔