﷽
دیباچہ ثناے خداوند ذو الجلال
منشی کے ہو رہا ہے قلم کا جگر شگاف
مقدور کیا کہ وصف پیمبر کا لکھ سکے
لولاک جس کے حق میں خدا نے کیا نزول
پس بعد نعت حضرت خیر البشر کے میں
نازل ہوئی ہے ناد علیؓ جس کی شان میں
بہتر ہے یہ کہ آل عبا پر پڑھوں درود
ہر چند فارسی کی بھی ایسی ہی دستگاہ
اس واسطے یہ ریختہ کی طرز خوب ہے
ایسا نہیں کہ لکھ سکے اس کا کوئی کمال
شاعر کی اس کی حمد میں ہووے زبان لال
پہنچے ہے کس کا نعت مبارک پہ کچھ خیال
ہے دین کے چمن میں وہی سرو نونہال
کرتا ہوں وصف شیر خدا مظہر کمال
تحسیںؔ کو اس کی مدح کے لکھنے کی کیا مجال
من بعد داستان کا لکھنا کروں خیال
رکھتا ہوں لیکن اس کی سمجھ ہے نپٹ محال
جو فہم میں ہر ایک کے آوے مرا مقال
اوپر دانشوران شیریں سخن بزم درایت و رزانت کے اور عاقلان صاحب طبع انجمن بلاغت و متانت کے مخفی و پوشیدہ نہ رہے کہ یہ عاجز ترین خلق اللہ میر محمد حسین عطا خاں متخلص بہ تحسینؔ مخاطب بہ خطاب “مرصع رقم” بعد رحمت والد بزرگوار حضرت میر محمد باقر خاں صاحب متخلص بہ شوقؔ کے کہ تمام ممالک ہندوستان میں نزدیک ارباب کمال کے کمالات دینی و دینوی سے شہرہ آفاق تھے اور واقعی یوں ہے کہ بیچ میدان تشریح و توصیف ذات اس مفرد کائنات کے نسریں ہلال آہوئے قلم کا، اوپر صفحۂ گلشنِ افلاکِ چراگاہِ سفیدۂ کاغذ کے جلوہ نمائش کا پا کر نافہ ریز بہار عرصہ تحریر کا نہیں ہو سکتا۔ اگر ذات فائض البرکات ان کی کے تئیں طغرا منشور فراست عالی یا عنوان مثال بے مثالی کا کہوں، بجا ہے۔ ایزد تعالیٰ غریق رحمت کا کرے۔ برکت صحبت، فیض موہبت، سر حلقۂ سخن طرازانِ دقایق فصاحت و قابلیت، سر دفتر نکتہ پردازانِ حقائق لطافت و اہلیت، فہرست مجموعۂٔ فنون سخنوری و سخن دانی، بسم اللہِ نسخۂ جامع قانونِ الفاظ و معانی، انجمن آراے ضوابط آئین خوشنویسی و عبارت طرازی، چمن پیراے شرایط رنگین فن شاعری و انشا پردازی، خطاط زبردست، صاحب کمال، روشن قلم یعنی حضرت اعجاز رقم خاں صاحب کے سے کہ بیچ اس زمانے کے اقلیم رقم علم و ہنر کے تئیں آرائش دے کر علم استادی کا بلند رکھتے ہیں، استفاضہ آثار تربیت و شاگردی کا حاصل کر کے مزاج اپنے کے تئیں اوپر شوقِ مطالعہ قصہ ہاے رنگیں اور لکھنے افسانہ ہاے شیریں کے از بس مصروف رکھتا تھا، اتفاقاً ایک مرتبہ بیچ رفاقت نواب مبارز الملک افتخار الدولہ، جرنیل اسمتھ بہادر صولت جنگ، سالار افواج انگریزی کے درمیان گنگ بہ سواری بجرہ و مور پنکھی کے سفر کلکتہ کا درپیش آیا لیکن بہ سبب مسافت دور دراز کے بعضے وقت طوطیِ فارغ البال دل کی خفگی مکان کے سے بیچ قفس کشتی کے رکتی۔ اس وقت واسطے شغل قطع منازل کے ایک عزیز سراپا تمیز کہ بیچ رفاقت میری کے قمری وار حلقۂ محبت و اخلاص کا اوپر گردن کے رکھتے تھے، عندلیبِ زبان کے تئیں بیچ داستان سرائی حکایات عجیب و غریب کے اوقات خوش کرتے۔ چنانچہ ایک روز بلبل ہزار داستان اس حکایت دلفریب کے تئیں بھی بیچ گلزار گفتگوے کہانی کے مترنم کیا جو ہر ایک صداے ترنم اس کے کی بے اختیار دل کو لبھاتی تھی کہ سننے سے تعلق ہے، طاؤس نگاریں خیال کا، بیج دماغ خاطر کے یوں جلوہ گر ہوا کہ اگرچہ پیشتر دو تین نسخے از قسم انشاے تحسینؔ و ضوابط انگریزی و تواریخ قاسمی وغیرہ کے بقدر حوصلہ اپنے بیچ عبارت فارسی کے تصنیف کیے ہیں، لیکن مضمون اس داستان بہارستان کے تئیں بھی بیچ عبارت رنگیں زبان ہندی کے لکھا چاہیے کیونکہ آگے سلف میں کوئی شخص موجد اس ایجاد تازہ کا نہیں ہوا اور یہ کہ جو کوئی حوصلہ سیکھنے زبان اردوے معلیٰ کا رکھتا ہو، مطالعہ اس گلدستۂ بہاریں کے سے ہوش و شعور فحواے کلام کا حاصل کرے کہ واسطے علم مجلس کے لسّانی زبان ہندوستان کی بیچ حق آدمی بیرون جات کے خراد کندۂ نا تراش کے تئیں ہے۔ چنانچہ چند فقرے بیچ تفنن طبع کے شروع داستان اول میں نوک ریز خامۂ عجز نگار کے کیے۔ بعد ازاں کہ جرنیل بہادر نیں وقت روانگی ولایت کے اس بندہ عاجز کے تئیں کلکتے سے بہ سرفرازی بعضے خدمات عمدہ صوبہ عظیم آباد کے و مختاریِ مقدمات نظامت کے امتیاز بخشے، اس وقت بیچ تردد خدمات متعلقہ کے دماغ انشا پردازی کا معلوم، مگر منظور نظر و مرکوز خاطر کے تھا کہ اگر زمانہ چند صباح موافقت کرے تو اس آغاز کا انجام دینا گویا بنا زندگانی کی روز محشر تلک مستحکم کرنا ہے۔ آخرش بہ مضمون اس کے کل امر امرھون باوقاتھا چند روز تصنیف کرنا اس کا ملتوی رکھ کے داخل صوبہ کا ہوا۔ اور یہ تماشا قسمت کا دیکھیے کہ بعد ہَرج مَرج مقدمہ سلطنت اور برہمی سلسلہ بندگی دودمانِ تقدس نشان خاندان تیموریہ کے و بہ سبب ارتحال والد بزرگوار اور انقلابات روزگار غدار کے کہ فی الجملہ آئینۂ روزگار میرے کا صیقل توجہات بے غایات سرداران انگریز کے سے جلا پذیر ہو چلا تھا سو بواسطہ زنگ ناتواں بینی بعضے اشخاص مختار معاملہ صوبہ کے سے مُکّدر ہوا۔ لاچار گردش فلکی سے نہ پائے رفتن نہ روئے ماندن، اس وقت چندے اشعار مرزا سوداؔ صاحب کے کہ داد سخن کی دیتا ہے میرے تئیں حسب حال اپنے یاد پڑے کہ یہ سپہر رو سیاہ ؎
در پے رنج و تعب رہتا ہے اہلِ درد کے
میل کھینچے دیدۂ بینا میں یہ تاریک عقل
ابرِ دریا بار کو برساوے دشتِ یاس پر
ہنس کو موتی چگاتا ہے سدا یہ بے تمیز
آن میں اوجِ حسب کو پہنچے مجہول النسب
تا کجا کیجے بیاں اس سفلہ دوں کا مزاج
دکھ دہندوں کی ہوا خواہی میں دے ہے اپنی جاں
پُر کرے کحل الجواہر لے کے چشم سرمہ داں
خشک رکھے مَزرعِ امیدِ ہر پیر و جواں
پوست کھینچے ہے ہُما کا دے کے مُشتِ استخواں
خاک ذلت پر گرے پل میں فلاں ابن فلاں
اک وتیرے پر نہیں، گاہے چنیں گاہے چناں
اس کے تئیں پڑھتے پڑھتے ایک روز بیچ خوابِ شیریں فکر کے گیا ہوں کہ ایک مرتبہ مُلہمِ غیبی نے اوپر دل میرے کہ الہام دیا کہ اے بے خبر! آیۂ کریمہ فَاِنَّ مَعَ العُسرِ یسراً واِنَّ مَعَ العسرِ یسراً جو تو نیں بیشتر اوقات اپنے نہایت خوش حالی و فارغ البالی سے صرف کیے پس چند روز ایام تکلیف کے بھی بسر لے جانا مضائقہ نہیں ؏
چناں نماند و چنیں نیز ہم نخواہد ماند
اور اب جو تصدیعہ کے تئیں اپنے مزاج پر گوارا کیا ان شاء اللہ تعالیٰ بیچ تلافی اس کے عنقریب عروس تمنا کی ہم آغوش شاہد مدعا کے ہوتی ہے۔ زینہار غبار تردد اور اندیشے کا اوپر دامن خاطر کے نہ جھاڑ اور شیشۂ جمعیت دل کا اوپر سنگ تفرقہ کے چور نہ کر، شاید اس میں کچھ بہتر ہو۔ بہ حکم اس کے کہ فعل الحَکیمِ لَا یَخلو عَنِ الحِکمة لیکن تدبیر اس کی یوں ملحق ساتھ تقدیر کے ہے کہ توں ذرۂ بے مقدار جوہر وفاداری اپنے کے تئیں اقتباس نور خورشید قدردانی اس جناب عالی کے سے منور کر کہ اگر تخم اوصاف بزرگی اس کے کا بیچ تختہ بندی خیابانِ کاغذ کے بووے تو بے شائبہ تکلف، نہال عبارت کا رونق بہار شجرِ طوبیٰ کی لا کے رشک گلزارِ جنت کا ہو۔ یعنی نواب مستطاب معلیٰ القاب، گردوں رکاب، شعاعِ شمس الضحیٰ آسمانِ جلال حیدری، جلاے بدر الدجیٰ سپہرِ اقبال صفدری، فرازندۂ لواے وزارت و عالی مقداری، طرازندۂ بساطِ امارت و نامداری، لعلِ شب چراغ افسرِ حشمت و اجلال، دُرّۃُ التاجِ تارَکِ ثروت و اقبال، فیروزۂ تاج سلطانِ ملکِ دولت و کامرانی، یاقوتِ اکلیلِ خاقان ولایتِ شوکت و حکم رانی، اخترِ برجِ شجاعت و فتوت، گوہرِ درج سخاوت و مروت، رکن السلطنۃ القاہرہ، عضُد الدولۃ الباہرہ، صاحب السیف و القلم، رافع الجاہ و العلم، وزیر اعظم، صاحب تدبیر، مدبر معظم، روشن ضمیر، دستگیر درماندگاں، چارہ سازِ بیچارگاں، افتخار ممالکِ ہندوستاں، خداوندِ نعمت، قدرداں، حلیم الوضع، سلیم الطبع، عامل، عادل، فیاض، جواد، مومن، محسن، وجیہ، جمیل، خیّر، مدبر، عالم، عابد، زاہد، مصلی، متقی، صالح، مصلح، امیر، کبیر، شجاع، منصور، غازی، مظفر، وزیر الممالک، عمدۃ الملک، مدار المہام، آصف جاہ، شجاع الملک، اعتماد الدولہ، برہان الملک نواب شجاع الدولہ ابو المنصور خان بہادر صفدر جنگ ادامَ اللہ افضالہٗ و اجلالہٗ کہ کارپردازانِ ملاءِ اعلیٰ میں فدوی قسمت تیری کے تئیں روز ازل سے بیچ زمرۂ نمک چشانی خوانِ مائدۂ فضل و کرم اس کے کی مستفیض کیا ہے اور دروازہ کشائش مطالب دلی تیرے کا کلیدِ تفضّلات اسی عالی جناب کے سے کھولا۔ بارے بندہ بہ موجب حکم اس سروش غیب کے بیچ زینت البلاد فیض آباد کے کہ فی الحقیقت نگینِ خاتم مملکتِ ہندوستان کا ہے، دیدہ سے قدم کر کے داخل ہوا سبحان اللہ، ہر صفحہ اس صحیفۂ فیض کا براے خود ایک گلشن ہے کہ ہر طرف تختہ تختہ بہار خط و خال شاہدانِ زرّیں لباس کی بیچ اس کے رونق افزاے دیدۂ نظارگیوں کے ہو رہی ہے اور ہر کوچہ اس بلدۂ خاص الخاص کا علیٰحدہ علیٰحدہ ایک گلبن ہے کہ ہر سمت رنگ برنگ گلزار حسن و جمال مہوشان گلگوں قبا کے فروغ بخش چشم تماشا بینوں کے ہوتی ہے۔ وسعت صحن قطعۂ چوک کی اگر ملاحظہ کیجیے تو لذت سیر قطعۂ بہشت کی گوشۂ خاطر سے فراموش ہو جاوے اور جو رفعت محراب ترپولیہ کی دیکھیے تو ثنا پردازی بہار ارتفاع کمانچہ قوس و قزح کے سے زبان دل کی خاموش ہو جاوے۔ واقعی کہ شہر کیا ہے ایک تماشا قدرتِ الٰہی کا ہے۔ ایزد تعالیٰ اس دار الامن کے تئیں ہمیشہ رونق سواد دیدۂ ہفت کشور کا رکھے۔
زبس ہوا نیں طراوت سے واں کیا ہے گزار
کمال فیضِ طراوت سے بر سرِ ہر سنگ
گر اس طرف سے صبا ہو کے باغ میں جاوے
عقیق رنگ بدل کر کے ہے زمرد وار
شرر کے تخم سے جمتا ہے وھاں درختِ انار
درخت خشک وہیں سبز ہو کے لاوے بار
ق
ہے بے مبالغہ گر ساکنانِ جنت سے
یقین جانیو دل میں زبس تماشے سے
جو خوب غور سے دیکھا چمن میں قدرت کے
کبھو نہ اس کو گزندِ سپہر سے ہو ہراس
شہر پناہ کی خوبی کا گر بیاں کیجے
شجاع گڑھ کی صفت مجھ سے گر کوئی پوچھے
حَصَانت اس کی حصانت سے آسماں کی زیاد
خدا نے جب کیا شرف البلاد فیض آباد
غرض میں کر نہیں سکتا ہوں اس کی کچھ تعریف
کرے جو سیر کوئی اس دیار کا گلزار
بہ طور دیدۂ نرگس کے ہو رہے سرشار
تو رشک خلد ہے اس قطعۂ زمیں کی بہار
جسے ہے مسکن و ماوا کے واسطے یہ دیار
کتاب خوب پہ جدول کا جیسے ہو سنگار
قلعہ کی شکل زمیں پر ہوا فلک کو قرار
ہے بلکہ رشک سے اس کے دوتا سما کا حصار
کہ سب صفت میں یہ موصوف ہے بہ عز و وقار
کہ ہے وہ زینتِ ہندوستاں بہ نقش و نگار
الحمد للہ و المِنّۃ کہ بہ مجرد پہنچنے کے حضیضِ غربت سے اوپر اوج عزت کے فائز ہو کر شرف ملازمت اس عالی جناب کرامت مآب کا حاصل کیا اور اسی وقت سے بہ مقتضاے تفضلات کمال سے بیچ سِلکِ بندگانِ خاص کے منسلک ہوا۔ جب خورشید قدردانی پرورش خدا یگانی کا اوپر مطلع فیض رسانی روز افزوں کے منور ہو کر نخل تمنا میری کا گلِ مراد سے بارور ہوا، ایک دن تقریباً دو چار فقرے اس داستان کے کہ اول ذکر اس کا بیان کر گیا ہوں، بیچ سمعِ مبارک حضرت ولیِ نعمت کے پہنچائے۔ از بسکہ شاہد رعنا اس حکایت دل فریب کا جلوہ گری کے عالم میں شوخ و شنگ ہے، توجہ دل سے مقبول خاطر و منظور نظرِ اشرف کے کر کے ارشاد فرمایا کہ از سر تا پا اس محبوب دل پسندیدۂ دلہا کے تئیں زیور عبارت سے آراستہ کر۔ اس قلیل البضاعت نیں حسب الامر جلیل القدر کے درخور حوصلہ اپنے کے اس داستان کے معشوق کو حُلی بند زیب و زینت کا کر کے چاہتا تھا کہ اس نازنیں کے تئیں نظر مبارک سے گزرانوں کہ اس عرصے میں زمانے نیں اور ہی رنگ دکھلایا اس وقت بہ مقتضاے اس کے ؎
جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
آہ ٹک اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
لاچار پاے تردد و تلاش کا بیچ دامنِ قناعت کے کھینچ کر کے بیچ کنجِ خموشی کے چپکا ہو رہا۔
بعد ازاں کہ اس جناب مغفرت مآب کے خلف الاعظم امیر المعظم، زیب دودمانِ عالی شان، فخر ہندوستان جنت نشان، تاج الامارت العلیا، سراج الوزارت الکبریٰ، اعتضاد السلاطین، افتخار المومنین، پناہ الغریبین، ملاذ المساکین، شمس الضحیٰ، بدر الدجیٰ، صدر العلیٰ، کہف الوریٰ، قرّۂ باصرۂ صلابت و اقبال، غرّۂ ناصیۂ شہامت و اجلال، مہر سپہر عظمت و کرامت، سپہرِ مہر شجاعت و سخاوت، جامع علوم دانش و فرہنگ یعنی نواب آصف الملک آصف الدَّولہ امیر یحییٰ خاں بہادر ہِزبَر جنگ دام عمرہٗ و اقبالہٗ کے خضرِ تَفَضُّلاتِ بے غایات نیں اوپر جانِ ناتواں اس ضعیف البنیان کے آبِ حیات سرفرازی کا چھڑکا، تب بہ مضمون اس کے کہ صرّاف چار سوے عبارت گُستری کے نقودِ الفاظ کے تئیں جب تلک اوپر سکّۂ حرفِ تحسین زبانِ فصاحت بیانِ بندگان ممدوحِ جہاں کے نہ پہنچاویں، دوکان بیان کی نہ کھولیں اور جوہری بازار مضمون شناسی کے مرواریدِ معانی کے تئیں جب تلک بیچ رشتۂ لفظ آفریں دہانِ معجز نشان جناب مخدوم عالم کے نہ کھینچیں، قیمت رواج کی نہ بولیں، بیچ خیال میرے کے گذرا کہ شاہد اس افسانۂ موزوں کا کہ ساتھ زیور تجویز نام “انشاے نو طرز مرصع” کے آرائش پاتا ہے جب تک کہ طرّہ بسم اللہ دیباچہ مدح طرازیِ بندگانِ جنابِ عالی مُتعالی کا اوپر دستارِ عبارت کے رکھ کے موردِ عنایاتِ خلعتِ فاخرۂ واہ واہ و سر پیچ تحسین و جیغہ آفریں کا حضور عالی سے نہ ہووے زینت شہرت کی نہ پاوے۔ چنانچہ ایک قصیدہ درخور لیاقت اپنی کے بیچ مدح جناب عالی کے لکھ کر تیار کرتا ہوں اوپر مدد ستارہ سعید اپنے کے کہ ذرّہ طالع یاور میرے کے تئیں ظہور روشنی کا پرتو تجلاے نور اُس مہر انور کے سے پایا کہ جس کے شعشعۂ جمال جہاں آرا سے میدان وسیع شش جہت عالم کا مشرقستان نیر اعظم کا ہو رہا ہے۔
قصيدہ
اگر مِداد ہو دریا و ہوں قلم اشجار
پھر اب زبان مری کو کہاں یہ طاقت ہے
مگر ضرور ہے اتناں کہ گر تمام صفت
کہ اُس کا وصف، مدَارُ المُہام ہے سو بجا
امورِ سلطنت اس کی سواے فطرت کے
جو ہووے جلوہ فزا مسندِ عدالت پر
جو اُس کے عدل کی میزان میں تُلے خردَل
اور اُس کی ہمّتِ عالی کی کیا کروں تعریف
چمن زمانے کا شبنم سیتی رہے محروم
“نہیں” کا نام زمانے سے ہو گیا مفقود
تماشا یہ ہے کہ وہ ہست و کم سے واقف نئیں
نہ لکھ سکے کوئی اُس کے کمال کا طُومار
جو اُس کی مدح کے لکھنے کا کچھ کروں اقرار
نہ ہو سکے تو بھلا ایک تو لکھوں زہزار
کہ ہے وہ عقل کے میدان کا بڑا سردار
اگرچہ ہووے ارسطو نہ کر سکے زنہار
بدل کرے اثرِ بد زِکوکبِ سیّار
تو کیا شبہ ہے کہ ہووے برابرِ کُہسار
ہوا ہے عرصۂ دنیا کہ جس سے گوہر بار
اگر نہ اُس کی سخاوت کا برسے ابرِ بہار
زبانِ فیض ستی لفظِ “ہست” ہے دُربار
یہ فضل حق ہے کہ ہو ہست اور ہو بسیار
ق
ہے اُس کی ضبطِ شجاعت کا اس قدر جگ میں
اور اُس طرف کبھی رستم ہزار صف سے ہو
نہ ہوئے کیونکہ شجاع ہووے جو ہزبرِ جنگ
فکیف تیغ جسے برق سے نہیں کچھ فرق
نگاہِ کرم جدھر کو نظر کرے یک بار
تو روح ڈر ستی قالب سے ہو سکے نہ بَرآر
کہ تیغ اُس کی جہاں میں ہے قاتلِ کفّار
پڑے جو فرَق پہ دشمن کے پا تلک ہو بغار
ق
کمال تیر چلانے کا یھاں تلک ہے گا
جہاں خیال کا پہنچے نہ تیر جلدی سے
کہ جس کی تیز روی کا میں کیا کروں اذکار
وہاں گذر کرے اُس کے خدنگ کا سوفار
ق
شناوری میں یہ قدرت کہ قعرِ دریا ہے
تو اُس کے علم شنا کی سُبک روی آگے
نگاہ چشم تلک بھی نہ پہنچنے پاوے
اور اُس کے دل میں یہ آوے کہ اس سے ہو جیے پار
مجال کیا ہے جو پانی سے ہو ہَوا کا گذار
کہ اِس طرف ستی جا اُس طرف سے پھر ہو پار
ق
یہ زور حق نے دیا اس کے دست و باز میں
تو شیر ترس سے بُرجِ اسد میں جا کے چھپے
کہ اُس کی خاطرِ اشرف میں گر ہو عزم شکار
مگر ہو بحر کے تحت الثری کو رُو بہ فرار
ق
اگر طیور کی صید افگنی پہ ہو مرغوب
جو چھوٹے دست مبارک سے چرخ پر شہباز
وگر زمیں پہ کرے رُخ ز عالم بالا
تو اُس شکار کی تعریف کیا کروں اظہار
عقاب شمس کا مغرب میں جا چھپے در غار
پرند کیا ہے وہ خرگوش کو کرے ہے شکار
ق
کمیت خامہ کا اب اُس کے سیر گلگوں کو
بیان جلدی کا اُس کی کہاں تلک کیجے
خیال کیجے کہ ایسے پہ کس کا ہے مقدور
مگر ہے راکب اُسی کا وہی امیر العہد
اگر وہ شرق میں چاہے کہ چھیڑ کر اُس کو
زباں سے لب تلک آواز “ہاں” نہ پہنچنے پائے
کرے ہے صفحۂ قرطاس کے تئیں مِضمار
فلک کو جس کی سواری کا عزم ہو دشوار
کرے جو ذکر سواری کا غیر استغفار
مدد ہے جس کی شہِ دین حیدر کرار
میں پہنچوں غرب تلک لفظ ہاں کا کہہ اک بار
کہ یھاں سے وھاں پہنچ اور وھاں سے پھر یہاں ہو دوچار
ق
زباں نہیں جو سواری کے فیل کی شوکت
کہ بیٹھنے میں ہے کوہ اُٹھنے میں ہے ابرِ سیاہ
جب اُس پہ لے کے کجک ہووے فیل باں قائم
ستارے جھول کے اس لطف سے چمکتے ہیں
اور اُس کے ہودجِ زرّیں اُپر جناب نواب
جلوس وقت سواری کا کیا کہوں جو کہوں
صداے ڈنکے کی ایسی ہی بجتی ہے کہ اگر
بیان ہو سکے یا اُس کا کچھ کروں گفتار
بلند عرش سا، چلنے میں چرخ کی رفتار
گویا فلک پہ کیا ماہِ نو نیں استقرار
اندھیری رات میں تاروں کی جس طرح ہو بہار
ہے جیسے ابرِ سیہ بیچ مہر پُر انوار
زبس بہار سے فوجوں کی ہو رہی گلزار
ہو دل میں جُبن کسی کے تو مرد ہو یک بار
ق
تجمل اُس کے عساکر کا کیا کروں تقریر
غلام کہنہ و دیرینہ جس کا ہے اقبال
تمام فوج کی تعریف تو کہاں ہووے
کہ اس جناب میں فطرت سے اپنی ہی بے غیر
کہ ہووے گرچہ فلاطوں نہ کر سکے یہ فکر
بہ مرتضی جو کہوں صف بہ صف کھڑے ہوویں
بطور فوج ولایت کے جب کریں ہیں فیر
صلابت ایسی ہی ہے توپ خانہ عالی کی
گرجنا اس کا قیامت کے شور سے نزدیک
کہ موکب اُس کا ہے کوکب کی فوج سے بسیار
فتح رکاب میں جس کے ہے ایک خدمت گار
پر ایک ہند میں تحفہ ہوا ہے یہ اسرار
کریں ہیں ایسی ہی جرّار پلٹنیں تیار
جو ذات مظہر عالی سیتی ہوا اظہار
نظر پڑے ہے کچھ اور ہی طرح کا لیل و نہار
تو آگے کوہ جو ہو اُس کو بھی کریں مسمار
کہ جسم رعد کا غرش سے جس کے ہے بیزار
تڑپ سے جس کے عدو کا جگر فگار فگار
ق
شکوہ خیمہ کی رفعت کا گر کہوں تم سے
اُسی کے رشک سے اب تک فلک ہے گردش میں
کہاں خیال کو طاقت کہ پا سکے وھاں بار
اُسی کے بار سے ہے تختۂ زمیں کو قرار
ق
جو اُس کے مطبخ عالی کو پوچھیے مجھ سے
یقیں ہے حاصلِ ہندوستاں نہ ہو کافی
زہے نواب امیرِ زمان پناہ جہاں
غرض کہ جس کا ہو تحسیںؔ جناب اس درجہ
کہ وہ ہے مہر درخشاں، و میں ہوں ذرہ مثال
قلم زباں کی وہ، اور خامہ کی زباں یہ کچھ
بس اب زبان و قلم ہر دو معترف بہ قصور
وہ کون شخص ہے، نواب آصف الدولہ
اگرچہ کام خوشامد کے کرنے کا جگ میں
ولے قسم ہے مجھے اپنے دین و ایماں کی
نہیں زمانے میں ایسا بہ جاہ و حشم و شکوہ
خدا رکھے اسے تب تک سلامت اور قائم
تو کیا کہوں کہ زیادہ ہے وہ ز حد و شمار
اگر ہو اُس کے مصارف کے واسطے درکار
کہ جس کے جاہ کا حشمت کا یہ کیا اذکار
کروں میں وصف کو اُس کے کہاں تلک اظہار
خدا کے واسطے ذرّہ کا یہاں ہے کیا مقدار
بھلا ہو غنچہ دہانوں سے کیونکہ حرف برآر
کہاں میں اور کہاں وصفِ وارثِ تلوار
کہ جس کی ذات سے ہے ہند کو سکون و قرار
ہمشہ سیتی چلا آتا ہے بہ ملک و دیار
کہ بے مبالغہ کہتا ہوں اس کو میں صد بار
مرے نواب کا ثانی کوئی سپہ سالار
کہ جب تلک رہے سر سبز دہر کا گلزار
بارے الحمد للہ و المنّۃ کہ نجم امید کا اوپر معراج مدعا کے جلوہ گر ہوا کہ فراغ خاطر سے گلدستۂ داستان کے تئیں اس رنگ سے بیچ محفل بیان کے زیب و زینت ترتیب کی دیتا ہوں۔