جب وہ سروِ نو خاستہ آراستہ ہو کر حمام میں آیا، اس کے عکس سے ہر دیوار تختۂ گلشن اور ہر ایک سنگ رشکِ چمن بن گیا۔ جامہ خانے میں اندکے ٹھہر کر پوشاک اتاری، لنگی باندھی پھر غسل خانے میں داخل ہوا۔ از بس کہ حمام معتدل تھا، تِس پر بھی رنگ اس گلِ خوبی کا تمتما کر ارغوانی ہوا اور بدن نازنین اس کا پسینے کی بہتایت سے پانی پانی۔ اتنے میں حمامی صوف و خارا کے کھیسے اور سونے روپے کے طاس ہاتھوں میں لیے حاضر ہوئے ؎
لگے مَلنے اس گل بدن کا بدن
نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک
ہوا قطرۂ آب یوں چشم بوس
لگا ہونے ظاہر جو اعجازِ حسن
ہوا ڈَہڈہا آب سے وہ چمن
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
کہے تو پڑی جیسے نرگس پہ اوس
ٹپکنے لگا اس سے اندازِ حسن
لب نازک پر قطروں کی نمائش، گل برگِ تر کی رشکِ زیبائش۔ جو بوند کہ بدن سے جھڑتی تھی، نزاکت ہی ٹپکی پڑتی تھی۔ پانی بدن سے جو بہ چلا، تو ایک حسن کا دریا بہنے لگا۔ بعد اس کے وہ مِہرِ حسن حوض کے کنارے جو آکھڑا ہوا، اس کے رنگ سے پانی نورانی ہو گیا۔ جب اس میں اتر کے غوطہ لگایا، اور ہی عالم دکھایا ؎
وہ گورا بدن اور بال اس کے تر
کہے تو کہ ساون کی شام و سحر
اُن کے سوادِ پُر نم سے خوب تر کوئی رات زمانے میں نہیں ہوئی اور کبھو کسی ذی حیات نے نہیں دیکھی۔ کیفیت اُن کی نمی کی بھی ایسی تھی ؎
کہوں اس کی خوبی کی کیا تجھ سے بات
کہ جوں بھیگتی جاوے صحبت میں رات
غرض جب غسل سے فارغ ہوا، حمامی زمرد کے جھانویں لے کر آئے اور پاؤں دھونے لگے۔ اس گلِ رعنا نے ہاتھ لگاتے ہی اس انداز سے پاؤں کھینچ لیا کہ اثر گدگدی کا پیشانی پر ظاہر ہوا اور اس ناز سے کھل کھلا کر ہنسا جو سب کے سب ہنس پڑے۔ اُس وقت کا عالم بیان میں نہیں آتا۔ کہے تو کیا کہے اور لکھے تو کیا لکھے۔ جتنے لوگ وہاں حاضر تھے اُس پر اپنے جان و دل سے قربان ہو یوں دعائیں دینے لگے کہ خدا تجھے باغِ دوراں میں سرسبز پھولتا پھلتا ہمیشہ رکھے اور غم کی خزاں کا صدمہ تیرے کسی ہوا خواہ کو بھی نہ پہنچے۔ تیری بھلائی سے ہماری بہبود ہے اور تیری خوشی سے اپنی نمود۔ تجھے دن رات کی خوشی اور صبح شام کی شادی مبارک رہے ؎
نہ آوے کدھی تیری خاطر پہ میل
چمکتا رہے اس فلک کا سہیل
خیر جب وہ اس لطافت و نزاکت سے پاؤں دھو چکا، جامہ خانے میں آ بیٹھا ؎
نہا دھو کے نکلا وہ گل اس طرح
کہ بدلی سے نکلے ہے مہ جس طرح
پھر خبر داروں نےجا حضور میں خبر دی کہ مرشد زادۂ عالم حمام سے غسل کرکے جامہ خانے میں تشریف لائے ہیں، اس امر میں جو ارشاد ہو سو بجا لاویں۔ فی الفور توشے خانے کے داروغہ کو حکم ہوا کہ بھاری بھاری جوڑے تمامی اور کارچوب کے بلکہ ہر قسم کی پوشاکِ لطیف و پُر تکلف اور جواہرات قیمتی متعدد شاہ زادے کے حضور لے جا، سواری مبارک بھی کوئی دم میں وہاں پہنچتی ہے۔ داروغہ بہ موجب حکم کے عمل میں لایا۔ اتنے میں خود بدولت بھی تشریف فرما ہوئے اور شاہ زادے کو خلعت فاخرہ پہنا، بہتر سے بہتر جواہر لڑی لٹکن کلغی ہیرے کی انگوٹھیاں سرپیچ مرصع نورتن مالہ مروارید سے آراستہ کیا ؎
جواہر سراسر پنھایا اُسے
جواہر کا دریا بنایا اسے
وہ کھنچا کھنچایا سڈول اس کا بدن، تِس پر جواہرات کی یہ کچھ پھبن۔ ہر ایک عدد چمک میں شعلۂ طور تھا اور حسن اس کا عالم نور۔ غرض جب بن سنور چکا تب باہر نکلا اور اس دھوم سے سوار ہوا جیسے بَنا بیاہنے کو چڑھتا ہے۔ اشرفیوں روپیوں کے کئی خوان اس پر نچھاور کیے۔ کنگال منگتا محتاج جتنے تھے اس کے صدقے سے جی گئے بلکہ مدتوں آسودہ رہے ؎
زِبس تھا سواری کا اس کی ہجوم
ہوا جب کہ ڈنکا، پڑی سب میں دھوم
رسالہ دار جمع دارِ سپاہ رعیت سوار پیادے قرینے سے پرے باندھ برابر کھڑے ہوئے۔ فوج کی ایسی بھیڑ بھاڑ ہوئی، جدھر آنکھ اٹھا دیکھو تدھر دَل بادَل ہی نظر آویں۔ امرا امیر وزیر اپنے اپنے قرینے سے داہنے، بائیں پرے کے پرے منصب داروں کے کھڑے اور ان کے پاس بیش قراروں کے دھڑے۔ پیچھے سنہری رُپہری عمّاریوں سے ہاتھیوں کی قطار، پالکیاں نالکیاں جھلابور کی بے شمار ؎
وہ فیلوں کی اور میگ ڈنبر کی شان
جھلکتے وہ مقیّش کے سائبان
آگے سینکڑوں گھوڑے کوتل مرصع کے زینوں سے، ماہی مراتب اور سب جلوسِ بادشاہی ان کے آگے۔ گھوڑوں پر نقارچی آہستہ آہستہ رساین سے دم بدم، شاہانی نوبت بجاتے قدم بقدم۔ پیادوں کے غٹ کے غٹ، بان داروں کے ٹھٹھ کے ٹھٹ۔ بادلے کے نشان چمکتے ہوئے، پھرہرے تمامی کے دمکتے ہوئے۔ کہاروں کا نرالا ہی ایک ٹھاٹھ۔ تاش کی سروں پر پگڑیاں، سنہری زربفت کی گلوں میں کرتیاں اور پاؤں کی وہ خوش نما پھرتیاں۔ اس سبکی کے ساتھ جو پیٹ کا پانی نہ ہلے ؎
وہ ہاتھوں میں سونے کے موٹے کڑے
جھلک جن کی ہر دم قدم پر پڑے
خاص برداروں کے جدے ہی غول اور ان کے سروں پر سنہری توڑوں سمیت اک پیچے بندھے ہوئے گول گول۔ غرض شاہ کے حکم سے تمام لشکر کیا سوار کیا پیادہ جلو میں موافق دستور کے حاضر۔ جس جس نے نذریں ٹھانیاں تھیں، بادشاہ اور بادشاہ زادے کو گزرانیاں۔ پھر بہ موجب ارشاد سجے سجائے آس پاس تختِ رواں کے قدم بہ قدم چلے اور موافق دستورِ شاہانِ سلف کے آگے آگے جریب بھی مپنے لگی۔ چوبدار سونٹے بردار سونے روپے کے جڑاؤ عصے اور سونٹے ہاتھوں میں لیے گھوڑوں پر سوار آگے سواری کے اہتمام کرتے تھے۔ نقیب جلو دار ہر دم آپس میں یہ پکار رہے تھے ؎
اُسی اپنے معمول و دستور سے
یلو، نوجوانو! بڑھے جائیو
بڑھے جائے آگے سے چلتا قدم
ادب سے، تفاوت سے اور دور سے
دو جانب سے باگیں لیے آئیو
بڑھے عمر و دولت قدم باقدم
غرض سواری کے جاہ و جلال اور عُظم و شان سے رستے کا یہ رنگ ہو گیا جیسے بہار کی ہوا سے ہر ایک بیابان اور چمنستان کا ہو جاتا ہے۔ خلقت کا ہجوم ہر دم اُدھر اِدھر اور تماشائیوں کی بھیڑ جدھر تدھر۔ قلعے سے لگا حدِ شہر تک دو طرفہ دکانوں پر زری بادلے کی جگمگاہٹ اور در و دیوار پر تاش اور تمامی سے چمکاہٹ۔ اہل حرفہ تمام شاد و خورسند اور آئینہ بندی کے باعث شہر کے چوک کا لطف چار چند۔ رعیت اور سپاہ کی یہاں تک کثرت تھی کہ نگاہ قدم قدم پر رکتی تھی، آدمی کا تو کیا ذکر ہے۔ اور شہر کے کوٹھوں پر جو خلقت تماشا سواری کا دیکھنے کے لیے جمع ہوئی تو ہر ایک کوٹھے کی چھت اور منڈیر برنگِ چمن پُرکیفیت ہو گئی۔ شاہ زادے کے دیکھنے کا جو لوگوں کے دل میں نہایت ارمان تھا، ہر ایک بشر چھوٹا بڑا لولا لنگڑا، یہاں تک کہ پیٹ والی عورت بلکہ جنی جچا تک تماشے کو نکلی اور چرند پرند بھی اپنے اپنے مکان اور گھونسلوں سے باہر آئے۔ مگر ایک مرغِ قبلہ نما جو پہنچنے نہ پایا، سو اپنے آشیانے میں تڑپھا کیا۔ شاہ زادہ از بس کہ حسین تھا، دیکھتے ہی صورت کہ و مہ عاشق ہو گئے۔ وہ عید کا چاند جس کو نظر پڑا، اس نے جھک جھک سلام کیا اور یوں دعائیں دیں کہ بارِ الہا! یہ مہر و ماہ ہمیشہ قائم رہیں اور اپنے پرتو سے جہاں کو روشن رکھیں۔
القصہ شہر کے باہر کوس دو ایک کے فاصلے پر ایک بادشاہی باغ تھا، اسی تجمل سے وہاں جا پہنچے۔ چار گھڑی تک خوب سا پھر پھرا سیر کر اپنے بیٹے کو اچھی طرح رعیت اور سپاہ کے تئیں دکھلا پھر اسی فوج کی اوج موج سے شہر کی طرف متوجہ ہوئے۔ یعنی جس عُظم و شان سے گئے تھے، اسی جاہ و جلال سے قلعے میں داخل ہوئے۔ لشکری شہری جتنے لوگ سواری کے تھے، دولت خانے میں پہنچا کر رخصت ہوئے۔ بھیڑ جو تھی سو چھیڑ ہو گئی۔
جہاں پناہ اپنے محل مبارک کو تشریف فرما ہوئے۔ شاہ زادے نے بھی اپنے باغ میں داخل ہونے کا قصد کیا۔ اتنے میں تمام محلی اور محل کی رنڈیاں خوشی سےاستقبال کے لیے ڈیوڑھی تلک نکل آئی۔ آگے پیچھے بائیں داہنے ہو اور بلائیں لے کر مسند پر بٹھایا۔ پھر بدستورِ سابق ناچ راگ ہونے لگا۔ پہر رات تک وہی جوڑا پہنے ہوئے تماشا دیکھا کیا، یکایک دل میں جو کچھ لہر آئی تو مجلس سے اٹھ باہر صحن میں آیا۔
قضا کار وہ چودھویں رات تھی اور چاند جلوے لے رہا تھا۔ کھڑا وہ خوشی سے دیکھنے لگا۔ عجب وقت تھا، جدھر تدھر زمین کی طرف نگاہ پڑتی تھی، نور کی چاندنی ہی بچھی نظر آتی تھی ؎
عجب لطف تھا سیرِ مہتاب کا
کہے تو کہ دریا تھا سیماب کا
جب چاندنی کی ایسی بہار دیکھی، شہزادے کا دل نہایت بے قرار ہوا ؎
کچھ آئی جو اس مہ کے جی میں ترنگ کہا: آج کوٹھے پہ بچھے پلنگ
یعنی میرا جی آج یوں چاہتا ہے کہ اوپر سوؤں۔ یہ بات سنتے ہی خواصوں نے جا قبلۂ عالم سے عرض کی کہ پیر و مرشد! شہزادے کی آج یوں خوشی ہے جو بالاخانے پر آرام فرمائیں۔ اس میں حضور سے جو حکم ہو سو بجا لائیں۔ حضرت نے جواب دیا: اب تو وے دن نحوست کے نکل گئے۔ اگر یوں مرضی ہے تو خیر کیا مضائقہ لیکن جن کی چوکی ہو سو اپنے اپنے چوکی کے وقت خبردار چوکس ہوشیار جاگتے رہیں۔ ساتھ اس کے جب وہ محبوب لبِ بام پر آرام کرے تب محافظت کے واسطے سورۂ نور اس پر دم کریں ؎
تمھارا مرا بول بالا رہے
کہ اس گھر کا قائم اجالا رہے
تب سہیلیوں نے کہا: اے خداوند! یہی درگاہ الٰہی سے امید ہے کہ حضور میں ہم سدا سرخرو رہیں۔ غرض بادشاہ سے حکم لے کر خواصیں پھر آئیں اور شہ زادے کا وہیں بچھونا بچھا دیا۔ قضا را وہ دن بارھویں ہی برس کا تھا۔ وہمِ غلط کارِ حساب میں چوک گیا، سخن مولوی روم کا سچ ہوا ؏
کہ آگے قضا کے ہے احمق حکیم
سب وہاں اپنے اپنے عیش میں جو پڑے تو کچھ اونچ نیچ زمانے کی نہ سمجھے۔ یہ جانا کہ دَور خوشی کا ہمیشہ یوں ہیں رہے گا۔ ہرگز فلکِ کج رو کی کج روی کو دریافت نہ کیا ؎
کہ اس بے وفا کی نئی ہے ترنگ
یہ گرگٹ بدلتا ہے ہر دم میں رنگ
دنیا میں آج تک ایسا کوئی شخص پیدا نہ ہوا ہوگا جس کو اس نے خوشی سے ہنسا کر پھر اس کے پیچھے غم و غصے کے ہاتھوں آٹھ آٹھ آنسو رُلایا نہ ہوگا۔ زمانے کی بٹّے بازی میں ہرگز کچھ شک و شبہ نہیں، کیوں کہ ایک ہاتھ میں اس کے تریاق ہے اور دوسرے میں زہر۔ غرض چوکیدارنیں شہزادے کی جو چوکی میں تھیں، سوسب بے خبر سو گیّاں ؎
شتابی سے اٹھ ساقی سیم بر
بلوریں گلابی سے دے بھر کے جام
جوانی کہاں اور کہاں پھر یہ سِن
اگر مے کے دینے میں کچھ دیر ہے
کہ چاروں طرف ماہ ہے جلوہ گر
کہ آیا بلندی پہ ماہِ تمام
مثل ہے کہ ہے چاندنی چار دن
تو پھر جانیو یہ کہ اندھیر ہے