جب گیارہ برس خیریت سے گذرے، بارھواں برس آیا۔ الحمد للہ! جس دن کی آرزو تھی سو کریم نے ساتھ خوشی کے دکھایا۔ شادی محل میں چاروں طرف مچ گئی، مبارک بادی کی صدا پھر بلند ہوئی ؎
پڑی جب گرہ بارھویں سال کی
کھلی گل جھڑی غم کے جنجال کی
چار گھڑی دن رہے عرض بیگی کو بادشاہ نے ارشاد کیا کہ صبح سواری مبارک بڑے جلوس سے تیار ہو کہ مَیں شہزادے کو لے کر سوار ہوں گا، تا رعیت اور سپاہ اس کا دیدار دیکھ کر شاد ہو اور بستی ان کے دل کی بھی آباد۔ تم نقیبوں کو تقید کرو، گھر گھر یہ حکم پہنچاویں اور ہر ایک چھوٹے بڑے کو جتاویں کہ زرق برق سے نکلے اور تمام اسباب سواری کا بھی نیا اور جگمگا ہو۔ خبردار ایک سوار میلا اور ایک گھوڑے کا زین پرانا نظر نہ آوے۔ احیاناً کسی کو اس وقت اگر کوئی چیز میسر نہ آوے تو سرکار سے بے تکلف لیوے کہ ما بدولت کی مرضی اور خوشی اسی میں ہے ؎
کریں شہر کو مل کے آئینہ بند
سواری کا ہو نور جس سے دو چند
اتنے میں شام پڑی، آفتاب والشمس پڑھ کے سجدۂ شکر میں گیا اور مہتاب سورۂ نور پڑھتا ہوا نکلا۔ حضرت محل میں تشریف لے گئے۔ تمام رات ناچ راگ رہا۔ مارے خوشی کے محل میں کوئی نہ سُوا ؎
عجب شب تھی وہ جوں سحر رو سفید
عجب روز تھا مثل روزِ امید
القصہ رات آخر ہوئی، چاند نے بالینِ استراحت پر اپنا سر رکھا اور سورج بڑی چمک تمک سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھا ؎
کہا شاہ نے اپنے فرزند کو
پلا آتشیں آب پیر مغاں
اگر چاہتا ہے مرے دل کا چین
کہ بابا نہا دھو کے تیار ہو
کہ بھولے مجھے گرم و سردِ جہاں
نہ دینا وہ ساغر جو ہو قُلّتین