جب وہ نونہالِ چمنِ سلطنت پاؤں پاؤں چلنے لگا، حضرت نے میر عمارت کو حکم کیا کہ ایک خانہ باغ ایسا بنے کہ ثانی اس کا گلزارِ جہاں میں نہ نکلے۔ چنانچہ وہ سعادت مند حکم بجا لایا اور ویسا ہی اس نے بنایا۔ اگر باغ ارم اس کی بہار دیکھے، لالہ کی مانند داغِ حسرت اپنے جگر پر سدا لیے رہے اور گلشن فردوس کا چمن جو اس کا عالم مشاہدہ کرے، نرگس کی طرح تمام عمر حیرت ہی میں کاٹے۔ اس کا ہر ایک مکان جنت کا نمونا، صفائی و شفافی سے اس کے پھولوں کی بہار کا عالم دونا۔ اس کے دروں کی محرابوں کے آگے محرابِ ابروے خوباں جھک جائے اور وہاں کے آئینوں کی آب و تاب سے رخسارِ مہ رویاں شرمائے۔ اسلوب دار و خوش قطع ہر ایک ایواں، زربفت و بادلے کے سائبان جہاں تہاں۔ سنہری رُپہری چھتوں کی وہ نمائش، ہر ایک مکان کے نقش و نگار یہ آرائش۔ جسے دیکھ کر نقش و نگارِ ارژنگ دنگ ہو جائے اور نقّاشِ قضا بھی ایک نظارے میں اپنے ہوش کھو جائے ؎
چقیں اور پردے بندھے زرنگار
دروں پر کھڑی دست بستہ بہار
دیکھنے والوں کی نگاہوں کے لیے ان کی تیلیوں کی ساخت جال تھی۔ جس کی آنکھ ان پر پڑی، نظر وہیں رہی نہ اِدھر آسکی نہ اُدھر جا سکی۔ مقیّشی ڈوریاں ان کی رکھتی تھیں یہ جھمکڑا گویا تارِ نگاہِ ماہتاب سے ان کو بانٹا تھا۔ ہر ایک مکان میں رنگ برنگ کا فرشِ مخملی، جا بجا مسند شاہانہ قرینے سے لگی ہوئی۔ پاے ہوس اس سے آگے قدم نہ دھرے اور پیکِ نظر بھی نقش قدم کی مانند وہیں بیٹھ رہے۔ لخلخے روپے سونے کے روشن ہر ایک مکان میں، جڑاؤ چھپرکھٹ اور پلنگ بچھے ہوئے ہر ایک دالان میں ؎
زمین پر تھی اس طور ان کی جھلک
ستاروں کی جیسے فلک پر چمک
وہاں کی زمین رنگت اور صفا میں صندلِ سفید کے تختے کی برابر اور غبار اُس کا عبیرِ ٹھٹھئی سے خوش بو تر۔ روشیں صاف ستھری ہموار، چبوترے جا بجا خوش قِطع و اسلوب دار۔ سنگ مرمر کی نہر کے آگے موج آب گہر پانی بھرے، آبشار کی چینوں کے روبرو آئینہ رخوں کی چینِ پیشانی عجز سے اپنا ماتھا رگڑے۔ بلور کے حوض صفائی و شفافی میں جوں سینۂ خوباں اور پُر آب مثل دیدۂ عاشقاں۔ چمن پھولوں سے ایک لخت معمور، ایک سی بہار نزدیک اور دور۔ قرینوں سے لگے ہوئے سروِ سہی، درختوں میں پڑے جھولتے سیب و بِہی۔ روشوں پر جھومے ہوئے درخت میوہ دار، سرسبز و شاداب ہر ایک شاخسار ؎
ہواے بہاری سے گل لہلہے
چمن سارے سیراب اور ڈہڈہے
سبزے کا وہ رنگ ڈھنگ جس نے زمرد بنا دیا روش کا ہر ایک سنگ۔ کیاریوں میں پھولوں کی ریل پیل، کہیں سگند راے کہیں راے بیل۔ مدن بان کی جُدی ہی آن بان، موگرے کا ایک ایک پھول عطر دان۔ موتیا کا موتی سا برن، نفاست پر نازاں نسرین و نسترن۔ نرگس کی چتون سے دیدۂ خوباں کو حیرانی، سیوتی کی صفائی سے رخسارِ آئینہ رُخاں پانی پانی۔ چمبیلی بھی پھول پھول اپنا سماں دکھاتی تھی، چمپے کی باس عالمِ بالا تلک جاتی تھی۔ گلِ چاندنی چاندنی کی زیب و زینت، داؤدی کے دیکھے آتی تھی آنکھوں میں طراوت۔ شبو کے پھولوں کی مہک، رات کو جاتی تھی کوسوں تلک۔ گل ارغواں سے شرمندہ لعلِ بدخشانی، گلِ اورنگ اپنے رنگ میں لا ثانی۔ نافرمان کی پھولی ہوئی ہر ایک ڈالی، لالہ کی لالی دنیا سے نرالی۔ کیاریوں کی سوبھا جعفری اور گیندے کی قطار، ہار سنگار پھلواری کا سنگار۔ سوں جوہی کندن سے اشرف، گل اشرفی رکھتی تھی سونے پر شرف۔ جائی جوہی یا سُمن کی باس، بھلائے دیتی تھی بھوکھ اور پیاس۔ قمریاں سرخوشی سے صدائیں کریں، بلبلیں شوق سے چہچہے بھریں۔ آب جوئیں لہراتی ہوئی بہبہی سی پھریں، ڈالیاں مستانی سی ہر ایک روش پر جھک جھک گریں ؎
گلوں کا لبِ نہر پر جھومنا
کھڑے شاخ در شاخ باہم نہال
وہ آئینہ جو میں دیکھ اپنا قد
خراماں صبا صحن میں چار سو
اُسی اپنے عالم کا منہ چومنا
رہیں ہاتھ جوں مست گردن میں ڈال
اکڑنا کھڑے سرو کا جد نہ تد
دماغوں کو دیتی پھرے گل کی بو
چمن اکثر پٹریوں سے ڈہڈہے، ہر ایک روش پر پھول رنگ برنگ کے بچھے ہوئے۔ انگوروں کی بیلوں کا تاکوں پر اینڈتے پھرنا، مے پرستوں کا ان کی طرف تاک لگائے رہنا۔ قاز و قرقرے نہروں کے ادھر ادھر، مرغابیاں پیرتی پھریں جدھر تدھر۔ تالابوں پر بگلوں کی ڈاریں، چاروں طرف کھڑے مور جھنگاریں۔ مول سریاں چاروں کونوں پر پھولی ہوئیں، ڈالیاں نزاکت سے جھولی ہوئیں ؎
چمن آتش گل سے دھکا ہوا
درختوں نے برگوں کے کھولے ورق
سماں قمریاں دیکھ اس آن کا
ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا
کہ لیں طوطیاں بوستاں کے سبق
پڑھیں باب پنجم گلستان کا
اکثر خوب صورت خوب صورت مالنیں بناؤ کیے سونے روپے کے بیلچے ہاتھوں میں لیے، باغ میں پودھے لگاتی تھیں اور اپنی اپنی محبت کا کانٹا دلوں میں چبھاتی تھیں۔ غرض ہر رُت میں وہاں ایک بہار تھی اور اس پھلواری میں خزاں کو کبھو نہ بار تھی۔
جب دودھ بڑھنے کی شادی ہو چکی، جہاں پناہ نے اُس نونہال کو خادمانِ محل سمیت نئے باغ میں بھجوا دیا اور ہر ایک شخص کو ارشاد کیا کہ خبردار! اس گل برگِ گلزارِ خوبی تک گرم باد کو آنے نہ دیجو بلکہ دیدۂ نرگس کے بھی اِسے سامھنے نہ کیجو۔ چنانچہ وے حکم حضور کا بجا لائیں بلکہ اسی دستور پر رہیں۔ باغ کی بہار بڑھ گئی، تازگی میں افزائش ہوئی۔ ہنسی خوشی کا ہر طرف غل، جدھر دیکھو ادھر ایک نئی طرح کا چہل۔ ددا، دائی انگا، چھوچھو، کھلائی ہر ایک مسرور۔ مغلانیاں چمکی چمکائیاں جوان جوان اپنے عہدوں پر مامور۔ گائنیں پاتریں نوجوشیاں بنی چُنی شراب حسن سے سرشار، ایک سے ایک خوب صورت اور طرح دار۔ ہر ایک اپنے کام کی سُرتی، ہر کسی میں شوخی شرارت اور پھرتی۔ جو ہے سو رشکِ پری اور غیرتِ حور، اپنے اپنے حسن کے غرور سے ہر ایک مغرور۔ خواصوں کے غنچے کے غنچے اور پرے کے پرے، روشوں پر پھرتے ہیں ایک انداز سے ورے اور پرے۔ کوئی کسی سے کر رہی ہے مزاخ، کوئی کسی پر مارتی ہے کلاخ۔ کوئی کہتی ہے راے بیل پر ریل پیل ہے۔ کوئی کہہ رہی ہے کہ چنبیلی چاؤ میں آئی ہے۔ کسی زبان پر یہ ہے کہ پھول کلی کی کلی کھلی جاتی ہے۔ ایک طرف چنپا بھچنپا سی چھٹ رہی ہے، کسی طرف نین سکھ کا دیدار نینوں کو سکھ دے رہا ہے۔ کہیں نرگس کی انکھڑیوں کا دیدۂ نرگس مزا لے رہی ہے۔ ہنس مکھ سچ مچ کی ہنس مکھ، تن سکھ کے ملے جاوے دل کا دکھ۔ آبادی دلوں کی آبادی، شادی گھر گھر کی شادی۔ گل چہرہ سدا گل سے ہم چہرہ، شگوفہ باغ حسن کی شگوفہ۔ مہتاب جھمکڑے میں مہتاب سے بالا۔ گلاب گلاب کے پھول سے آب و تاب میں اعلیٰ۔ غرض ہر ایک پہنے اوڑھے سجی سجائی اپنے اپنے عہدے سے خبردار، کاموں میں ہوشیار ؎
ادھر اور ادھر آتیاں جاتیاں
بجاتی پھرے کوئی اپنے کڑے
کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں
پھریں اپنے جوبن پہ اتراتیاں
کہیں ہوئے رے اور کہیں واچھڑے
کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں
کسی طرف جگت چل رہی ہے، کہیں کوئی منہدی مَل رہی ہے۔ ایک طرف ٹپّا اڑ رہا ہے، کہیں گوکھرو مُڑ رہا ہے۔ کوئی اپنے مکان میں سوت بوٹی بنا رہی ہے، کوئی سینے میں دل لگا رہی ہے۔ کہیں تار توڑے جاتے ہیں، کسی طرف دل جوڑے جاتے ہیں۔ کوئی حقہ ادا سے لگائے بیٹھی ہے، کوئی نہر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہے۔ کہیں ناز نخرے سے پاؤں دھوئے جاتے ہیں، کہیں بالے میں پھول پروئے جاتے ہیں۔ کوئی شرارت سے کسی کو پکار اٹھتی ہے، کوئی حرم زدگی سے کسی کے دھول مار اٹھتی ہے۔ کوئی مُقابا کھولے کنگھی کر رہی ہے، کوئی کسی پر دھیان دھر رہی ہے۔ کہیں آرسی دیکھی جاتی ہے گھڑی گھڑی، کوئی مسّی کی جما رہی ہے دھڑی۔ کسی دالان میں توتا پڑھایا جاتا ہے، کسی سائبان میں مینا کا پنجرا لٹکایا جاتا ہے۔ کہیں کہانی ہے اور کہیں پہیلی، کوئی روش پر کر رہی ہے اٹھکھیلی۔ حاصل یہ ہے کہ اس سروِ رواں کے یُمن قدم سے گلزار میں ہر ایک سمت ایک سماں بندھ رہا تھا اور مزا گٹھ رہا تھا۔ دن رات چہل ہی میں کٹتی تھی، سواے ہنسی خوشی کے دوسری بات نہ تھی۔ ہر چمن میں گویا پریوں کا اتارا تھا اور ہر روش پر اندر کا اکھاڑا ؎
غرض لوگ تھے یے جو ہر کام کے
یہ سب واسطے اس کے آرام کے
بارے کرمِ رب عزت اور ما باپ کی شفقت سے شہزادہ پل نکلا۔ نام خدا پانچواں برس اسے شروع ہوا۔ پھر اسی دھوم سے مکتب کی شادی ہوئی، شہر میں دوچند آبادی ہوئی۔ معلم، اتالیق، خوش نویس اپنے اپنے کام کے صاحب کمال متعین ہوئے۔ شہزادہ پڑھنے لکھنے لگا۔ پانچ برس کے عرصے میں فارسی عربی معقول منقول سب پڑھ چکا بلکہ ہر ایک علم و ہنر میں کامل ہوا۔ چنانچہ لکھنے میں بھی یہ دست رس پیدا کیا کہ نسخ و نستعلیق و شکستہ و تعلیق و خط غبار و خط گلزار ہر ایک بہ خوبی لکھنے لگا، بلکہ ہفت قلم کے رویے اور طریقے اپنے ہاتھوں میں قید کر جوڑ توڑ حروف کے ایسے لگانے لگا کہ جہاں کے خوش نویسوں نے اس کا ہاتھ چوم لیا اور اصلاح لینے کا ارادہ کیا۔ جو قطع اس کے ہاتھ کا تھا، سو ورق بہار تھا اور جو صفحہ مشق کا تھا سو خط گلزار۔ غرض ایسا خفی و جلی کا مشاق ہوا کہ خطِ شعاع مہر کو شرمندہ کیا اور دبیر فلک کو طفل مکتب بنا دیا۔ سادہ رخی ہی میں ہر ایک خط پر ایسی قدرت اور ہر فن میں یہ کچھ مہارت پیدا کی کہ اکثروں کی ڈاڑھیاں سفید ہو گئیں پر مشق ان کی اِس رتبے کو نہ پہنچی۔ تب تو حضرت اعلیٰ نے استادوں کو حضور میں بلوا کر ہر ایک کو خلعت و انعام و اکرام بخشا۔ گاؤں معاف کر دیے کہ تمام عمر آرام سے بیٹھے کھائیں اور کسی طرح کا ہرج نہ اٹھائیں۔بعد اس کے پہلوان، پھکیت، تیر انداز، چابک سوار بلکہ جتنے فنونِ سپہ گری کے ماہر اور ان پر قادر تھے، شاہ زادے کی خدمت میں اپنے اپنے وقت پر چھوٹنے لگے اور اس کو اقسام کی ورزشیں اور کثرتیں سکھانے ؎
کماں کے جو درپے ہوا بے نظیر
صفائی میں سوفار، پیکاں کیا
لیا کھینچ چلے میں سب فنِ تیر
گیا جب کے تودے پہ، طوفاں کیا
لکڑی کی بھی گھائیاں چھوٹتے ہی ایسی قبضے میں کیں کہ راوتوں کو پھکانے اور استادوں کو سکھانے لگا۔ کُشتی میں یہ طاق ہوا کہ بڑے بڑے پہلوانوں نے اس کے آگے سری ٹیک کی اور زمانے کے شہ زوروں نے پیشانی عجز سے اس کے قدموں پر رکھ دی۔ گھوڑے پر بھی ایسا چڑھنے لگا کہ شہ سواروں کو غاشیہ بردار اور نیزہ بازوں کو بھالے بردار بنا دیا۔ بندوق لگانے پر جو ٹک طبیعت آئی، کئی دن کے عرصے میں آواز پر گولی مارنے لگا۔ اڑتا جانور تو درکنار اور نشانی کا کیا شمار؟
کئی دن میں سیکھا یہ کسبِ تفنگ
کہ حیراں رہے دیکھ اہل فرنگ
پھر موسیقی پر جو دھیان آیا تو چند روز میں ایسا ہی گانے لگا کہ تان اس کی اگر تان سین سنتا تو اپنے کان پکڑ لیتا اور بیجو باؤرا باؤلا بن جاتا۔ لَے تال سب کے سب اس کے ہاتھوں میں قید، ساتوں سُر کے کھلے ہوئے اس پر بھید۔ کھلی مُندی پر بہ خوبی قادر، راگ اس کے رو برو دست بستہ حاضر ؎
رکھا موسیقی پر جو کچھ کچھ خیال
کیے قید سب اپنے ہاتھوں میں تال
مصوری پر بھی علی ہذا القیاس ایسا ہی چت لگایا کہ تھوڑے دنوں میں مانی و بہزاد کا استاد ہو گیا۔ زمانے کے مصور اس کے ہاتھ کا کام دیکھ کر نقش دیوار بن گئے اور قلم اپنی قدرت کے عجز سے اس کے سامھنے ڈال اٹھے۔
القصہ اتنے ہی سن و سال میں دنیا کے کسب و کمال میں طاق اور شہرۂ آفاق ہوا۔ جمال و کمال اس کا جو کوئی دیکھتا درود بھیجتا۔ فی الواقع سراپا اس کا حسن و اخلاق سے معمور تھا اور وہ صاحب نظروں کا منظور ؎
رِذالوں سے، نفروں سے نفرت اسے
گیا نام پر اپنے وہ دل پذیر
پلا ساقیا مجھ کو ایک جام مُل
غنیمت شمر صحبت دوستان
ثمر لے بھلائی کا گر ہو سکے
کہ رنگ چمن پر نہیں اعتبار
سدا قابلوں ہیں سے صحبت اسے
ہر ایک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر
جوانی پہ آیا ہے ایام گل
کہ گل پنج روز است در بوستان
شتابی سے بو لے جو کچھ بو سکے
یہاں چرخ میں ہے خزان و بہار