جب نو مہینے خیریت سے گذرے، بادشاہ کے یہاں ایک بیٹا ایسا شکیل پیدا ہوا کہ گھر آنگن اجالا ہو گیا۔ مہر و ماہ کو اس کے جلوے نے پھیکا کر دیا، بلکہ شیدا۔ پری زاد تو کس شمار میں اور انسان کس قطار میں؟ جب حسن و صورت میں اس کا نظیر نہ دیکھا، نام بھی بے نظیر رکھا۔ اندر باہر مبارک سلامت کی دھوم مچ گئی، محل مبارک میں شادی رچ گئی۔ پہلے تو ناظر نے بادشاہ کو معہ عملے آکر نذر گزرانی، پھر وزیر و امیر ہر ایک چھوٹے بڑے نے۔ اور یہ بیت پڑھی ؎
مبارک تجھے اے شہِ نیک بخت
سکندر نژاد اور دارا حشم
رہے اس کے اقلیم زیر نگیں
کہ پیدا ہوا وارثِ تاج و تخت
فلک مرتبت اور عُطارد قلم
غلامی کریں اس کی خاقانِ چیں
بادشاہ نے یہ خوش خبر سنتے ہی جانماز بچھائی، دو گانہ شکر کا پڑھا اور کہا: فی الحقیقت تجھے فضل کرتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ لازم ہے کہ امیدوار تجھ سے ناامید نہ ہو، آس لگائے رہے، دیر ہونے سے گھبرا نہ جاوے۔ پھر حکم کیا: خزانے کھول دیں اور دن رات خیرات کریں۔ پھر ہر ایک کو خلعت اس کے لائق بخشا اور انعام اکرام دیا۔ وزیروں امیروں کو جاگیریں عنایت فرمائیں، مشایخوں کو گاؤں دیے، فقیروں کو روپے، پیادوں کو گھوڑے۔ غرض ایک عالم کو نہال کر دیا اور مالا مال ؎
خوشی میں کیا یہاں تلک زر نثار
جسے ایک دینا تھا بخشے ہزار
اور جشن کی تیاری کو فرمایا۔ نقیبوں نے پہلے تو نقار خانے کے داروغہ سے کہا: حضور کا حکم ہے کہ نوبت خانے کا نئے سر سے ساز و سرنجام درست کرو اور آج سے جشن کی نوبت بجاؤ۔ اس نے وہیں جھلا جھل کے غلاف سنہری رُپہری نقاروں پر چڑھوا دیے اور جو کچھ لازمہ تھا، شتابی درست کروا دیا۔ نقارچی بھی تاش و بادلے کی کرتیاں پہن، جھمجھماتی پگڑیاں باندھ، نقارے سینک سانک بجانے لگے اور اپنا کرتب دکھانے ؎
کہا زیر سے بم نے بہر شگوں
کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں؟
پھر شہناے چی بھی ویسے ہی کپڑے پہن، سرپیچ معمولی باندھ موافق اُن کے سُر بنا مِلا سہانی سہانی دھنیں سنانے لگے۔ غرض اپجیں چلنے لگیں اور پرنیں نکلنے ؎
ٹکوروں میں نوبت کے شہنا کی دھن
سگھڑ سننے والوں کو کرتی تھی سن
تُرہی اور قرناے خوشی کا دم لگیں بھرنے اور جھانجھ تالیاں بجا بجا تھرکنے۔ از بس کہ شادیانوں کی آواز بلند ہوئی، تمام خلقت شہر کی اکٹھی ہو گئی کہ تھالی سروں پر پھرنے لگی ؎
نئے سر سے عالم کو عشرت ہوئی
محل سے لگا تا بہ دیوان عام
کہ لڑکے کے ہونے کی نوبت ہوئی
عجب طرح کا ایک ہوا ازدحام
جہاں تک گویّے نچویّے سازندے تھے، اپنے اپنے کرتب کے دھنی، بڑے بڑے نائک اور گُنی طنبوروں کے سُر ملا، سِتاروں کے پردے بنا حاضر ہوئے ؎
کیا بھانڈ اور بھگتیوں نے ہجوم
ہوئی “آہے آہے مبارک” کی دھوم
تنت کار بین، رباب، قانون بجانے لگے اور گائک نٹوے ناچنے گانے۔ کنچنیوں، رام جنیوں، چونہ پزنیوں کی اللہ رے کثرت۔ کشمیریوں، نقلیوں، ہیجڑوں کی بھلّا رے بہتات۔ طبلوں کی تھاپ پکھاوج کی گمک، سارنگیوں مچنگوں کی صدا اور گھنگروؤں کی جھنک یہاں تلک بڑھی کہ قلعۂ مبارک میں کان پڑی آواز سنی نہ جاتی تھی، بلکہ گنبدِ فلک بھی گونج اٹھا تھا ؎
خوشی کی زبس ہر طرف تھی بساط
کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے
وہ بالے چمکتے ہوئے کان میں
وہ گھٹنا وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ
کبھو دل کو پاؤں سے مل ڈالنا
دکھانا کبھی اپنی چھب مسکرا
کسی کے چمکتے ہوئے نورتن
وہ دانتوں کی مسّی وہ گل برگ تر
لگے ناچنے اس پہ اہل نشاط
وہ پاؤں کے گھنگرو جھنکتے ہوئے
پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں
دکھانا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا
کبھی اپنی انگیا کو لینا چھپا
کسی کے وہ مکھڑے پہ نتھ کی پھبن
شفق میں عیاں جیسے شام و سحر
کسی کے آفتاب سے چہرے کی گرمی و شوخی دلوں کو ذرے کی مانند بے چین کیے دیتی تھی ؎
چمکنا گلوں کا صفا کے سبب
کبھی منہ کتئیں پھیر لینا ادھر
دوپٹے کو کرنا کبھو منہ کی اوٹ
ہر ایک تان میں ان کو ارمان یہ
وہ گردن کے ڈورے قیامت غضب
کبھو چوری چوری سے کرنا نظر
کہ پردے میں ہو جائیں دل لوٹ پوٹ
کہ دل لیجیے تان کی جان یہ
کوئی سنگیت کے علم میں طاق، برم جوگ لچھمی کے رویوں کی مشاق پرملو لے رہی تھی۔ کوئی ڈیڑھ گت ہی کی پھبن دکھا پاؤں تلے تماش بینوں کے دل روندتی تھی۔ کوئی دائرے سے پرن نکال ہاتھوں کا برن اُبھرن دکھا جاتی، کوئی ڈِھمڈِھمی لیے منہدی کے ہاتھوں سے پھرتے چلتے گت ہی بجا جاتی ؎
غرض ہر طرح دل کو لینا انھیں
کریں مار ٹھوکر، کبھی قتل عام
کئی طرح سے داغ دینا انھیں
کبھی ہاتھ اٹھا، لیویں گرتے کو تھام
کسی جگہ کلاونت دُھرپت کبت گیت گا رہے تھے، کسی مقام پر قوّال قول قلبانہ نقش و گل سنا رہے تھے۔ کہیں بھانڈ ولولہوں کا سماں دکھا رہے تھے، کہیں کشمیرنیوں کے طائفے ناچ ناچ رِجھا رہے تھے۔ محل میں بھی راگ رنگ کا ایسا ہی چرچا تھا اور ایک سماں بندھ رہا تھا۔ ایک طرف ڈومنیاں شادیانے دے رہی تھیں، کسی طرف کلاونت بچیاں تانیں لے رہی تھیں۔ جچا خانے میں مبارک سلامت کی دھوم پڑ رہی تھی، مِراسن مالن دائی انگا ایک ایک اپنے اپنے نیگ پر لڑ رہی تھی۔ چھٹھے دن نیک ساعت جچا کو دائیوں خواصوں نے نہلانے کے واسطے پلنگ سے اٹھایا۔ وہ نازک بدن بارِ ناتوانی سے اٹھ نہ سکتی تھی، پھولوں کی ٹہنی کی مانند ادنیٰ جنبش سے لچکتی تھی۔ غرض جوں توں ان کے سہارے سے اٹھی شانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نقاہت و نزاکت سے لڑکھڑاتی ہوئی بڑے مان مہت سے جڑاؤ چوکی پر آبیٹھی، نہایت صفائی اور ستھرائی سے نہائی۔
اس کے بعد دائی نے شہزادے کو بھی بہ احتیاط نفاست و ملائمت سے ایک جڑاؤ لگن میں چاؤ چوچلے سے نہلا کر اس کی گود میں دیا اور دونوں کو اسبند کیا، پھر جچا نے سنہری بادلے کا جوڑا بڑی آب و تاب سے پہنا، بچے کو بھی پہنایا اور ایک پٹی جواہر نگار چمکتی ہوئی اپنے سر سے اور ایک اُس کے سر سے باندھی۔ یہ سماں دیکھ کے مجلس کی مجلس کو چکا چوندھ لگ گئی۔ کوئی کہتی تھی چاند تارے کے آس پاس جڑاؤ ہالا پڑا ہے، کسی کی زبان پر یہ تھا کہ مہرِ حسن و کوکبِ خوبی کے گرد نور نے حلقہ باندھا ہے۔
الغرض اس دم ہر زہرہ جبیں حیران تھی اور ہر ایک نازنین سرگرداں۔ پھر سب امیر زادیوں بلکہ تمام محل کی عورتوں نے بھی نہا نہا پوشاکیں بدلیں، بھاری بھاری بناؤ کیے، مجلس نشاط کی اکٹھی ہوئی، ناچ راگ کی صحبت جمی ؎
چھٹھی تک غرض تھی خوشی کی ہی بات
کہ دن عید اور رات تھی شب برات
تمام روز تو یہی چرچا رہا۔ جب رات ہوئی تب اس مہ جبین جچا کو اور بھی بنا چُنا، گھونگھٹ کاڑھ، سہرا باندھ، چومک روشن کر تارے دیکھنے کو نکالا۔ پھر بادشاہ نے تیر کمان لے سالیوں کو مان گون سے نیگ مِرگ مارا اور اُس مِرگ نینی کے پلنگ پر ایک پاؤں رکھ کر کھڑے ہو رہے۔
غرض وہ اس روپ سے نکلی: داہنے بائیں اس کے دو خواجہ سرا دعائیں پڑھتے ہوئے، ننگی تلواریں ہاتھوں میں لیے پیپلے ملائے، گرد ہزاروں پری پیکریں چمکی چمکائی بناؤ سنگار کیے ہوئے، بیچ میں آپ البیل پنے سے آستے آستے چلتی تھی اور پاؤں تلے ہر ایک کےدل کو ملتی تھی۔ جوں ہیں اس نے تارے دیکھنے کو گھونگھٹ اٹھا دیا، خوب صورتوں کو بھی عالمِ تصویر بنا دیا۔ چاند اُس آفتاب رو کے آگے ماند لگنے لگا اور ہر ایک تارا آسمان پر تھکت رہ گیا ؎
کہاں ماہ میں اُس کے مکھڑے کی جوت؟
لگے اس کو کب شمع کافور کی
چمکتا نہیں آگے موتی کے پوت
وہ تصویر تھی سر بسر نور کی
آخر وہ تارے دیکھ کر جچا خانے میں داخل ہوئی، جہاں پناہ بھی خواب گاہ میں تشریف لے گئے لیکن مجلس شادی کی بدستور قائم رہی۔ رات چہل ہی میں کٹی۔ صبح ہوئے شہزادے کو ایسے مکان میں لے جا کر رکھا جہاں سے آسمان نظر نہ آوے بلکہ دھوپ بھی دکھائی نہ دے۔ غرض جس طرح ہلال بدلی میں چھپا ہوا بڑھتا ہے، اسی طرح یہ ماہ نو آسمانِ سلطنت کا بھی پردوں کے اندر بڑھنے لگا۔ فضل الٰہی سے بہ خیریت سال تمام ہوا، اس نے نام خدا دوسرے میں پاؤں دیا ؎
برس گانٹھ جس سال اس کی ہوئی
دل بستگاں کی گرہ کھل گئی
جب چوتھا برس لگا، دودھ اس کا بڑھایا۔ پھر ویسا ہی جلسہ شادی کا ہوا بلکہ اس سے بھی دونا۔ جس دن وہ سروِ رواں پاؤں چلا، زمین پر گل نے اپنا ماتھا رگڑا اور نرگس نے اپنی آنکھوں کو ملا ؎
لگا پھرنے وہ سرو جب پاؤں پاؤں
کیے بردے آزاد تب اس کے ناؤں
مے ارغوانی پلا ساقیا
کہ تعمیر کو باغ کی دل چلا