کسی شہر کا ایک بادشاہ تھا، رتبے میں شاہنشاہ رعیت پرور، عالم پناہ۔ خزانے اس کے ارب کھرب سے بھرے پُرے۔ جواہر خانے میں طرح بہ طرح کے جواہر ان گنت چوکھے کھرے۔ توشے خانے کے بیچ انواع اقسام کے تھان قیمتی بے شمار۔ پوشاکیں ہر نوع کی شاہانہ و امیرانہ تیار۔ چار وزیر اس کے دانش و عقل میں یکتا، امرا شجاع و دانا ہزارہا۔ سپاہ کی کثرت ملخ و مور سے زیادہ، مرفہ احوال ہر ایک سوار و پیادہ ؎
کوئی دیکھتا آکے جب اس کی فوج
تو کہتا کہ ہے بحر ہستی کی موج
فیل خانے میں ہزاروں خوب صورت پایل نِجھول ہاتھی۔ اصطبل کے بیچ لکہا گھوڑے پری پیکر عربی و عراقی ؎
طویلے کے اس کے جو ادنیٰ تھے خر
انھیں نعل بندی میں ملتا تھا زر
ملک اس کا رشکِ مینو سواد، بہت بڑا اور نہایت آباد۔ رعیت مال و زر سے سب کی سب آسودہ۔ نہ کسی کو مفلسی کا دھیان، نہ چوری کا اندیشہ۔ زمین اس سرزمین کی سرسبز و شاداب، ہر ایک کی نظر اس کے نظارے سے سیراب۔ کوئیں اندارے پاکیزہ و شیریں جدھر تدھر، تالاب باؤلی جا بجا اپنے اپنے موقع پر۔ ہر ایک چھوٹے بڑے کے گھر میں حوض و نہر، آبِ لطافت لے رہا تھا ہر ایک طرف لہر۔ مکانات گچ کے اکثر خوش اسلوب صاف ستھرے، پیکِ نظر جن پر سوچ سوچ پاؤں دھرے۔ کیا کہیے اس کی آراستگی و فضا، وہ نصف جہان اصفہان تھا گویا۔ اہل حرفہ وہاں کے سب کے سب کاریگری میں بے نظیر، بازار وہاں کا ایک لخت مرقع تصویر۔ موجود وہاں ہر ایک طرح کا عالم، جہاں تہاں ہر ایک وقت گذری کا سا عالم ؎
یہ دلچسپ بازار کا چوک تھا
کہ ٹھہرے جہاں بس وہیں دل رہا
بہار ایسی رکھتے تھے بازار کے رستے، گویا پھول رہے تھے گلزار کے تختے۔ دکانیں دو رستہ پختہ و شفاف یکسر، ایک کا عکس ایک میں آوے نظر۔ ہر ایک گلی کوچے میں سنگ مرمر کا فرش، قلعہ وہاں کا بلندی میں مثل عرش۔ پہاڑ اس کے سامنے ایک رائی، رود نیل سی اس کے گرد کی کھائی۔ اس کی عمارت کی ساخت جو دیکھے ایک آن، معمارِ قضا عمر بھر رہے حیران۔ ہر ایک محل اس کا صفائی میں خانۂ نور، جو دیکھے کہے خدا کی قدرت ہے معمور۔ دن رات عیش و عشرت اور چہل، ناچ راگ کے سوا کچھ اور نہ تھا شغل۔ جو غریب فقیر محتاج اُس ملک میں آیا، فی الفور تونگر ہوا۔ شہر تھا کہ خانۂ دولت، شہریار تھا کہ ابرِ رحمت ؎
نہ دیکھا کسی نے کوئی وہاں فقیر
ہوئے اس کی دولت سے گھر گھر امیر
رشکِ باغ ارم ہر ایک باغ اس کا، بِن رُت کے پھول اور پھل وہاں موجود سدا۔ جہاں خزاں میں رہتا ہو بہار کا سماں، وہاں کی بہار کا کیا کیجے بیاں؟ غم کا اس دیار میں تھا کیا لیکھا؟ بجز لالہ کے کہیں داغ نہ دیکھا۔ جہاں تہاں عیش و عشرت، ہر ایک جا راگ رنگ کی صحبت۔ جس تس مقام پر سیر گھر گھر خوشی، تنگ دلی فقط غنچوں ہی میں تھی۔ رشک و حسد نہ تھا کسی کو کسی سے، باہم رہتے تھے سبھی ملے جلے۔ بادشاہ کو مدام ماہ روؤں سے صحبت، اور جامہ زیبوں سے رغبت۔ ہزاروں غلام پری پیکر اس کی خدمت میں حاضر شام و سحر ؎
کسی طرف سے وہ نہ رکھتا تھا غم
مگر ایک اولاد کا تھا الم
اپنے نہال سلطنت کو جو دیکھتا بے ثمر، پژمردہ ہی رہتا آٹھ پہر۔ اس کا خانۂ دولت جو بے چراغ تھا، اسی واسطےاُس کے دل پر داغ تھا ؎
دنوں کا یہ اس کے عجب پھیر تھا
کہ اس روشنی پر یہ اندھیر تھا
قصہ مختصر ایک روز وزیروں کو بلا کر اس نے اپنے دل کا احوال اظہار کیا کہ مجھے بادشاہت اب منظور نہیں، اور اس بوجھ کے اٹھانے کا مقدور نہیں۔ ملک داری کے سبب بہتیری کاہشیں جان پر لیں، ایک عمر انتظامِ سلطنت میں کوششیں کیں۔ کہاں تک دنیا کی فکر میں دین سے غافل رہوں؟ اور مملکت کی طلب میں جان پر جوکھوں اٹھاؤں؟ اب میں نے دھیان اٹھا دیا زر و مال کا، خواہاں ہوں فقیری کے حال و قال کا۔ سواے اُس کے میرے حق میں کچھ بہتر نہیں کہ وارث تخت و تاج اب تک میرے گھر نہیں ؎
فقیر اب نہ ہوں تو کروں کیا علاج
نہ پیدا ہوا وارث تخت و تاج
اب جوانی نبڑی، پیری نمود ہوئی۔ اتنی حرص دنیا کی کس واسطے اور یہ بکھیڑے کس کے لیے؟ سچ تو یہ ہے جوانی کا جانا زندگانی کا جانا ہے۔ جہاں ڈاڑھی میں سفید بال نکلا، مرگ کا پیغام پہنچا۔
وزیروں نے یہ سن کر عرض کی:
“اے آفتابِ آسمانِ سلطنت! ذرہ وار مضطرب ہونا اور اپنی جان کو ایسے اندیشوں میں کھونا خردمندوں کی شان سے اور عقل کی آن بان سے بعید ہے۔ دنیا داری کے لباس میں فقیری کرنا مزا ہے اور الگ رہنا عین آلودگی میں کام بڑا ہے۔ بستر آرام چھوڑ کر جو ذکر الٰہی میں بے آرام رہے، عبادت اس کی ہے۔ جو بوریے پر تسبیح پڑھا کرے اور جاگے، عادت اس کی ہے۔ صلاح دولت یہ ہے کہ سلطنت میں گدائی کرو اور راحت میں براے خدا اذیت سہو۔ خلق کی رفاہ کے واسطے رنج اٹھاؤ، بے کسوں مظلوموں کے برے وقت میں کام آؤ۔ خدا کی نعمتوں کو رد کرنا اور ناحق دکھ بھرنا نہ دین میں اچھا ہے نہ دنیا میں۔ اس خیال فاسد کو خاطر مبارک سے نکالیے، زمامِ اختیار کو گھبرا کر ہاتھ سے نہ ڈالیے ؎
یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت
فقیری میں ضائع کرو اس کو مت
عمل نیک کے پانی سے یہاں اِس کو سینچیے، وہاں پکا پکایا کھلیان لیجیے۔ جلدی کو کام نہ فرمائیے، صبر و تحمل سے ہاتھ نہ اٹھائیے۔ دانا ایک کام کو چھوڑ کر دوسرا اختیار نہیں کرتے۔ مبادا اس بیت سے مخاطب ہوں ؎
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ بر آسماں نیز پرداختی
مناسب ہے کہ عدل و انصاف برقرار رہے اور خیر و خیرات لیل و نہار۔ کیوں کہ جو کوئی یہاں دیوے گا، وہی وہاں لیوے گا۔ جس کا ہاتھ نہ کھلا، وہی خالی ہاتھ گیا۔ بادشاہوں کی نجات انھیں باتوں سے ہے۔ حاکم اگر صرف عبادت پر رہے اور ان کاموں کو سہل جان کر چھوڑ دے، نعمت آخرت نہ پائے گا، بلکہ عذابوں کے صدمے اٹھائے گا ؎
رکھو یاد عدل و سخاوت کی بات
کہ اس فیض سے ہے تمھاری نجات
مگر اولاد کی طرف سے جو حضرت کا مزاج مکدر ہے، اس کی بھی تدبیر کرتے ہیں۔ دعا و دوا میں البتہ اثر ہے۔ تعجب نہیں جو اس کے وسیلے سے آپ کے فرزند ہو۔ مایوس نہ ہو جیے۔ ابھی کیا گیا ہے؟ ساٹھ ساٹھ برس کی عمر میں لوگوں کے یہاں اولاد ہوئی ہے۔ حضرت کا تو سن شریف ہنوز اس حد کو نہیں پہنچا۔ لا تقنطوا من رحمة اللہ پر دھیان لگائیے اور یاس کے کلمے خاطر مبارک سے بھلائیے۔ غلام بھی اب نجومیوں رمّالوں کو بلاتے ہیں اور حضور کے طالعوں کا احوال دکھلاتے ہیں۔”
القصہ بادشاہ کی خدمت میں اس وضع سے تسلی کے کلمے اور بھی عرض کیے اور بہتیرے بھروسے دیے۔ آخر الامر جتنے طالع شناس شہر میں تھے، ان کو طلب کیا اور اطراف میں بھی جتنے اس کام کے سُنے، ان کو بھی بلا بھیجا۔ ایک دن وہ سب کے سب آکر جمع ہوئے۔ تب ان کو حضور میں لے گئے۔ وے آداب بادشاہی سے مجرا کرکے یوں دعائیں دینے لگے: آپ کی عمر و دولت پائدار رہے اور بخت بیدار۔ دشمن تیرا سدا غم کی آگ میں جلے۔ تو ہمیشہ پھولے اور پھلے۔
بادشاہ کو ان کے اطوار پسند آئے۔ ارشاد کیا: بیٹھ جاؤ، اپنی کتابیں کھولو، زائچے کھینچو؛ دیکھو تو میری قسمت میں اولاد ہے یا نہیں۔ یہ سن کر پہلے تو رمالوں کی جماعت نے قرعے پھینکے اور زائچے کھینچے۔ پھر عرض کی کہ بیاض خانۂ امید میں قوت پر بیٹھی یوں کہتی ہے کہ ہر ایک نقطہ زائچے کا فردِ خوشی ہے اور ہر ایک زوج شکلِ فرح و شادی۔ اور اولاد کے گھر میں فرح کا خوش حال بیٹھنا معہ شاہد و ناظر دلیل قوی ہے۔ غرض ہم اپنے علم کے طریق سے اجتماع کرکے کہتے ہیں کہ اسی سال میں خاص محل سے حضرت کے یہاں ایک فرزند ارجمند پیدا ہووے اور غبار ملال و کلفت کا آپ کی لوح خاطر سے دھووے۔ آپ خوش و خرم رہا کیجیے اور شراب عیش اور نشاط پیا کیجیے۔
پھر نجومیوں نے بھی التماس کیا: نحوست کے ایام کا دور گذرا۔ زحل کا عمل تمام ہو چکا۔ طالع کے ستارے نے طور بدلا۔ شادی کا دور آیا۔ ایک سے ایک کوکب بھی نظر نیک رکھتا ہے۔ چاہیے کہ آپ کا مطلب جلد حاصل ہو۔
بعد اُن کے پنڈتوں نے جنم پتری بادشاہ کی دیکھی اور سوچ بچار کر کچھ انگلیوں پر گنا۔ راسوں کی طرف دھیان لگایا۔ تُلا، برچھک، دھن، کنبھ پر گیان دوڑایا۔ آخر نج تج سے دیکھ داکھ بولے: اب حضرت کے نصیبوں نے یاوری کی کہ پانچواں آفتاب اور ساتویں مشتری آئی۔ چاہیے من کی منسا رام کی دَیا سے پوری ہو اور چاند سا بالک اپنے گھر میں کھیلتا دیکھو ؎
نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن
مقرر ترے چاہیے ہو پسر
نہ ہو گر خوشی تو نہ ہوں برہمن
کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر
لیکن اس کو بارھویں برس بلندی پر خطرہ ہے۔ جب تک بارہ برس کا پورا نہ ہووے، کوٹھے پر نہ چڑھے بلکہ آسمان بھی نہ دیکھے۔
حضرت نے فرمایا کہ جان کی تو خیر ہے؟ وے بولے: البتہ جی جوکھوں تو نہیں پر آوارگی و مسافرت چندے اس کی قسمت میں ہے۔ اغلب کہ اس پر کوئی پری عاشق ہو اور یہ کسی شہزادی پر۔ اس سبب کتنے دنوں دکھ بھرے گا اور گردش میں رہے گا۔
حضرت ان کی باتوں سے کچھ خوشی ہوئے اور کچھ ملول۔ فی الواقع دنیا میں ایسی شادی کم ہے کہ جس کے بعد غم نہ ہو۔ آخر کہنے لگے: ان باتوں پر بھروسا نہ کیا چاہیے۔ خدا جو کچھ چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ غیب کی خبر بھی اسی کو ہے۔ پر یہ چلن آگے سے چلا آیا ہے، کچھ نیا نہیں۔ ان لوگوں سے پوچھنا اور فال نیک لینا، صدقہ دینا روا ہے۔ ہرچند نجومی عالم غیب نہیں، پر اس سے پوچھنا عیب نہیں ؎
یہ فرما محل میں درامد ہوئے
نجومی وہاں سے برامد ہوئے
از بس کہ اس کا اعتقاد فقط خدا ہی پر تھا، صبح و شام خلوص سے دعائیں مانگنے لگا۔ مسجدوں میں روشنی بلا ناغہ بھیجنی شروع کی، ہر ایک پیر فقیر سے بھی رجوع کی۔ نِدان اس کی امید کا کھیت سبز ہوا اور پھل اس کو ملا۔ جب ایسی لو لگائی، تب منہ مانگی مراد پائی۔ حاصل یہ ہے کہ بادشاہ کی بیاہتا بی بی اسی سال میں حاملہ ہوئی اور بنیاد اولاد کی بندھی ؎
جو کچھ دل پہ گذرے تھے رنج و تعب
خوشی سے پلا مجھ کو ساقی شراب
کروں نغمۂ تہنیت کو شروع
مبدّل ہوئے وہ خوشی ساتھ سب
کوئی دن کو بجتا ہے چنگ و رباب
کہ ایک نیک اختر کرے ہے طلوع