وہ پردہ نشین یے باتیں سن کر وہاں سے بے تابانہ چلی آئی اور حیا سے نیچی آنکھیں کرکے بیٹھ گئی۔ صورت اس کی دیکھ کر ایک حالتِ بے خودی شہزادے کو بھی ہو گئی۔ پھر کچھ ایک دیر کے بعد آپس میں دونوں چار ہوئے تب آنکھوں سے ہر ایک کی لعل و گوہر نثار کیے۔ ایک کی چشم پر خون تھی اور ایک کی پر نم۔ اِس کو اُس کا غم تھا اور اُس کو اِس کا غم۔ نہ وہ رنگ و روپ بدرِ منیر کا تھا نہ وہ احوال بے نظیر کا۔ وہ گل چہرہ زرد ہو گئی تھی اور وہ نو نہال زار۔ ملے آپس میں اس طرح جیسے بیمار سے بیمار۔ ندان منہ پر رومال رکھ کر شہزادہ بے اختیار زار زار رونے لگا اور اپنا منہ آبِ اشک سے دھونے ؎
وہ مجروح دل تھی جو بدرِ منیر
لگی کھینچنے دل سے آہوں کے تیر
ندان آنکھوں میں آنسو بھر لائی اور رو رو کر جیب و آستین بھگائی۔ غرض اس وقت کی عجب صحبت تھی کہ ہر ایک پر بے اختیاری کی حالت تھی ؎
پڑیں غم کی باتیں جو آ درمیاں
یہ روئے کہ لگ لگ گئیں ہچکیاں
غرض اسی طرح دیر تلک رونا کیے اور جدائی کے داغوں کو دھویا کیے ؎
کلیجے پہ تھے داغ بس بے شمار
تو آنکھوں سے اُن کی دکھائی بہار
اتنے میں نجم النسا گھبرا کر بولی: اے بادشاہ زادی! کیا قہر کرتی ہے، بس زیادہ اپنی اس کو الفت نہ جتا اور چاہت نہ دکھا۔ کیا تیرے واسطے کم رویا ہے کہ ان حرکتوں سے اس کے غم کو بڑھاتی ہے اور صبر و شکیبائی کو گھٹاتی ہے۔ اس کے بدن میں ٹک ایک تاب طاقت آنے دے، بس اب اس ذکر کو جانے دے ؎
یہ مردا سا لائی تھی میں اس لیے
وہاں میں نے اِس کی نہیں کی دوا
لے آئی ہے اس کو محبت کی دھن
کہ دیکھے سے تیرے شتابی جیے
کہ ہے خانۂ یار دار الشفا
جیا ہے یہ اب تیرے ملنے کی سن
جلد اس کو اپنے وصل کی دارو پلا اور نیم جان مردے کو پھر جلا۔ اب کچھ آپس میں خوشی کی باتیں کرو، گذشتہ کو بھول جاؤ۔ خدا تمھیں پھر نہ رولاوے اور جدائی کبھی خواب میں بھی نہ دکھاوے۔ یہ بات خوش نما نہیں کہ دو بچھڑے ہوئے جو آپس میں ملیں تو منہ سُجائے الگ تھلگ بیٹھے رہیں۔ نجم النسا کی یہ گفتگو سن کے سب غنچہ دہن مانند گل کے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ پھر تو باہم شروع ہو گئے رویے اختلاط کے اور ہر ایک کے دل سے اپجنے لگے طریقے عیش و نشاط کے کہ آدھی رات بجی۔ شہزادی نے خاصہ یاد فرمایا۔ خوب صورت خوب صورت بکاولنیاں جگمگاتی پوشاکیں پہنے ہوئے جواہر نگار خوانوں میں اقسام کا خاصہ لگا کر اور کسنوں سے کس اُنھ پر تورے پوش بادلے اور زربفت کے ڈال کر بجلی بسنت بھویَنوں کے سروں پر دھروا، سونے روپے کی دستیاں چمک چاندنی مشعل چنوں کے ہاتھ میں روشن کروا لائیں اور نعمت خانے میں دستر خوان زربفت کا بچھا کھانا اس سلیقے سے چنا کہ دستر خوان پر گلزار بنا دیا اور عالم بہار کا دکھا دیا۔ ان کی لذت کا بیان کیوں کر ہو سکے کہ مٹھائی سے ہونٹھ بند ہوتے ہیں اور نمکینی سے ان کی زبان چٹکارے لیتی ہے۔ پھر بادشاہ زادی سے عرض کی کہ خاصہ چنا گیا، تب شہزادی شہزادۂ بے نظیر و فیروز شاہ اور نجم النسا سمیت نعمت خانے میں آکر دستر خوان پر بیٹھی۔ چہلوں سے اور خوشیوں سے خاصہ نوش فرمایا۔ بعد اس کے جڑاؤ پان دان، عطر دان اور چنگیر کہ ان میں اقسام اقسام کے عطر اور جڑاؤ پکھروٹوں کے بیڑے اور کناریوں کے گتھواں ہار تھے، حضور میں لا کر رکھے۔ ہر ایک نے کھائے لگائے پہنے۔ پھر شہزادی اور شہزادۂ بے نظیر، نجم النسا اور فیروز شاہ اپنی اپنی خواب گاہ میں گئے ؎
اٹھائے تھے جو جو کہ رنج و ملال
ہوئے اس مزے میں وو خواب و خیال
غرض جب شاہ زادہ اور شاہ زادی پلنگ پر لیٹے تب شہزادہ اپنی سرگذشت یوں کہنے لگا کہ ایک اندھیرے کوئیں میں قید تھا اور اس قدر رویا کرتا کہ اکثر اوقات میرا جی ڈوب جاتا۔ کبھی گھبراتا تو مثل جرس فریاد کرتا، پر کوئی میری فریاد کو نہ پہنچتا۔ وہ اندھیرا کواں ایک مدت میرا گھر رہا اور ہمیشہ میری چھاتی پر ایک غم کا پتھر رہا۔ مجھ کو وہاں سے نکلنے کی یاس تھی بلکہ اپنے جینے اور تجھ سے ملنے کی بھی آس نہ تھی۔ عجب دکھوں سے تیری دوری میں زیست کرتا تھا، زندگانی میں بھی ہر روز مرتا تھا۔ خدا نے ہی تجھ سے جیتے جی ملایا گویا قبر کے مردے کو پھر جلایا۔ تب شہزادی نے رو کر یہ جواب دیا کہ میرا بھی احوال اس سے بدتر تھا۔ چنانچہ ایک رات جو روتے روتے تیرے دھیان میں سو گئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک جنگل و بر بے خار و درخت سنسان ہے اور ایک کواں وہاں نہایت تاریک ہے۔ اس میں سے یہ آواز آتی ہے کہ اے بدرِ منیر! ادھر آ تو کہ یہیں قید ہے بے نظیر۔ میں نے ہر چند چاہا کہ تجھ سے بات کروں لیکن بے قراری کے مارے میری آنکھیں کھل گئیں۔ اس وقت میرے دل پر عجب قلق گذرا اور دل بے قرار نہایت تڑپھا۔ قریب تھا کہ جگر پھٹ جائے اور دم تن سے باہر نکل آئے۔ یقین جان کہ جو دکھ تجھے پہنچتا تھا، اس کا صدمہ میرے بھی دل پر گذرتا تھا۔ مگر عمر میں کچھ باقی تھی کہ جیتی رہی ؎
اسی دن سے یہ حال پہنچا مرا
کہ مرتی رہی نام لے لے ترا
گو بظاہر تیرے حال سے کوئی خبر نہ دیتا تھا لیکن میں دل کی لاگ سے آٹھ پہر دریافت کرتی تھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں بھرتی تھی۔ جو جو تو صبح و شام سہتا تھا، ان کا صدمہ میرے دل پر رہتا تھا۔ کسی سے اپنا دردِ نہاں نہ کہتی تھی، شمع کی مانند جلتی ہی رہتی تھی ؎
عجب طرح سے زیست کرتی تھی میں
اسی غم میں رہتی تھی لیل و نہار
پر اس زندگانی سے مرتی تھی میں
کہ کیوں کر ملاوے گا پروردگار
قصہ کوتاہ نجم النسا میری حالت دیکھ کر جوگن کا بھیس کرکے نکلی اور تجھ سے کس تگ دو سے ملی ؎
پھر آگے تو معلوم ہے تم کو سب
کہ ہم تم ملے پھر اُسی کے سبب
یہ واردات آپس میں اپنی اپنی کہہ کر بے اختیار روئے، آرام سے وے ایک دم بھی نہ سوئے۔ الحق کہ بچھڑے ہوؤں کی ملاقات کی رات باتوں ہیں میں جاتی ہے اور صبح تلک دونوں کو رولاتی ہے ؎
جو ملتے ہیں بچھڑے ہوئے ایک جا
پری زاد و نجم النسا وھاں جدے
کٹی رات حرف و حکایات میں
شبِ وصل کی جو سحر ہو گئی
انھیں نیند باتوں میں آتی ہے کیا!
الگ اپنی باتوں میں سرگرم تھے
سحر ہو گئی بات کی بات میں
تو سوتوں کو گویا خبر ہو گئی
وہیں صبح کی سفید نقاب منہ پر ڈال کر مہتاب چھپ گیا اور آفتاب نے شرابِ شفق کا جام بھر صبوحی کشوں کو خوابِ غفلت سے جگا دیا ؎
ہوا چشم وا جَب وہ مژگاں دراز
سفید و سیہ میں ہوا امتیاز
خواب گاہ سے وہ مہر و ماہ اور مشتری و زہرہ نکلے، ہر ایک نے حمام کر پوشاک و لباس پہنا اور بناؤ سنگار کیا۔ نئے سر سے عالم بہار کا دکھایا، اس غم کدے کو پھر کر گلزارِ عیش بنایا۔ وہ نجم النسا کہ جوگن بنی تھی، نہا دھو کر نکلی اس آن سے جیسے الماس نکلتا ہے کان سے ؎
نہائے سے نکلا عجب اس کا روپ
نکل آئے بدلی سے جس طرح دھوپ
لیکن عاشق کے دل جلانے کو لاہی کا ایک لال جوڑا پہنا، سنہری تمامی کی سنجاف کا اس میں ایسا جھمکڑا تھا جیسے لال بادل میں بجلی کا۔ اس بھبھوکا سی پوشاک میں مکھڑے کا رنگ ایسا جھلکتا تھا جیسے شعلہ آگ کا بھڑکتا ہے ؎
نکیلی وہ اٹھی ہوئی چھاتیاں
نلاہٹ وہ بھٹنی کی یوں تھی نمود
گلے کی صفائی و کرتی کا چاک
پھریں اپنے جوبن میں اتراتیاں
کہ جوں سرخ چہرے پہ خال کبود
تڑاقے کی انگیا کسی ٹھیک ٹھاک
اور اس میں وہ نارنگی سی کچیں لال لال، ایسی نمایاں جیسے قمقموں میں گلال یا آفتاب و مہتاب نقابِ سرخ میں جلوے لے رہے ہیں اور دلوں کو آتش شوق سے داغ دے رہے ہیں ؎
بَنَتگِرد کیوں کر نہ ان کے پھرے
وہ کنگھی کھنچی اور وہ ابرو کھنچی
کھجوری وہ چوٹی، زری کا مباف
عروسانہ اس نے کیا جو لباس
کہ وھاں گوکھرو لہر کھا کر مڑے
ہر ایک اینٹھ میں اپنی ہر سو کھنچی
کہ جوں دود کے بعد شعلہ ہو صاف
تو آنے لگی خون کی اس سے باس
جب اس طرح سے اپنے تئیں وہ رشکِ حور سج سجا بہ صد ناز و ادا فیروز شاہ کے سامھنے چمکتی ہوئی آئی، وہ پری زاد بے چارہ دیوانہ تو ہو ہی رہا تھا، جان سے بھی جانے لگا۔ لوگوں کی حیا سے ظاہر میں تو صدقے نہ ہوا پر دل ہی دل میں اس کی بلائیں لیا کیا۔ غرض خوشی سے ان کی اوقات گذرنے لگی۔ دن تو عید تھا ان کو اور رات شب برات تھی۔ نت بنے ٹھنے ہی رہتے اور آپس میں اپنا اپنا راز دل کہتے ؎
خوشی سے ہوئے بسکہ سرسبز دل
لگے سبزیاں پینے آپس میں مل
ضیافتیں باہم چرچوں سے اور خوش فعلیوں سے کھانے لگے، وہ غم کھانے ان کے آخر ٹھکانے لگے۔ چھپے چھپے عیش و عشرت کرتے تھے لیکن غیروں کے چرچوں سے ڈرتے۔ اگرچہ ہر ایک کا وصل سے دل شاد تھا پر ہجر کا تہلکہ بھی سب کو یاد تھا۔ القصہ ایک دن کا مذکور ہے کہ بے نظیر نے فیروز شاہ سے کہا کہ کہاں تلک چھپے چھپے اوقات بسر کیجیے، اس سے بہتر یہ ہے کہ کسی ملک کی طرف جا نگہداشت کرکے فوجیں جنگی بنائیے اور اسباب لڑائی کا درست کر پھر اسی سمت آئیے اور مسعود شاہ سے درخواست بیاہ کی کیجیے۔ اس واسطے کہ اس طور کے عیش و عشرت سے جیسا کہ چاہیے ویسا مزا نہیں اٹھتا۔ کیوں کہ کھٹکا اس بات کے کھل جانے کا دل پر رہتا ہے۔ غضب ہے کہ ان صعوبتوں سے بارِ دیگر ملاقات ہوئی لیکن افشاے راز کی دہشت ویسی ہی ہے۔ پھر اس طرح کے وصل سے کب جی بھرا اور کیا مزا اٹھا۔ جب یہ بات ٹھہری تب بدرِ منیر اور نجم النسا کو کہا کہ تم اپنے اپنے ما باپ کی خدمت میں جا کر حاضر ہو اور ہم کسی طرف اس ارادے پر جاتے ہیں۔ اگر نصیبوں نے یاری کی تو مقدمہ یکسو کرکے ملاقاتیں بخوبی کریں گے اور تمام عمر عیش و عشرت میں بے دھڑکے رہیں گے۔ یہ سن کر بدرِ منیر نے بادشاہ سے عرض کر بھیجی کہ لونڈی کا جی چاہتا ہے آپ کے قدم دیکھے۔ غرض اس بہانے سے اپنے اپنے باپ کے گھر گئیں۔ بے نظیر اور فیروز شاہ نے بھی کسی طرف جا کر بہت سی فوج رکھی اور سلطنت کا ٹھاٹھ لڑائی کا اسباب بنا کر نہایت چالاکی و چستی سے سراندیپ کی طرف کوچ کیا۔ چند روز کے عرصے میں اس ملک کی سرحد کے پاس آن پہنچے اور وہیں خیمہ کیا۔ بعد اس کے مسعود شاہ کو یہ نامہ لکھا:
“اے شاہِ شاہاں و افتخارِ جم! اے فریدوں مثال و سکندر حشم! مراد دینے والے جہاں کے اور جہاں کی مراد! اے والا مرتبت عالی نژاد! سرتاجِ شجاعانِ زمان! رستم دل حاتم دوران!
میں ایک مہمان غریب تیرے شہر کے قریب وارد ہوں اور میرے نصیب مجھ کو یہاں تلک لائے ہیں۔ نوازش شاہانہ سے بعید نہیں جو میرے حال پر کرم کیجیے اور اپنی غلامی میں لیجیے کہ یہ رسم سب بادشاہوں میں جاری ہے اور آفرینش و عادتِ جہاں یوں ہیں ہے۔ میرا حسب و نسب بھی جہاں پر روشن ہے کہ میں بادشاہ زادہ ہوں اور نام میرا بے نظیر ہے۔ یہ کچھ لاو لشکر میرے ساتھ ہے اور بڑے بڑے ملک میرے تحتِ فرمان میں ہیں۔ اگر مرضیِ شریف آپ کی برعکس اس کے ہے تو مجھے اپنا حریف سمجھیے گا اور وہیں پہنچا جانیے گا۔ زیادہ حدِّ ادب۔”
جب نامہ مسعود شاہ کو ایلچی نے پہنچایا اور وہ اس کے مضمون سے مطلع ہوا تب سوچا کہ اگر لڑائی ہوتی تو بڑی ہوگی اور فتح و شکست اختیار خدا کے ہے، خدا جانے کہ کس کی ہو۔ زمانے کی راہ و رسم یہی ہے کہ ملوک و سلاطین میں باہم نسبتیں ہوتی ہیں، یہ بات معیوب نہیں۔
بعد اس کے یہ جواب لکھا کہ :
“پس از حمد و ثناے الٰہی و نعت رسالت پناہی کے واضح ہو کہ نامہ تمھارا پہنچا اور مضمونِ مندرجہ اس کا معلوم ہوا۔ واقعی کہ شرع میں مضائقہ نہیں اور عرف میں بھی عیب نہیں۔ اس سبب سے مجبوری ہے و الّا نہ کچھ تمھارے جاہ و حشم سے اور شان و شوکت سے اور کثرتِ لشکر سے خطرا نہیں۔ اگر ارادہ اپنا ہو تو لڑنا کتنی بات ہے۔ ابھی تم لڑکے ہو، لڑائیوں کے طور کو جانتے نہیں، اتنا گھمنڈ اور غرور کرنا بہ سبب ناکردہ کاری کے ہے ؎
کسی پاس دولت یہ رہتی نہیں
سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں
از بس کہ مجھ کو پاسِ شرع ہے، اس واسطے اس امر کو قبول کیا ؎
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بہ منزل نخواہد رسید
کوئی اچھی تاریخ ٹھہرائیے اور بے اندیشہ یہاں آئیے۔ تمھارا گھر ہے زیادہ والسلام۔”
پھر اس کو لفافہ کرکے ایلچی کو دیا اور خلعت عنایت کر رخصت کیا۔ یہ خوشی کی خبر ہر چہار طرف پہنچی اور جا بجا مشہور ہوئی۔
القصہ شہزادے نے جو اس جواب با صواب کو پڑھا، نہایت شاداں و خنداں ہوا۔ گویا اس کے یہاں عید ہوئی اور ووں ہیں جلدی سے کوچ کرکے متصل شہر کے پہنچ کر لشکر کے تئیں چھاؤنی کا حکم فرمایا اور آپ جو عشرت کدہ کہ مسعود شاہ نے معین کیا تھا اس میں جا اترا۔ بعد اس کے بادشاہ کے بہ موجب حکم اکثر امیر زادیاں اور وزیر زادیاں شہ زادے کے گھر مہمان آئیں۔ محل میں مجلس بیاہ کی رچی اور دھوم شادی کی مچی۔ باہر بادشاہ زادے نے بھی اُسی دن سے جشن شروع کیا۔ غم سے دل اس کا تنگ ہو رہا تھا، کھل گیا اور اُسی دن سے راگ رنگ شروع ہوا۔ دونوں طرف شادی کی تیاریاں ہونے لگیں اور چہلیں مچ گئیں ؎
بُلا شُگنیوں کو، بتا سال و سِن
کدھر ہے تو اے ساقیِ گل بدن!
بُلا مطرِبانِ خوش آواز کو
وہ اسباب شادی کا تیار ہو
مقرر کیا نیک ساعت سے دن
دھری آج اُس شمع رو کی لگن
کہ آویں لیے اپنے سب ساز کو
مکرر نہ پھر جس کی تکرار ہو