القصہ ایک دیو کوئیں میں اترا اور شہ زادے کو یوں نکال لایا جیسے خضر آبِ حیات کو ظلمات سے۔ وہ روشن بیان اس اندھیرے کوئیں سے یوں نکلا جس طرح حرفوں سے معانی ؎
وہ جیتا تو نکلا، ولے اس طرح
زِبس اوپر آنے کا تھا اس کو غم
کہ بیمار ہو نزع میں جس طرح
کہے تو کہ بھرتا تھا اوپر کا دم
بدن سر تا پا خاک سے آلودہ تھا، ایسا نکلا جیسے گڑا ہوا پتلا ؎
نہ آنکھوں میں طاقت، نہ تن میں تواں
کہ جوں خشک ہو نرگسِ بوستاں
وہ جسم گلفام اس کا پیلا ہو گیا تھا اور گلے کا سبز جوڑا نیلا۔ وو سنبل سے اس کے بال، لاغری سے بدن کی ہو گئے تھے وبال ؎
فقط پوست باقی تھا یا اُستخواں
بدن خشک و زرد اس طرح تھا وہ کُل
نہ تھا خون کا رنگ بھی درمیاں
خزاں دیدہ ہو جس طرح برگ گل
وہ ناخن اس کے (جو مثلِ ہلال تھے) اتنے بڑھے تھے کہ بدر ہو گئے ؎
بدن سے رگوں کی تھی ایسی نمود
کہ الجھا ہو جوں ریسمانِ کبود
یہ خستہ احوال دیکھ کر اس کا، فیروز شاہ آبدیدہ ہوا اور اسے اپنے تخت پر لٹا کر وہاں لے آیا جہاں جوگن رہتی تھی۔ پھر اسے تخت سمیت ایک جگہ چھپا ڈالا اور جوگن کے پاس آکر کہا: اے نجم النسا!
چل اب تو کہ میں اس کو لایا یہاں
یہ سنتے ہی گھبرا کے بولی: کہاں؟
اس کے نام کی از بس کہ وہ دیوانی تھی، بے اختیار ہو کر ایسی دوڑی کہ سر پاؤں کی سدھ نہ رہی اور یہی کہتی جاتی تھی کہ کہاں ہے وہ، مجھے بتاؤ۔ ذرا اس کی صورت جلد دکھاؤ۔ فیروز شاہ نے اس کی یہ گھبراہٹ دیکھ کر کہا کہ ٹک سنبھل کر چلو، ایسا نہ ہو کہ کہیں شادی میں غم ہو ؎
یہ کہہ اور لے ہاتھ میں اس کا ہاتھ
لے آیا وہ جوگن کو وھاں ساتھ ساتھ
پھر آپ اسی تخت پر بیٹھا اور کہنے لگا: ایک ذرہ غور سے دیکھ ؎
جسے ڈھونڈھتی تھی تو یہ ہے وہی
کہا: ہاے، ہاں وہ یہی ہے یہی
یہ کہہ کر اس تخت کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے پری زاد! تو اٹھ کر کنارے ہو کہ میں اس تخت کے آس پاس پھروں اور دل کھول کھول اس کی بلائیں لوں۔ تب فیروز شاہ نے ہنس کر کہا: ہزار حیف کہ تو اس بات پر میرے صدقے نہ ہو ؎
کہا اس نے تب اپنی جوتی دکھا:
ارے دیو، تو کیوں دیوانہ ہوا!
غرض وہ پری زاد نیچے اترا اور ایک طرف کھڑا ہوا۔ تب نجم النسا اس کے گرد پھرنے لگی اور بلائیں لے لے پاؤں پر گرنے۔ پھر بے اختیار گلے لگ کر رونے لگی اور تن من سے نثاراس پر ہونے۔ اس حالت میں آنکھ اٹھا کر بے نظیر نے جو دیکھا تو پہچانا کہ نجم النسا ہے۔ گھبرا کر کہنے لگا کہ تو یہاں کہاں اور یہ جوگ کیسا۔ تم نازنیں لوگ اور لباس ایسا؟ وہ بولی کہ تیرے غم نے مجھے ایسا دیوانہ کیا کہ اپنوں سے بے گانہ کیا۔ پھر بغلیں کھول یہ آپس میں ملے اور متصل دیر تلک رویا کیے۔ بعد اس کے اپنی سرگذشت بیان کرنے لگے اور آنکھوں کو آنسوؤں سے بھرنے۔ نِدان اپنے اور شہزادے کے ملنے کے وقت تلک جو کچھ کہ احوال گذرا تھا، کہا۔ یے باتیں سن کر بے نظیر پہلے تو غم ناک ہوا اور آخر کو خوش۔
ایک دن تو وہیں رہے اور دوسرے دن قریب شام کے فیروز شاہ اور بے نظیر معہ نجم النسا تخت پر سوار ہو کر مسعود شاہ کے ملک کی طرف روانہ ہوئے اور ایک آن میں بدرِ منیر کے باغ میں آ اترے۔ غرض نجم النسا ان کو چھوڑ اکیلی جہاں بادشاہ زادی سوگ میں بیٹھی تھی وہیں آئی اور یکایک بے تابانہ اس کے پاؤں پر گر پڑی۔ شہزادی ہکا بکا ہو کر جھجھکی اور ڈری۔ آخر غور سے جو دیکھا تو معلوم کیا کہ غم میں مجھ بروگن کے جوگن ہوئی تھی، یہ وہی ہے۔ از بس کہ اشتیاق اس وقت غالب تھا، کہنے لگی: ہاے نجم النسا! تو ہی ہے میری جان، میں تیرے گئی قربان۔ مجھے تیرے ملنے کی مطلق آس نہ تھا، بلکہ اپنے جینے کی یاس تھی۔ ہر چند بادشاہ زادی نے چاہا کہ ہووے کھڑی، پر مارے ناتوانی کے کھڑے ہوتے ہوتے گر پڑی ؎
کہا: بارِ غم سے اِفاقت نہیں
اری کیا کروں، مجھ میں طاقت نہیں
تب تو نجم النسا بلائیں لے کر اس کے تصدّق ہوئی اور شہزادی کا حال دیکھا تو آگے سے بھی بدتر پایا۔ نہ وہ چہرے پر آب و تاب رہی، نہ وہ تن پر تر و تازگی۔ پھر باغ پر جو نگاہ کی بے رونق نظر آیا، آب جوؤں کو سوکھا پایا۔ گل و غنچے ہورے ہیں پایمال سے، تمام نونہال نظر آتے ہیں نڈھال سے۔ چمن یک لخت اجڑے پڑے ہیں، درخت جہاں تلک ہیں جھاڑ سے کھڑے ہیں۔ اور محل کو دیکھا اجڑا سا گھر، ٹوٹے ہوئے اس کے دیوار و در۔ خواصیں نازنیں جو اس کی خدمت میں تھیں، سو میلی کچیلی ماری ماری پھرتی ہیں کہیں کی کہیں۔ کنگھی چوٹی کسی کی درست نہیں۔ ہر ایک کے منہ پر اداسی چھا رہی ہے، چالاکیوں کے بدلے سستی آگئی ہے۔ ڈھنگ بگڑ گیا ہے، رنگ اڑ گیا ہے۔ نہ آپس میں وے چہلیں ہیں نہ وے چہچہے۔ نہ گانا بجانا ناچنا نہ وے قہقہے۔ درد و غم سے ہر ایک بے قرار، ناتوانی سے جو ہے سو زار و نزار۔ بادشاہ زادی کی بے قراری سے ہر دم اپنی جانیں کھوتی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آہیں بھر بھر کے روتی ہیں ؎
جو خود ہے تو حیراں ہے بیمار سی
نہ تاب و تواں اور نہ ہوش و حواس
کہ جوں زرد شیشے کی ہو آرسی
ضعیف و نحیف و پریشاں، اداس
یہ احوال دیکھ کر نجم النسا شمع کی مانند رونے لگی کہ ایک بارگی محل میں اس کے آنے کی دھوم پڑ گئی۔ اس کے گرد لوگوں کی بھیڑ ہو گئی، مبارک سلامت کی آواز بلند ہوئی۔ کوئی خوشی سے بہ رنگِ غنچہ کھلنے لگی، کوئی بے اختیاری سے دوڑ دوڑ کر اس سے ملنے۔ کوئی صدقے کے واسطے ٹکے لے آئی، کسی نے سر سے اس کے روٹی چھوائی۔ کوئی گھرسے کوئی باہر سے، کوئی ادھر سے کوئی اُدھر سے آئی اور حقیقت اس سے پوچھنے لگی ؎
ہوا سر پر اس کے زبس ازدحام
کہا: بی بیو! کل کہوں گی میں حال
لگی کرنے گھبرا کے سب کو سلام
کہ اب راہ کی ماندگی ہے کمال
جب وہ انبوہ سرکا تب اس نے شہزادی سے عرض کیا کہ ذرا ادھر تشریف لائیے اور مکانِ تنہا میں چل کر آرام فرمائیے، پر اشارے سے جتایا کہ مجھے تم سے کچھ کہنا ضرور ہے اور اس کا یہاں کہنا آئین سے دورہے ؎
گئی جب کہ خلوت میں بدرِ منیر
کہا: لے میں لائی ترا بے نظیر
یہ سن کر ایک دم تو حیرت سے وہ ایسی غوط میں گئی کہ سدھ بدھ اپنی کچھ نہ رہی۔ پھر ٹک ایک چیتی تو تعجب سے پوچھنے لگی کہ یہ بات سچ ہے یا مجھ سے چھیڑ کرتی ہے ؎
کہا: مجھ کو سوگند اِس جان کی
غلط کہنے والی، میں قربان کی
لیکن خوشی کی خبر کو یک بیک نہیں کہتے کہ مبادا سرور کی زیادتی سے حال کچھ نوعِ دیگر ہو۔ اس واسطے میں نے ڈھیل کی۔ پھر شاہ زادی نے پوچھا کہ کس طرح سے اسے لائی اور وہ کہاں تھا اور تجھ پر کیا کیا حادثہ گذرا؟ تب اس نے اپنی سرگذشت اور شہزادے کی بیان کی۔ یہ سن کر پوچھا کہ وہ ہے کہاں، جلد بتا؟ بولی کہ انھیں درختوں میں ہے اور مسکرا کر یہ شعر پڑھا ؎
ترا جا کے قیدی چھڑا لائی ہوں
پر ایک اور بندھوا اڑا لائی ہوں
پر عجب نیک وقت میں تجھ سے جدا ہوئی تھی کہ تیرے دلبر کو تجھ سے لاکر ملا دیا۔ مگر میری بھی آزادگی تیرے کارن نہ رہی کہ ناحق ایک دامِ بلا میں پھنسی۔ اگر تیری مرضی ہو تو شہزادے کو میں لے آؤں اور پری زاد کو ہوا بتاؤں ؎
یہ سن شاہ زادی ہنسی کھلکھلا
اری، ایک ہی تو بڑی قہر ہے
کہا: کیوں اڑاتی ہے نجم النسا!
کہیں ہے تو امرت کہیں زہر ہے
بس چوچلے اب زیادہ نہ کر اور بک بک سے میرا مغز نہ پھرا۔ کہیں جلدی جا کر ان دونوں کو لے آ۔ کہنے لگی: بہت بہتر، لیکن تم بغیر شاہ زادے بے نظیر کے کہے اس پری زاد کے روبرو ہوگی۔ تب شہزادی نے کہا: وہ ایسا نادان نہیں۔ میرا تیرا ربط خوب جانتا ہے۔ کس طرح سے میرے تئیں اجازت نہ دے گا، لیکن اگر تیرے دل میں وسواس ہے تو اس سے یہ پوچھ لے کہ شہزادی فیروز شاہ کے روبرو ہو یا نہ ہو۔ یے باتیں سن کر نجم النسا جلدی گئی اور ان کو چھپے چھپے لا کر خلوت کے قدیمی مکان میں بٹھایا۔ پھر شہزادے بے نظیر سے عرض کیا کہ اگر آپ کی مرضی ہو تو شہزادی فیروز شاہ کے سامھنے ہووے، نہیں تو نہیں۔ اس نے کہا کہ تجھ کو کچھ خیر ہے نجم النسا! کہیں بھائی بہن میں بھی پردہ ہوا ہے اور سواے اس کے مجھ میں اور اس میں بھی کسی طرح کا حجاب نہیں۔ دو ایک ہیں، مغایرت کسی طرح کی نہیں ؎
مری جان و مال اس پہ قربان ہے
ترا وہ تو ہم دم ہے دن رات کا
مرے منہ سے ساقی ملا دے شراب
کہ اس کے سبب سے مری جان ہے
مجھے اس سے پردہ ہے کس بات کا
کہ ملتے ہیں پھر وہ مہ و آفتاب