﷽
قلم سے لکھوں پہلے نام خدا
وہ کیا ہے کہ ہو یہ کہانی تمام
کہ حاصل ہو دل کا مرے مدعا
بحقِ نبی سرورِ خاص و عام
حمد کی زیبائش لائق ہے ایسے خالق کو جس نے مجرد و مادی پیدا کیے۔ ادراک و حواس جو ان میں قابل تھے، ان کو دیے۔ انسان کو ان میں شریف تر بنایا، حسن و عشق اس کو عطا فرمایا۔ کون پا سکے اس کی صنعت کے راز، ان کو آپ ہی جانتا ہے وہ بے نیاز۔ رحمت کاملہ کی آرائش سزاوار اس نبی کے ہے، قرآن سا معجزہ جس کے لیے بھیجا اور قصہ ہر ایک پیغمبرکا اس میں بیان کیا۔ بشر کی تاب کیا جو اس کے مقطعات کے اشاروں کو سمجھے یا مرکبات کے معانی کی تہوں کو پاوے۔ تحفہ سلام کا قابل اس کے آل و اصحاب کے ہے جن کا رتبہ عرش سے اعلیٰ ہے اور علم فرشتوں سے بھی بڑا ؎
سراہا ہے حق نے انھیں بارہا
کروں مدح ان کی مرا منہ ہے کیا
بعد اس کے قصۂ بے نظیر و بدرِ منیر کہ نظم میں تصنیف کیا ہوا شاعرِ بے ہمتا، ادا بندِ یکتا، زونقِ بزمِ سخن میر حسن مرحوم متخلص بہ حسن، سعید ازلی، خلف الرشید میر غلام حسین ضاحک دہلوی کا تھا (فی الواقع ہر ایک مصرع اس کا فصاحت و بلاغت میں بے نظیر ہے اور ہر ایک شعر حسن و خوبی میں مثل بدرِ منیر۔ جو سخن دان منصف مزاج و عاشق پیشہ ہیں، اس کی قدر جانتے ہیں اور جن کو اس طرح کی شاعری پرقدرت ہے، ووہی اس کی طرز بہ خوبی پہچانتے ہیں۔ مقابل اس کے نظم کس سے ہو سکے، بلکہ کوئی اس کی رمزوں کو پا تو سکے؟ قاصر ہے زبان اس کی توصیف میں، ہر کہ و مہ مشغول ہے اسی کی تعریف میں)۔ اب اس کو عہد میں شاہ عالم بادشاہ کے اور ریاست میں امیر سراپا تدبیر، فلاطون منش، ارسطو دانش، غربا پرور، آرائش سپاہ و لشکر، زبدۂ نوئینان عظیم الشان، مشیر خاص شاہ کیواں بارگاہِ انگلستان مارکویس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام اقبالہ کے سنہ 1217 بارہ سے سترہ ہجری میں مطابق سنہ 1802 اٹھارہ سے دو عیسوی کے، حکم سے صاحبِ خداوند نعمت روشن ضمیر، عالی حوصلہ والا تدبیر جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام حشمتہ کے، عاصی میر بہادر علی حسینی نے شروع قصے سے موافق محاورۂ خاص کے نثر میں لکھا۔ پہلے اس سے یہ خاکسار اس کہانی کو خاص و عام کی بول چال کے مطابق بہ طرز سہل واسطے صاحبان نو آموز کے تحریر کر چکا تھا، اب جی میں یوں آئی کہ اس داستان شیریں کو (کہ فی الحقیقت قصۂ شیریں سے شیریں تر ہے) اس رویے سے نثر کروں کہ ہر ایک زبان داں و شاعر اس کو سن کر عش عش کرے اور اس ہیچ مدان کی ایک یادگاری دنیا میں رہے۔