یہ جوگن تو وہاں بروگن ہوئی بیٹھی تھی کہ اتنے میں رات بھی جوگن کی طرح بھبھوت منہ پر چاندنی کامَل ماہ کا اِنڈوا سر پر رکھ آتش کہکشاں سے نور کی رال اڑاتی ہوئی ستاروں کی مالا پہنے پرستان میں آئی اور دن نے شکل اپنی رشک سے پردۂ خجالت میں چھپائی۔ پرستان کے بادشاہ نے پری زادوں کو جمع کرکے مجلس آراستہ کی اور جوگن کو آؤ بھگت سے بلوایا۔ وہ رشکِ زہرہ بین کو کاندھے پر دھرے ایک ناز و امتیاز کے ساتھ آئی، تب اس کو عزت و حرمت سے بٹھایا اور کہا کہ ہم مشتاق ہیں، اگر مزاج چاہے تو بین بجائیے اور کچھ گائیے۔ بے پروائی سے اس نے کہا کہ گانا بجانا کچھ کام نہیں اپنا، لیکن ہر طرح سے ہر کا نام ہمیں جپنا۔ فقیر فرمائشوں سے بیزار ہے پر اب تمھارا گرفتار ہے، اس سے ناچار ہے۔ بادشاہ نے کہا: جوگی صاحب! کیا فرماتے ہو؟ ہم کو فقط تمھارا کرم چاہیے۔ اگر مرضی ہو تو تکلیف دیویں، نہیں جس میں تم راضی ہو سو کریں۔ تب وہ بولی کہ جو ایسی سیوا کرو گے تو میوہ پاؤ گے۔ پھر بین کو کاندھے پر رکھ یہاں تک بجایا کہ در و دیوار مست ہو گئے۔ جو بیٹھے تھے وہ بے حس ہو گئے، جو کھڑے تھے وہ غش ہو کر گر پڑے۔ غرض کوئی ایسا نہ تھا کہ جو رویا نہ تھا اور کسی کا جیب و دامن نہ تھا کہ آنسوؤں سے بھیگا نہ تھا۔ بین پر اس کی انگلیاں یوں چلتی تھیں کہ ہاتھ سے اس کے جی تنوں سے نکلے جاتے تھے۔ رواں دواں ہر ایک جان کو کر دیا اور مردہ ہر ایک جن و انسان کو۔ خصوصاً وہ جو اس کا بے دل تھا، وہ سب سے زیادہ مائل تھا۔ بے تابانہ ادھر اُدھر جا کر چھپ کے اسے پیار کی نظر سے تکتا، کبھی سامھنے آ کھڑا رہتا۔ کبھی ستون کی اوٹ میں ہو کر اپنے دیدۂ تر سے اسے دیکھتا، کبھی آنکھ بچا لوگوں کی دور سے اس کے مکھڑے کی بلائیں لیتا۔ وہ بھی اگرچہ کچھ کہتی سنتی نہ تھی، پر کن انکھیوں سے پھر پھر اس کی حرکتیں تھی دیکھتی۔ جب نظر شہزادے کی اس پر پڑتی تب وہ اور طرف دیکھنے لگتی۔ اس کی عیاری کی اداؤں پر وہ دم بدم آہیں کرتا تھا اور خونِ جگر آنکھوں میں بھرتا۔ اگر کوئی جوگن کی تعریف کسی طرح کی کرتا تو رشک سے بے دھڑک یہ کہہ بیٹھتا کہ تم کو کیا۔ غرض یہ چاہتا تھا کہ صحبت اسی طرح جمی رہے اور اپنی آنکھوں کی ٹکٹکی اس کے مکھڑے پر لگی رہے۔
آخرش نکتہ چین بھی اس کی بین سن کر غش کر گئے اور اپنے ہوش سے گذر گئے۔ تب تو فیروز شاہ کے باپ نے بہت تحسین و آفرین کرکے کہا: جوگی جی! آپ نے ہم پر بڑی دیا کی۔ اسی طرح ہر رات کرم کیجیے اور ہماری مجلس کو آرائش دیجیے ؎
مقدم ہمارا رِجھانا کرو
یہ گھربار ہے آپ ہی کا تمام
ہمیں اپنا مشتاق جانا کرو
ہوئے آج سے ہم تمھارے غلام
جو کچھ درکار ہو آپ کو وہ لیجیے اور تکلف موقوف کیجیے۔ تب کہا اس نے: گھر تمھارا تمھیں مبارک رہے، فقیر کو کچھ مطلب نہیں کہ تم سے کہے۔ تم کہاں، میں کہاں۔ یہ سب آب و دانے کی بات ہے۔ نہیں تو فقیروں کا اور بادشاہوں کا کب ساتھ ہے۔ یہ کہہ کر وہ جوگن اپنے رہنے کے مکان میں گئی۔ بود و باش اپنا وہیں اختیار کی اور اپنے دل سے کہا کہ ان حادثوں سے مت گھبرائیو اور اس واردات سے نہ اکتائیو، تا دیکھوں کہ خالقِ جہاں اس آشکارا میں کیا چھپائے ہے اور آخر کار کیا دکھائے ہے۔
غرض اس کا یہ معمول ٹھہرا کہ شام سے پہر رات تک پریوں کے بادشاہ کی صحبت میں ہنستی بولتی اور بین بجا کر سب کو رِجھاتی، پہر بجے کے بعد اپنے مکان میں آتی۔ لیکن فیروز شاہ کی دن بہ دن حالت تباہ تھی۔ اسی کے تصور میں وہ شام و سحر رہتا، دین و دنیا کی اصلاً خبر نہ رکھتا۔ اسی شمع کے گرد اسے پھرنا اور پروانے کی مانند ہر گھڑی آتش شوق میں گرنا۔ ہر ایک بہانے سے دن رات اسی کے پاس کاٹنی اوقات۔ اکثر بین کی صدا سن کر آنکھوں سے روتا خون جگر۔
وہ جوگن بھی سو سو طرح کی ادائیں اس کو دکھا ہر ایک آن میں زیادہ کرتی تھی مبتلا، اور جو کسی ڈھب کا دیکھتی حسن طلب تو ہو جاتی ووں ہیں اس پر غضب۔ جو وہ کسی پردے میں کچھ سوال کرتا تو کہتی: کیوں دیوانہ ہوا، ٹک ایک سنبھل زیادہ لگ نہ چل۔ غرض کبھی خوش کرتی اس کو اور کبھی اداس، کبھی دور بیٹھتی اور کبھی اس کے پاس۔ کبھی تیکھی نظروں سے اس کے دل کو گھائل کرتی، کبھی میٹھی نگاہوں سے اس کے جی کو مائل۔ کبھی ٹیڑھی باتیں کرکے اسے مارتی، کبھی سیدھی طرح سے پکارتی۔ کبھی ہنس کر جو دیکھتی تو ہنسا دیتی، کبھی غم کی صورت بنا کر رلا دیتی ؎
کبھی منہ دکھایا، چھپایا کبھی
کبھی مار ڈالا، جِلایا کبھی
کبھی اس کے دل کو لٹوں میں الجھا کر لٹکا لیا، کبھی ناز سے جھنجھلا کر جھٹکا دیا۔ جو اسے دیکھتے دیکھ تو اس سے منہ کو موڑ لیا۔ کبھی دل کو اس کے تسلی دی اور کبھی جی کو توڑ دیا۔ ہر چند روکھی ہو ہو کر آنکھیں دکھاتی تھی، پر نظروں میں اس کو لبھاتی تھی۔ یہ بچارا پری زاد سادہ دل اور نادان، ادائیں وہ کافر اس کی بلاے بے درماں ؎
نہ منہ پر وہ عالم رہا اور نہ نور
کئی دن میں دل ہو گیا چور چور
جب اسی طرح ایک مدت گذر گئی، تبِ عشق کی تپ کی نہایت شدت ہوئی۔ آنکھوں سے جگر خون ہو کر بہنے لگا، دل آتشِ درونی سے پگھل چلا۔ آخر کار چار و ناچار ؎
یہ دی پردۂ دل سے جی نے صدا
کہ ہے صبر کی اپنے اب انتہا
احوال اپنا دل کے پردے میں کہا کہ اب صبر کی انتہا ہو چکی ؎
جو کہنا ہے اس سے، تو کہہ حال دل
کہ اب تنگ ہے اپنا احوال دل
سنبھلنا ہے تو اب بھی سنبھل جا، نہیں تو میں اس دم بدم کی کوفت سے نکل جاؤں گا ؎
ملا کر تو اب دستِ افسوس کو
پڑا رہ لیے ننگ و ناموس کو
یہ جی کا پیغام سن کر مجبوری سے کہنے لگا: جو کچھ ہونی ہو سو ہو، کہا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ کہنے میں آن نہیں رہتی، پر خموشی میں جان نہیں رہتی۔ اس بات کو جی میں ٹھان کر ایک روز گھات جو پائی اور اکیلے اسے جو دیکھا تو بے تابی سے بے اختیار اس کے پاؤں پر گر پڑا۔ تب مسکرا کر وہ بولی: یہ خلافِ قیاس کیا حرکت ہے اور بے حواسی کی کس لیے ایسی شدت۔ کیا کسی نے تجھے ستایا ہے، یا تیرا جی کسی پر لبھایا ہے۔ یا ہمارے بیٹھنے سے اکتایا کہ مہمانیوں سے تنگ آیا؟
فقیروں سے اتنا نہ ہو بس خفا
چلے ہم، بھلا جا ترا ہو بھلا
ایسا کون سا رنج تو ہم سے پاتا ہے کہ اب پاؤں پڑ پڑ کر یہاں سے اٹھاتا ہے۔ تب فیروز شاہ نے کہا: واہ واہ! یہ تو زور بات کہی تم نے، تمھاری اس الٹی سمجھ نے مارا مجھ کو۔ کچھ نہیں سوجھتا اب چارا مجھ کو۔ ستائے ہوئے کو ستاتے ہو، جلے ہوئے کو کیوں جلاتے ہو۔ میں تم پر جان اور مال سے فدا رہا، ہزار حیف کہ تم نے مجھے اب تلک نہ پہچانا۔ تم آپ سا مجھ کو بھی جانتے رہے۔ تمھاری اس دانست کو کوئی کیا کہے۔ تم سخت بے درد و بے وفا ہو اور سنگ دلی و بے رحمی میں یکتا۔ تب وہ بولی کہ بس اب اپنا احوال کہہ کہ میرے پاؤں پر کیوں گرا ہے؟ تب پری زاد نے کہا: جان بوجھ کر کیوں انجان ہوتی ہے۔ مجھ پر ترحم کی نظر کر اور غلامی میں اپنی قبول کر۔ تب وہ ہنس کر کہنے لگی: بشرطے کہ تو میری کہانی غور سے سنے اور میرا مطلب بر لاوے۔ فیروز شاہ نے کہا کہ جلد فرمائیے تا مقدور کوتاہی نہ کروں گا۔ تب وہ بیان کرنے لگی کہ شہرِ سراندیپ کا ایک بادشاہ ہے کہ اس کا نام مسعود شاہ ہے اور ایک اس کی بیٹی ہے مانند بدر کی اور نام بھی اس کا بدرِ منیر ہے۔ ایک باغ اس نے رشکِ باغِ بہشت بنایا تھا اور اسی میں رات دن رہنا پکڑا تھا۔ میں نجم النسا اس کے وزیر کی بیٹی ہوں۔ میرے اس کے کسی بات کا پردا نہ تھا اور جو اس کا بھید تھا سو مجھ پر کھلا تھا۔ ایک دم میں اس سے جدا نہ ہوتی تھی، بغیر اس کے سلائے نہ سوتی تھی۔ خوشی سے ہمیشہ سروکار تھا، ایک چرچا نیا لیل و نہار تھا۔ مصیبت خواب میں نہ دیکھی تھی، دکھ درد کی کہانی بھی نہ سنی تھی۔ لالہ کی مانند کبھی داغ نہ دیکھتا تھا، گل کی طرح ہمیشہ خوشی ہی میں دن کٹتا تھا۔ ہر آن خوشی کی ترقی تھی، کسی چیز کی کمی نہ تھی۔
القصہ ایک دن کا عجیب و غریب ماجرا ہے کہ ایک شخص مثلِ ماہ یکا یک قریب شام کے اس باغ میں وارد ہوا۔ اس کے حسن کا کہاں تک بیاں کروں۔ آدمی نہ تھا بلکہ وہ ملَک تھا۔ شہزادی کا دل اس کو دیکھتے ہی مائل ہوا اور وہ بھی اس کے تیرِ عشق سے گھائل۔ قصہ مختصر دونوں آپس میں ملے، پہر رات تک صحبت رہی۔ بعد اس کے وہ گھبرا کر اٹھ کھڑاہوا کہ میں اب بیٹھ نہیں سکتا۔ ایک پری کی قید میں ہوں۔ مبادا وہ مکان پر آوے اور مجھے نہ پاوے، پھر خدا جانے کیا ستم برپا کرے۔ اگر جیتا رہا تو کل پھر اسی وقت آؤں گا۔ چنانچہ اس کے دوسرے دن پھر اسی وقت آیا بلکہ ہر روز یہی معمول ٹھہر گیا۔ شاید اس پری کو وہاں کے آنے کی خبر ہوئی، معلوم نہیں کہ اس کو کوہِ قاف میں پھینک دیا یا کسی کڈھب جاگہ قید کیا۔ اس کے احوال کی جب ایک مدت کچھ خبر نہ ملی،، تب میں جوگن ہو کر اس کو ڈھونڈھنے نکلی اور یہاں تک آن پہنچی۔ تم پری زاد سارے آپس میں ایک ہو۔ اگر اس کا کھوج کرو تو اغلب ہے کہ تمھاری مدد سے مل جاوے، پھر اس کے ملنے کے بعد تمھاری آرزو بھی بر آوے۔ اپنے دلِ بے قرار کو آرام ہو، تب اپنے ہاتھ سے تمھارا بھی کام ہو ؎
کہا تب پری زاد نے: ہاتھ لا
کہا: پھر نہیں کچھ نہیں مہ جبیں!
انگوٹھا دکھا، بولی: اترا نہ جا
لگی ہنس کے کہنے: نہیں رے نہیں
فیروز شاہ نے یہ سن کر اپنی قوم کو بلایا اور تقید کیا: ہر طرف جاؤ اور ڈھونڈھو۔ سعی و تلاش میں کمی نہ کرو کہ ایک آدمی پرستان میں کسی طرف قید میں پھنسا ہے۔ اگر کوئی اس کی مجھ تک خبر لاوے گا تو جواہر کے پر پاوے گا۔ یہ سن کر ہر چہار طرف وے دوڑے اور دن رات اس کی تلاش میں پھرنے لگے کہ ناگہاں ایک دیو کا اس کوئیں پر گذر ہوا جہاں وہ خستہ جگر قید تھا۔ از بس کہ وہ اپنی تنہائی سے اور یار کی جدائی سے آہیں بھر بھر روتا تھا، دیو کے بھی کان میں ایک صداے درد ناک پہنچی۔ تب ان نے کہا کہ کچھ یہیں اس کا سراغ ملتا ہے۔ بس یہیں ٹھہریے اور کسی طرح دریافت کیجیے۔ غرض وے چوکی کے دیو جو جا بہ جا بیٹھے تھے، ان سے پوچھنے لگا کہ یہ آوازِ حزیں کسی انسان کی اس کوئیں سے کیوں آتی ہے؟ کہا انھوں نے کہ ماہ رخ پری نے ایک جوان کو اس میں قید کیا ہے۔ وہ رو رو تڑپھ رہا ہے۔ جب اس بات کو تحقیق کر چکا اور اس بھید کو پایا، فیروز شاہ کے حضور جا کر آداب بجا لایا اور جو کچھ سنا تھا اس سے عرض کیا۔ بعد اس کے کہنے لگا کہ جو کچھ زبان مبارک سے ارشاد کیا تھا، وہ غلام کو دلوائیے اور جس چیز کا امیدوار کیا تھا اسے عنایت فرمائیے۔ شہزادے نے موافق معمول کے جواہر کے دو پر اس کے بازوؤں میں لگا دیے۔ پھر ماہ رخ پری کو عتاب سے یہ پیغام بھیجا کہ “تو کیوں زندگی سے ایسی تنگ آئی ہے اور جانِ شیریں سے اکتائی جو اپنی شرم و حیا کھوئی اور ایک آدم زاد پر عاشق ہوئی۔ سچ بتا کہ اسے کس قید خانے میں بٹھایا ہے اور کس کوئیں میں چھپایا ہے؟ اگر تیری بات کھول دوں تو تیرا حال کیا ہو اور نازل تجھ پر کیسی بلا ہو! اگر جان عزیز ہے تجھ کو تو اس بات سے باز آ، نہیں تو اپنے کیے کی سزا پائے گی۔ تیرے پرستان کو پھونک دوں گا اور گھر بار لوٹ لوں گا ؎
ترا رنگ غیرت سے اڑتا نہیں!
تجھے کیا پری زاد جڑتا نہیں!
تو ہمارا خوف و خطر بھول گئی جو بے دھڑک انسان پر نظر کرنے لگی۔ بھلا چاہتی ہے تو جلد کوئیں سے اسے نکال اور اس بات کو لیت و لعل میں مت ڈال اور آیندہ قسم کھا کہ پھر اس کا نام کبھی نہ لوں گی اور بارِ دیگر تلاش نہ کروں گی۔ الّا پھر تیری جان نہیں۔”
جب اس کو یہ فرمان بادشاہ زادے کا پہنچا، خوف سے تھرتھر کانپی اور یوں کہنے لگی کہ مجھ سے تقصیر ہوئی، معاف کیجیے۔ جو کوئی چاہے اس کو لے جائے، میں اس کی لاگو نہیں۔ اگر پھر ایسی حرکت کروں تو مجھے جلا دیجیے گا۔ لیکن اتنا احسان مجھ پر کرو کہ پرستان میں کہیں اس کا چرچا نہ ہو۔ اگر میرے باپ کو اس امر کی خبر ہوئی تو پھر میں نہ ادھر کی ہوں گی، نہ اُدھر کی۔ جب فیروز شاہ کو یہ جواب پہنچا، فی الفور جس طرف وہ کواں تھا، اس طرف کو روانہ ہوا۔ عرصۂ قریب میں وہاں جا پہنچا اور رفیقوں کو حکم کیا کہ یہ پتھر کسی طرح اس پر سے سرکے تو ایک پہاڑ چھاتی سے ٹلے۔ وے البُرز سے جو کتنے دیو کھڑے تھے، فی الفور انھوں نے اس سنگ گراں کو مثل کاہ اکھاڑ کر پھینک دیا ؎
وہ بادل سا سرکا جو اُس چاہ سے
تو ایک نور چمکا شبِ ماہ سے
اس کوئیں کے اندھیرے میں نظر آیا اس کا تن یوں، جیسے کالے کے منہ میں من نظر آتا ہے۔ اس من مارے جی ہارے کو جو فیروز شاہ نے دیکھا ووں ہیں دیووں کو کہا: ہاں نکالو اسے، پر اس طرح سے کہ اتنا بھی صدمہ اس کے بدن کو نہ پہنچے جیسے جھوکے سے نسیم کے گل کو۔ تم کو اس کی احتیاط پُر ضرور ہے۔ اس کو ایسا سمجھو جیسے اپنی پتلی کا نور ؎
قدح بھر کے دے ساقیِ با تمیز
کوئیں سے نکلتا ہے یوسف عزیز
گلابی چمکتی دلا دے مجھے
سماں ایک تازہ سنا دے مجھے
گئے دن خزاں کے پھر آئی بہار
مے لالہ گوں سے دکھا لالہ زار