مسبب الاسباب کے سببوں کو دیکھو کہ جو بات عقل میں نہ آوے اور بشر کو خواب میں بھی اس کا دیکھنا محال ہو، اس کا وہ سبب مہیا کر کے دفعتاً ظہور میں لاتا ہے۔ گردشِ لیل و نہار بدون اس کے حکم کے نہیں۔ کبھی جہاں میں عشرت ہے کبھی الم، کہیں صبحِ عیش ہے اور کہیں شامِ غم۔ دو رنگی سے یہ زمانہ معمور ہے، کبھی اس میں سایہ ہے کبھی نور ہے۔
قضا را اس جوگن کو ایک سہانا سا جنگل نظر آیا۔ شام قریب تھی، اس نے وہیں بستر جمایا۔ اتفاقاً اسی تاریخ پورن ماسی تھی، چاند جلوہ گر ہوا اور چادرِ نور تمام جنگل کی زمین پر بچھ گئی اور تاریکی ایک لخت اُس دشت سے معدوم ہوئی۔ یہ عالم دیکھ کر وہ زہرہ جبیں مِرگ چھالے پر دو زانو بیٹھ کر بین بجانے لگی ؎
کدارا یہ بجنے لگا اس کے ہاتھ
کہ مہ نے کیا دائرہ لے کے ساتھ
سماں اس دم اس طرح بندھ گیا کہ وہاں کا ہر ایک ساکن جوش میں آکر رقص کرنے لگا بلکہ صدا سے اس کی وہ آپ بھی بے حال ہوئی کہ دیوانوں کی طرح بے تابی سے ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔ وہ عالم مہتاب وہ جنگل سنسان، وحشت بڑھاتا تھا دیوانوں کی ہر آن۔ وحشیوں کی حیرانی اور طائروں کی خوش الحانی دیکھ دیکھ اور سن سن کر سنگ دلوں کے بھی دل ہوتے تھے پانی پانی۔ پٹ پر میدان میں ایسی چمکتی تھی ریت، گویا نور سے اگا تھا چاند تاروں کا کھیت۔ درختوں کے پتے زمرد سے چمک رہے تھے بلکہ خس و خار سارے کثرتِ نور سے مقیش کی مانند جھلک رہے تھے۔ درختوں میں چاندنی کا تھا ظہور، یا چھلنی سے چھن چھن کے گرتا تھا نور ؎
و یا یہ کہ جوگن کا منہ دیکھ کر
گیا ہاتھ سے بین سن کر جو دل
ہوا نور و سایے کا ٹکڑے جگر
گرے سایہ و نور آپس میں مل
غرض ہوا اس گھڑی ایسی بندھی کہ درختوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے بلکہ جانور بھی اپنا بسیرا بھول گئے ؎
درختوں سے لگ لگ کے بادِ صبا
کدارے کا عالم یہ تھا اُس گھڑی
لگی کرنے آ وجد میں واہ واہ
کہ تھی ہر طرف چاندنی غش پڑی
اس مزے میں ایک طرفہ لطف ہوا کہ فیروز شاہ جنوں کے بادشاہ کا بیٹا حسن میں بے عدیل، نہایت شکیل بیس برس کا اس کا سن و سال، چودھویں رات کے چاند سے بھی خوش جمال کسی طرف اپنا تخت ہوا پر اڑائے جاتا تھا۔ آواز اس کی بین کی اور راگ کی سن کر تخت کو اپنے اس جنگل میں رکھوا دیا۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ ایک جوگی رشکِ حور اپنے بسترے پر بیٹھی ہے۔ نور اس کا چاند کی جوت سے لڑ رہا ہے۔ دیکھتے ہی اس کو غش کر گیا اور اس کے جوگیا بھیس کو بناوٹ سمجھ کر کہنے لگا: جوگی جی! ہماری آدیس ہے، تم پر ایسا کیا بجوگ پڑا جو تم نے یہ جوگ لیا ؎
کدھر سے تم آئے کہاں جاؤگے؟
وہ سمجھی کہ اِس کا دل آیا اِدھر
دَیا اپنی ہم پر بھی فرماؤ گے؟
کہ رکھتا ہے دل بھی تو دل سے خبر
سچ ہے عشق خس و خار ہے اور حسن آگ۔ ہمیشہ سے عشق اور حسن میں ہے لاگ۔ اور راگ مانندِ ہوا، اِس آگ کو اُس خس و خار میں دیتا ہے لگا۔ قصہ مختصر، پری زاد کی باتیں سن کر ؎
کہا ہنس کے جوگن نے: ہر بول ہر
جہاں سے تو آیا، چلا جا اُدھر
تب وہ بولا: واہ جی واہ، آپ بھی قیامت گرم ہیں۔ اللہ اللہ! اتنے روکھے کیوں ہوتے ہو، میں کب بیٹھتا ہوں۔ ذرا بین سن لوں تو چلا جاؤں۔ کہا اس نے: یہ اپنے ہوتے سوتوں سے کہو، چپکے بیٹھے رہو، فقیروں کو نہ چھیڑو۔ یہ دو دو لطیفے جب باہم ہو چکے تب فیروز شاہ سامھنے اس کے ریت میں بیٹھ گیا اور چاہ کے کھیت میں کھیت رہا۔ کبھی اس کے حسن پر تھی اس کی نظر اور کبھی دھیان تھا بین پر۔ کچھ ہوش نہ تھا اپنے تن بدن کا، مانندِ نقش پا چشم و گوش ہو گیا تھا سر تا پا ؎
وہ جوگن جو تھی درد و غم کی اسیر
نہ سدھ گھر کی لی اور نے راہ کی
یہ ہو بیٹھے الفت میں اس کی فقیر
جب آئی ذرا سدھ تو پھر آہ کی
غرض وہ صبح تک بین بجاتی رہی اور یہ روتا رہا۔ جوں جوں اس کے ہاتھ تاروں پر پڑتے تھے، توں تو اس کی پلکوں سے لختِ جگر جھڑتے تھے۔ آخرش رات گذری اور صبح ہوئی۔ جب اس زہرہ جبیں نے ماندگی سے بین لے کر رکھ دی تب پری زاد نے بے اختیار اس کا ہاتھ پکڑا اور تخت پر بٹھا ؎
زمیں سے اڑا آسماں کے تئیں
وہ کتنا کہا کی: نہیں رے، نہیں!
مطلق اس کو نہ مانا۔ پل مارتے پرستان میں لا بٹھایا اور اپنے باپ کو یہ مژدہ سنایا کہ یے جوگی بڑے صاحبِ کمال ہیں۔ ان کی بین اور راگ سنیے گا تو نہایت حظ اٹھائیے گا۔ وہ بولا کہ راگ اپنے دل کا محبوب ہے اور طبیعت کا مرغوب۔ آئیے جوگی صاحب بیٹھیے اور اپنے قدموں سے ہمارا گھر روشن کیجیے۔ ہم دونوں باپ بیٹوں کے بخت کھلے کہ آپ کے قدم یہاں آئے۔ غرض نہایت اس کی تعظیم و تکریم کی اور ایک جاگہ نہایت پاکیزہ و لطیف رہنے کو دی ؎
پلا مجھ کو ساقی محبت کا جام
کہ مہمانیوں میں ہوا دن تمام