اِس حالت میں جو اُس کی ٹک ایک آنکھ لگ گئی تو یہ خوابِ آشفتہ دیکھا کہ دشمن بھی نہ دیکھے۔ ایک جنگل لق و دق ہے کہ جس کی ہیبت سے رستم کا بھی زہرہ آب ہو جاوے اور اسفندیار روئیں تن بھی اُس کی وحشت کو دیکھ بے تاب ہو جاوے۔ ایک سنسان کفِ دست میدان ہے، نہ وہاں حیوان ہے نہ انسان۔ اور بیچ میں اس کے ہے ایک کواں کہ آہوں کا اُس سے اٹھ رہا ہے دھواں۔ اُس کے گرد نہ دیو ہے نہ پری ہے۔ فقط کئی لاکھ من کی ایک سل اُس کے منہ پر دھری ہے اور اُس سے دم بدم یہی آواز آتی ہے: اے بدرِ منیر! تیرے غم کی چاہ میں میری جان جاتی ہے، ہرچند کہ یہاں ہوں نالہ و فریاد میں لیکن اے جان! دل سے ہوں تیری یاد میں۔ پر کیا کروں قیدِ شدید ہے۔ کسی طرح رہائی نہیں پاتا، واِلّا گرتے پڑتے اِس حال زار سے بھی تجھ تلک اپنے تئیں پہنچاتا ؎
پر اِس قید میں بھی ترا دھیان ہے
فقط تیرے ملنے کا ارمان ہے
مجھے اپنی صورت ٹک دور ہی سے دکھا اور اس قیدِ غم سے چھڑا۔ مجھے اپنے مرنے کی مطلق پروا نہیں، پر یہ افسوس ہے کہ تو میری حالت سے آگاہ نہیں۔ اے کاش! اس وقت میں تجھے دیکھ لوں، قیامت تلک جیوں جو تیرے آگے مروں۔ و لیکن میرا یہ گمان و خیال ہے کیوں کہ وصل تیرا بن وصال محال ہے ؎
کوئی دم کا مہمان ہوں آج کل
اسی چاہ میں جائے گا دم نکل
یہ سن کر بے نظیر کی واردات جوں ہیں چاہا بدرِ منیر نے کہ ایک بات کرے، یکایک اس کی آنکھ کھل گئی۔ قضا نے اُس کی سرگذشت بے نظیر کو نہ سننے دی۔ پھر اُس کو اپنے دیدۂ تر نظر آئے اور وہی گھر، خدا جانے کہ وہ کواں کیا ہوا اور وہ آواز گئی کدھر ؎
صدا اپنے یوسف کی سن خواب سے
کہا گو کسی سے نہ اس نے یہ بھید
اٹھی باولی جانِ بے تاب سے
ولے جوں مہِ صبح چہرا سفید
نِدان اِس راحتِ جاں کا جسم سراپا درد ہو گیا اور وہ گل سا مکھڑا زرد۔ دم بدم دردِ آہ سے گھٹنے لگی، مہتاب سے منہ پر ہوائیاں سی چھٹنے لگیں۔ مژہ نکیلی جو اُس نازنین کی تھی، سو اشکِ خونیں سے ہو گئی پھلجھڑی سی ؎
ڈھلے منہ پہ آنسو، ہوا بسکہ رنج
چھٹے چاندنی میں ستاروں کے گنج
بھچنپا سا جو اس کا قد تھا اس سے ہزاروں آتشِ غم کے شعلے لگے نکلنے اور اس کی نرگسی آنکھوں سے اشکِ آتشیں ڈھلنے ؎
چھپایا بہت اس نے، پر ہم نشیں!
کسی سے کسی کو جو ہوتی ہے لاگ
چھپائے سے آتش چھپے ہے کہیں
بغیر از کہے اور لگتی ہے آگ
آخر کئی راز دار خواصوں سے اُس خواب کو کہا، پھر آپ خوب روئی اور انھیں بھی رولایا۔ نجم النسا جو اس حالت سے آگاہ ہوئی تو نہایت بے قرار ہو کر کہنے لگی: تو اپنی آنکھوں سے یہ گرم گرم آنسو نہ بہا اور اپنے جی کو اتنا نہ کھپا۔ میں تیرے واسطے اپنی جان کھپاتی ہوں اور سر بہ صحرا جاتی ہوں۔ ہر طرح اُسے ڈھونڈھ لاتی ہوں اور تجھ سے ملاتی ہوں ؎
جو باقی رہا کچھ مرے دم میں دم
تو پھر آکے یہ دیکھتی ہوں قدم
اور جو مر گئی تو تیری بلا سے، یہ جانیو کہ مجھ پر صدقے ہوئی۔ تب شہزادی نے کہا: اے میری رفیق شفیق! میں تو اس چاہِ غم میں ڈوب چکی ہوں۔ تو اپنی بھلی چنگی جان مت کھو، اس واسطے کہ وہ پری ہے تو انسان۔ رسائی تیری وہاں ہوگی کہاں۔ عبث مجھے بھی چھوڑتی ہے اور رشتہ ملاپ کا توڑتی ہے۔ ہر چند کہ میں لہو اپنا آپ ہی پیتی ہوں، پر تیرے ہی آسرے سے جیتی ہوں۔ میری انیس تو ہی ہے فقط، تجھی سے ہوتا ہے میرا غم غلط ؎
وگرنہ میں رک رک کے مر جاؤں گی
اسی طرح جی سے گذر جاؤں گی
کہا اس نے: کیا کیجیے، اب تو اپنے سر پر مصیبت پڑی، جس تس طرح کاٹا چاہیے یہ دکھ کی گھڑی ؎
میں اس عشق کا یہ نہ سمجھی تھی ڈَول
ترے غم سے آنے لگا مجھ کو ہَول
اب تیری حالت دیکھی نہیں جاتی، مجھ کو اس طرح کی زندگی نہیں بھاتی۔ یہ کہہ کر اپنا گہنا پاتا اتار ڈالا اور بناؤ سنگار خاک میں ملا دیا۔ پھر اپنے کچھ ہوش و حواس درست کر تنِ نازنیں پر جوگنوں کا لباس سجا، کئی سیر موتیوں کو جلا، ان کی راکھ کا بھبھوت منہ کو ملا اور ایک بادلے کے دوپٹے کی گاتی باندھی۔ انگیا سو سو جتن سے چھپا لی۔ پھر زمرد کے مُندرے کانوں میں ڈال لیے، برگِ گل گلستانِ حسن کو سبزۂ تازہ سے جلوے دیے۔ زری کا ایک خوش نما حلقہ بنا سر پر رکھا، سنبلستان کو جگمگا کر دیا۔ بالوں کی لٹوں کو بل دے کر بر و دوش پر لٹکا کر موڑ دیا اور حسن کے شبدیز کی باگوں کو ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ آہوں کے دھویں سے آنکھوں کو لال کیا اور خون دل کا ان میں بھر لیا۔ زمرد کی سمرنیں ہاتھوں میں پہنیں اور ایک بین کاندھے پر رکھ لی۔ پھر ایک سیلی گلے میں پہنی اور گیروا کھیس اوڑھ لیا۔ منکے بھی درست کر کے اپنے اپنے موقع پر سج لیے۔ پورا جوگی کا بھیس کیا اور جنگل کا رستا پکڑا ؎
چلی بن کے جوگن وہ باہر کتئیں
دکھاتی ہوئی حال ہرہر کتئیں
چھپے ہوئے سوزِ دل کو نالۂ آتشیں سے ظاہر کرنے لگی اور دردِ نہانی کی شدت سے دم بدم آہ بھرنے۔ غرض اُس آئینہ رو کے منہ کی صفائی راکھ کے ملنے سے زیادہ چمکنے لگی۔ سچ ہے کہ خاک ڈالنے سے چاند نہیں چھپتا، حسن کہیں بھی ہوتا ہے پوشیدا۔ اس نے تو اپنی خوب صورتی کے چھپانے کے لیے سو سو رنگ کیے، پر حسن نے ہر ایک حال میں اُسے جلوے دیے۔ تن کی صفائی اور موتیوں کی سیلی کی دمک ایسی تھی جیسی چاندنی میں کہکشاں کی چمک۔ سر پر اس کے حلقہ زری کا نہ تھا بلکہ بنیٹی کر رہا تھا شب جوانی میں حسن اس کا۔ یا سنبلستان میں آفتاب تھا جلوہ کناں، یا روزِ نو روز شب قدر پر ہوتا تھا قرباں۔ اگر یہی برق و ماہ و ابرِ سیہ ہے تو بھیگے رہیں گے جیب و دامنِ عشاق آنسوؤں سے ؎
وہ مندرے، وہ تن اس کا خاکستری
ہوئی حسن کی اور کھیتی ہری
سبزہ و گل دیکھ کر ان کو گئے ہوش سے بلکہ ہو گئے بندے حلقہ بگوش سے۔ سچ ہے کہ جب ایسے محبوب کے کان لگے تو زمرد کی کیوں نہ شان بڑھے اور جو ایسی صفائی ان کی دیکھے تو کہاں تک نہ اُس کو لو لگے۔ گلے میں موتیوں کے مالے اور مونگوں کے ہار، دکھاتے تھے گل و نسترن کی بہار۔ رنگ اس کی نرگسِ گل رنگ کا لالۂ احمر کا رنگ اڑاتا تھا اور لال قشقہ پیشانی کا جوں لعل صفحۂ نور پر جلوے دکھاتا تھا ؎
ادا اس کی دیکھے جو عاشق کبھو
تو رویا کرے چشم سے وہ لہو
کاندھے پر اس کے خوب صورت ایک بین تھی یا راگ کی بہنگی۔ تونبے اس کے مے گل رنگ کے تُنگ تھے یا دو سبو لبریز آبِ آہنگ سے۔ ہر ایک تار اُس کا سیلاب تھا راگ کے دریا کا اور قالبِ بے جان کی جاں بخش تھی اس کی صدا ؎
سو وہ بین کاندھے پہ رکھ یوں چلی
نہ عاشق ہوئے اُس کے عالم پہ لوگ
وہ جوگن بنی جب کہ اس رنگ سے
پری جیسے لے آئے گنگا جلی
دیوانا ہوا جوگ، دیکھ اس کا جوگ
لگے پھوڑنے لوگ سر سنگ سے
جب وہ رخصت ہونے لگی، بادشاہ زادی بے اختیار رونے لگی ؎
وہ رو رو کے دو ابرِ غم یوں ملے
کہ جس طرح ساون سے بھادوں ملے
ان کو روتے دیکھ کر گھر کا گھر رونے لگا بلکہ در و دیوار سے بھی آہ و نالا نکلا۔ آخر کو ہر ایک نے ناچار ہو کر کہا کہ بی بی! سدھار، خدا حافظ ہے۔ جس طرح تو پیٹھ دکھائے جاتی ہے، خدا کرے اسی طرح جلدی منہ دکھلاوے۔ کوئی بولی: دیکھیو ہم کو بھولیو مت بوا! کسی نے دردِ جدائی سے اپنا ست ہار دیا۔ یہ سن کر اس نے کہا ؎
تمھیں بھی خدا کو میں سونپا، سنا
مرا بخشیو تم کہا اور سنا
تن بہ تقدیر اب جاتی ہوں، اگر وہ ملا تو اس کو بھی ساتھ لاتی ہوں۔ القصہ سب کو روتے چھوڑ روانہ ہوئی ؎
نہ سدھ بدھ کی لی اور نہ منگل کی لی
نکل شہر سے راہ جنگل کی لی
تن خاکستری و رخِ گرد آلود سے بین لیے جنگل جنگل پھرتی تھی، اس واسطے کہ کوئی شخص ایسا مل جائے جس کے سبب اس کا ٹھکانا لگے اور ملاقات ہو۔ پر بین جہاں بجاتی وہاں ایک طوفان اٹھاتی۔ چرند پرند جو سننے کو آتے تھے، بے ہوش ہوجاتے تھے ؎
بجاتی وہ جوگن جہاں جوگیا
وھاں بیٹھتی خلق دھونی لگا
بلکہ جنگل بھی اس کے سننے سے جوش میں آتے تھے اور درخت سارے خروش میں۔ جب گلِ نغمہ اس سے گرتے تو جتنے دشت تھے اپنے دامن بھرتے۔ جنگل کے درختوں کے جھنڈ اور خس و خار جڑی بوٹی کوہسار وجد میں آتے تھے اس کی صدا سے اور پرندے گر گر پڑتے تھے ہوا سے۔ نقشِ پا جہاں کہیں بیٹھا بیٹھا، پر اپنا کان ادھر ہی لگائے رہتا۔ نغمے کے گلِ تازہ کی بہار کے آگے، خار سے لگتے تھے جتنے پھول تھے جنگل کے۔ نہ فقط نالے ہی اس کے سوز سے بہ چلے تھے بلکہ کووں کے بھی دل پانی پانی ہوئے تھے۔ چشموں کی لہریں پیچ و تاب کھاتی تھیں اور دریا کی موجیں کناروں سے سر ٹکراتی تھیں۔ نہ انسان ہی اس کی بین کو سن کر گریبان تار تار کرتے تھے بلکہ بلبلیں فغاں میں تھیں اور گل جھک جھک پڑتے تھے۔ قمریاں شور کرتی پھرتی تھیں اور ڈالیاں جھوم جھوم گرتی تھیں۔ ہر ایک کو تھا وہاں مقام حیرت کا کہ کام زباں کا ہاتھ سے اس کے نکلتا تھا۔ چمن کرتی پھرتی تھی وہ ہر ایک جنگل اور بسا جاتی تھی جنگلوں میں دنگل۔ دن رات سرگشتہ مانندِ ہوا، ڈھونڈھتی پھرتی تھی وہ بے نظیر کو جا بجا۔ غرض اس کے دم قدم سے ہر ایک مقام پر طلسم کا عالم آتا تھا نظر ؎
کدھر ہے تو اے ساقیِ گل عذار
کہ صحرا سے اب دل ہوا خار خار
مجھے پھول سی دے شتابی شراب
کہ شہرِ مطالب کو پہنچوں شتاب
وہ دارو پلا دل کو جو راس ہو
کہ جینے کی بیمار کو آس ہو