جب وہ رشکِ ماہ بہ حال تباہ چھپر کھٹ میں لیٹی اور سب کو کہا کہ تم یہاں سے سرک جاؤ، ادھر کوئی نہ آؤ۔ تب اکیلی ہو زار زار تمام رات ایسی روئی کہ صبح کو آنسوؤں کے پانی سے اپنا منہ دھویا ؎
صبوحی تو دے ساقیِ لعل فام
کہ رو دھو کے میں رات کاٹی تمام
جوں ہیں آفتاب غم کا نکلا اور اداسی کا دن چڑھنے لگا، آئینے میں اپنے چہرے کا رنگ ڈھنگ جو دیکھا تو دنگ ہو گئی۔ بدن پر جو نظر پڑی تو ایسا زار و نزار تھا کہ جیسے کسی نے نچوڑ لیا۔ آنکھ اٹھا کر فلک کی طرف دیکھا اور شکر کیا۔ پھر دل کو ادھر ادھر بہلانے لگی۔ ظاہر میں زبان پر جی لگنے کی باتیں و لیکن دل اداس، ہوش و عقل پریشان پراگندہ حواس۔ نہ منہ سر کی سدھ نہ تن بدن کی خبر۔ جو سر کھل گیا تو اس کا دھیان نہیں، اگر بندِ گریبان ٹوٹ گیا تو پروا نہیں۔ جو مسی لگائے دو دن ہو گئے تو ہو گئے۔ جو کنگھی کیے ایک عرصہ گذر گیا تو گذر گیا۔ جو سینہ بچ گیا ہے تو جگر میں چاک ہے۔ بہ ظاہر لبوں پر ہنسی ہے و لیکن دل غم ناک ہے۔ نہ سُرمے کا دھیان نہ کاجل سے کام، آنکھوں میں چھائی ہوئی وہی سیہ بختی کی شام۔ و لیکن صاحبانِ آن و ادا کا یہ سبھاؤ ہے کہ بگڑے رہنا بھی ان کا ایک بناؤ ہے۔ بے ادائی بھی ان کی ایک رکھتی ہے ادا۔ سچ یہ ہے کہ بھلوں کا سب کچھ ہے بھلا۔
غرض اس کے حسن میں کسی طرح نہ تھی کمی، وہ بگڑی ہوئی بھی گویا تھی بنی۔ غم سے جو پڑ گئی تھی چین جبین پر، وہ بھی دریاے حسن کی تھی ایک لہر۔ آنکھوں میں اُس کی آنسوؤں کی تھی یہ سوبھا، کوٹ کوٹ موتی بھرے تھے گویا۔ تپِ غم سے تمتمائے ہوئے گالوں کا تھا یہ روپ، جیسے لالہ پر پڑتی ہے دھوپ۔ گریبان اُس کا سینے تلک کھلا، گویا تھا صبحِ عشرت فزا۔ اُس کے چہرۂ زرد اور آہِ سرد کا یہ تھا سماں، گویا چاند کے منہ سے نکلتا تھا دھواں ؎
پلا ساقیا ساغرِ بے نظیر
پھنسی دامِ ہجراں میں بدرِ منیر
افسوس وہ حسن و جوانی اُس کی اور ایسا جوبن، تس پر ایسی کوفت اور آٹھ پہر کی کڑھن۔ جہاں تہاں اٹھتے بیٹھتے نزاکت کے بہانے سے آہ کرنا اور سوتے جاگتے بے خودی میں ٹھنڈھی سانس بھرنا۔ کبھو تصور میں اُس کے لہو رونا، جو کسی کو دیکھنا تو ووں ہیں دھونا۔ ہر روز خواصوں کو بالا بتا کر جن درختوں میں بے نظیر چھپ چھپ کر دیکھتا تھا، اُن میں پچھلے پہردن رہے جانا اور ان کی چھاؤں میں بیٹھ کر شام کرنا۔ غرض اسی طرح سارا مہینا اسے گذرا اور وہ ماہِ بے نظیر نظر نہ آیا۔ غم سے رنگ جل گیا اور چہرہ اتر گیا، تب رہنے لگی جان بے تاب میں، فرق آگیا خور و خواب میں۔ وحشت و سودا دن بدن بڑھنے لگے اور ہوش و حواس گھٹنے۔ عقل و عشق میں جھگڑا پڑا۔ ناموس و ننگ نے کوچ کیا۔ ناتوانی زور پر آئی اور خموشی دل میں سمائی۔ یہ حال اس کا دیکھ کر وزیر کی بیٹی جل کر کہنے لگی: اے بدرِ منیر! تو ایسی شعور مند ہے کہ سب کو نصیحت کرے، تیرا شعور کدھر گیا ہے اور تیرے وقوف کو کیا ہوا ہے؟
مسافر سے کوئی بھی کرتا ہے پیٖت!
مثل ہے کہ “جوگی ہوئے کس کے میٖت”
چار دن کی ہے اِن کی آشنائی اور اس کا نتیجہ ہے جدائی۔ نہ یہ آسمان کے ہیں نہ زمین کے، جہاں بیٹھے ہیں وہیں کے۔ تو بھولی ہے کس بات پر اے دیوانی! اپنی لے خبر اے جانی! جو کوئی اپنے پر جی سے مرے، تو پہلے اس پر اپنا جی کیجیے صدقے۔ جو اپنے پر شیدا نہ ہو تو چاہیے اُس کی پروا نہ ہو۔ وہ اپنی پری کو لیے خوشی سے بیٹھا ہوگا، تم اُس کے غم میں عبث جی کو کرتی ہو فدا۔ اگر اشتیاق اسے ہوتا تمھارے دیکھنے کا تو کسی نہ کسی طرح سے تم تلک آ جاتا۔ تب اس نے کہا: اے نجم النسا! پس غیبت کسی کی بدی کرنا ہے بہت برا کہ خدا ہی عالم ہے غیب کا۔ اُس کی چاہت ہے دلی، پر خدا جانے اُس پر کیا مصیبت پڑی ؎
ہوا قید، یا آنے پایا نہ وہ
گئے کتنے دن، اب تک آیا نہ وہ
مجھے رات دن یہ دھڑکا رہتا ہے کہ پری نے مبادا یہاں کا ماجرا سنا ہو اور اسے قید کیا ہو یا طیش کھا کر کوہِ قاف میں پھینک دیا ہو۔ یا پرستان ہی میں کسی دیو کو سونپا ہو۔ غرض میں نے سب دکھ اُس کی دوری کے گوارا کیے، کہیں رہے پر جیون جیتا رہے۔ یہ کہہ کر اپنا حال زار زار رونے لگی اور موتی آنسوؤں کے پلکوں میں پرونے۔ نِدان سر منہ لپیٹ چھپر کھٹ کی پائینتی منڈکڑی مار پڑ رہی ؎
پلا ساقیا جامِ جم سے وہ مُل
کہ غائب کا احوال ظاہر ہو کُل
کسی کے تو آ کام فرخندہ حال
کہ آخر یہ دنیا ہے خواب و خیال