القصہ گردشِ آسمان سے احوال ایک طور پر کسی کا نہیں رہتا، گاہے شادی ہے گاہے غم، کبھی دکھ ہے کبھی سکھ، کبھوہنسنا ہے کبھو رونا۔ ایک دن کی سرگذشت یہ ہے کہ بادشاہ زادی سوتی ہوئی بسترِ غم سے سپہری کے وقت جو اٹھی، دالان سے باہر آنکھیں ملتی ہوئی نکلی اور کہنے لگی کہ آج جی میں آتا ہے کہ ذرا چمن کی دید کروں، شاید میرا دلِ بستہ کھلے اور جی کچھ بہلے۔ رات دن کے غم نے گھبرا دیا ہے اور آٹھ پہر کے درد نے تڑپھا دیا۔ از بس کہ گل سے بو یار کی آتی ہے، اس واسطے اُس کو خواہش گلزار کی پھر ہوئی۔ پچھلا پہر دن تھا کہ سنگار دانی مُقابہ منگا، منہ ہاتھ دھویا اور باغ کی طرف گئی۔ ایک چمن کے کنارے جڑاؤ مونڈھا بچھا کر سو ناز و ادا سے بیٹھی۔ ایک پاؤں کو زانو کے اوپر رکھ لیا اور دوسرے پاؤں کو ایک آن سے مونڈھے سے لٹکا دیا۔ وہ پاے نگاریں جسے پنجۂ مرجان دیکھ کر حسرت سے ہاتھ ملے، بلکہ پنجۂ خورشید بھی بلائیں لیوے۔ زبانِ غنچہ اُس کے وصف میں لال اور دلِ پُر خون حنا کا سو سو رنگ سے اُسی کا پامال۔ کفک اور فِندَق کی رنگت پر لالۂ احمر نثار۔ پائیں باغ کی بہار پاے حنائی پر قربان سو سو بار۔ سونے کے کڑوں کی کفک پر وہ چمک اور رنگ، سنہری شفق دیکھ کر جس کو ہووے دنگ ؎
جواہر کے چھلے پڑے پور پور
زری کی ٹکی جیسے مخمل پہ قور
از بس کہ وہ نازنین سوتی اٹھی تھی، بد دماغی سے چیں بہ جبیں تھی۔ وے خماری انکھڑیاں اور وے انداز کی انگڑائیاں اور حسن کے عالم کی اور جوبن کی دم بدم سرسائیاں۔ باغِ جوانی کی تازہ بہار، سینے کی صفائی اور چھاتیوں کا ابھار۔ نشہ حسن کا چڑھا ہوا، جوش جوانی کا بڑھا ہوا۔ ناز سے دم بدم بن بن بیٹھنا، چھب تختی کو اپنی دیکھ غرور سے حسن کے اینٹھنا۔ ایک بلّور کا حقہ کہ جس میں لالہ کی پتیاں پڑی تھیں اور نیچہ مغرّق زری کا اُس پر ایک خواص لیے کھڑی تھی اور وہ لبِ نازک پر مُنہنال کو دھر دودِ دل پردے میں نکال رہی تھی۔ ادھر اُدھر یوں کرتی تھی نگاہ، جیسے کوئی کسی کی تکتا ہو راہ۔ خواصیں سب گرد و پیش اپنے اپنے عہدے لیے حاضر۔ کسی کے ہاتھ مورچھل کسی کے ہاتھ میں پیک دان۔ کسی کے پاس چنگیر کوئی لیے ہوئے پان دان ؎
رسیلی چھبیلی بنی تنگ و چست
لباس اور زیور سے ہر ایک درست
نیچے آنکھیں کیے دست بستہ با ادب، سر جھکائے شرم سے لیکن ہر ایک آفت کا ٹکڑا اور قیامت غضب۔ کن انکھیوں سے جدھر دیکھتی تھی، بسمل کر دیتی تھی۔ خوب صورت خوب صورت کئی مصاحبیں اور ہم دمیں بھی کرسیوں پر ایک لحاظ سے ادھر اُدھر بیٹھی تھیں۔ شہزادی اُن میں ایسی نظر آتی تھی جیسے تاروں میں چاند۔ غرض اس ٹھسّے سے وہ باغ میں تھی جلوہ گر کہ ہر ایک گل کی تھی اُسی کے مکھڑے پر نظر۔ چمن ہر ایک باغ کا اُس گھڑی جوش میں تھا اور جو گل و غنچہ اُس میں تھا سو بے ہوش۔ از بس کہ وہ گل پیرہن عطر میں ڈوبی ہوئی تھی، باغ کی بو باس دونی ہو گئی۔ سوندھے کی بو سے تمام باغ مہک رہا تھا، بلکہ گلوں کا بھی دماغ معطر ہو گیا تھا ؎
پڑا عکس اُس کا جو طرفِ چمن
ہوا لالہ، گل اور گل، نسترن
اور درختوں پر اُس کے رنگ کی جوت پڑی تو اُن کی سبزی مانند زمرد کے چمکنے لگی۔ اُس کے بیٹھنے سے گلشن نے ہزار رنگ کی زینت پائی اور صبا سے بھی اڑ گئی شکیبائی۔ چمن نے جو اُس گلِ خوبی کی دیکھی بہار، تو اپنے پھول اُسے لگنے لگے خار خار۔ گل اور غنچے کہنے لگے مل مل، اِسی کے جلوے سے باغ باغ ہے باغ کا دل۔ بلبلوں سے گل کی چاہ جاتی رہی، قامتِ سرو کی قمری کو صورتِ آہ نظر آنے لگی۔ حاصل یہ ہے کہ وہاں کے سارے در و دیوار، اُس مہ کی تجلی سے ہو گئے تھے حیران آئینہ وار۔ اِس میں بیٹھے بیٹھے کچھ جی میں جو آگیا تو ایک ادا سے اُس دل ربا نے یوں کہا ؎
اری کوئی ہے ہاں ابھی جائیو
مری عشق بائی کو لے آئیو
اس وقت عجب سماں ہے اور باغ کی بہار کا عالم زور ہی کیفیت پر ہے۔ گھڑی دو ایک وہ مجرا کرے، شاید میرا دلِ ملولمشغول ہو اور یہ داغ جگر کوئی دم تو پھول ہو۔ جی کسی طرح لگتا نہیں، شاید راگ ناچ کی صحبت میں کچھ بہلے اور غم کو اندکے بھولے۔ یہ سنتے ہی ایک خواص شیریں ادا دوڑی اور عشق بائی کو اُس نے پکارا۔ وہ کافر اِس آن و ادا سے آنے لگی کہ ہر ایک گبرو مسلمان کی جان جانے لگی۔ ایک تو جوانی کی مستی، دوسرے نشہ شراب کا چڑھا ہوا۔ چلنے میں پاؤں اُس کا کہیں کا کہیں پڑتا تھا۔ شوخی شرارت پور پور میں، اینڈی ہوئی جوبن کے زور میں ؎
وہ خلقت کی گرمی، وہ ڈومَن پنا
وہ چہرہ نشے میں بھبھوکا بنا
لٹوں کے بال منہ پر یوں رہے تھے بکھر کہ جیسے بدلی چاند کے ہووے ادھر ادھر ؎
وہ بن پونچھی ہوٹھوں کی مسی غضب
کہ منہ پر تھی گویا قیامت کی شب
کان میں ایک بالا ایسا جھم جھماتا تھا کہ اُس کی جنبش پر چاند کا ہالا صدقے کیا تھا۔ اگرئی ایک پشواز گلے میں اور حمائل ایک نرگس کا ہار۔ بند رومی کمخواب کی پاؤں میں ازار۔ بالوں کا جوڑا بندھا ہوا، سر بے باکی و ناز سے کھلا ہوا۔ مونڈھے پر ایک زرد شال، ہر ہر قدم پر کمر کی لچک اور شوخی کی چال۔ ایک تنگ و چست شبنم کی انگیا جا بجا سے مسکی ہوئی اور کناروں پر اُس کے بنَت جگمگی ٹکی ہوئی۔ پشواز کی چین اٹھی ہوئی، چولی انداز سے چسی ہوئی۔ منہدی کا شوخ شوخ رنگ چمکتے ہوئے ہاتھوں میں اور کانوں میں بالے چھڑے اور پاے حنائی میں دمکتے ہوئے توڑے کڑے ؎
چلی وھاں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی
بے ساختہ عجب تھا اس کا عالم، کیوں نہ جان فدا کرے اس پر سارا عالم۔ کئی کافریں اور بھی ناز و ادا سے بھری ہوئیں ساتھ لیے چالاک و چست اور ساز گانے بجانے کے ہر ایک کے پاس درست۔ غرض ناز و اغماض سے رو برو شہزادی کے آ کھڑی ہوئی اور ایک انداز سے سلام کرکے وہ جو روش پر فرش بچھا ہوا تھا، ساتھنوں سمیت قرینے سے بیٹھ گئی۔ حضور سے حکم ہوا: گوری کا وقت ہے۔ تب اپنے اپنے ساز ہر ایک نے اٹھا طبلوں کے سُر کھینچ کر چڑھا دیے اور تھاپ کی صدا سے دلوں کو مائل کر لیا۔ وہ کافر گوری کا ٹپہ اِس انداز سے گانے لگی کہ ہر تان کے ساتھ جی ہر ایک کا نکلنے لگا۔ گٹکری متصل ایک نور کی تھی لڑی، اپج کی بہتایت ایک پھلجھڑی۔ گل و غنچے کی طرح آواز اُس کی ہر ایک طبع کی مرغوب، غرض جو کھلی مُندی اُس کی تھی ہر ایک جی کی محبوب۔ اُس وقت کے سمیں کا کیا بیان کیجیے ماجرا کہ در و دیوار مست ہو گئے تھے، بس کہ بندھ گئی تھی ہوا۔ راگ ناچ کا یہ کچھ عالم، تس پر ایسا حسنِ گل رُخاں۔ گلشن کی بہار کا ہو گیا تھا دونا سماں۔ چار گھڑی دن سورج کا عجب روپ، سہانا سایہ درختوں میں کچھ چھاؤں کچھ دھوپ۔ دھانوں کی سبزی کی لہک، سرسوں کی زردی کی دمک۔ لالہ کی شوخ شوخ لالی اور ہزارے کا رنگ، سرخ سرخ ڈورے محبوبوں کی آنکھوں کے اور نشے کی ترنگ۔ رُپہری سنہری ورقوں کی پوستوں کے ڈوروں پر یہ چمک کہ جس سے بجلی کی آنکھ جاتی تھی جھپک۔ درختوں میں سے شفق کا عکس پڑنا اور در و دیوار کا گلابی ہو جانا۔ ہر طرف چادروں کا چھٹنا اور پانی کا زور شور، درختوں پر جانوروں کا چہچہے کرنا چاروں اور۔ نہروں میں پانی کا موجیں مارنا اور فواروں کا اچھلنا۔ سروِ سہی کا اکڑنا اور آب جوؤں کا بہنا۔ نوبت کے ٹکوروں کی نرم نرم آوازِ دل ربا اور شہنائیوں کی دور سے خوش آئند صدا۔ اُن زہرہ منشوں کا گت ناچنا اور ستھری ستھری طرح الاپنا۔ سارنگیوں کا لہرا طبلوں کی گمک اور بھاؤ بتانے میں آنچل پلو کی چمک۔ گوری کی وے منجی منجی تانیں، گتوں کی وے دل فریب آنیں ؎
وہ دل پیسنا ہاتھ پر دھر کے ہاتھ
اُچھلنا وہ دامن کا ٹھوکر کے ساتھ
اکثر ذی حیات موئے، انسان اور چرند و پرند محو ہوئے بلکہ جو جہاں کھڑے تھے کھڑے رہ گئے اور جو بیٹھے تھے سو بیٹھے۔ جو پیچھے تھے آگے نہ بڑھ سکے اور جو آگے تھے وہ پیچھے نہ ہٹ سکے۔ نازنینانِ چمن کا بھی یہ رنگ تھا کہ نرگس کی ادھر ہی تھی نظر اور حالت بے خودی تھی سب گلوں پر۔ درخت سب وجد میں آکر ہلنے لگے اور سرو بھیچک ہو ٹھٹھک گئے۔ ڈالیوں پر سے گر پڑے جانور، آئینہ ساں ہو گئے دیوار و در۔ پگھل گئے نہروں کے پتھر سارے، اُچھل پڑے بے اختیار فوارے۔ نعرے کرنے لگیں شوق میں آ قمریاں، بلبلوں کے چمن میں ہوئے آنسو رواں۔ راگ بھی عجب رکھتا ہے اثر کہ سنگِ سخت کا پانی کر دیتا ہے جگر۔
القصہ یہ سماں بندھا کہ ہر ایک بے خود ہو گیا۔ از بس کہ بدرِ منیر کے دل پر عشق کی چوٹ تھی، آہیں بے اختیار بھرنے لگی اور دل میں خیال عاشق کا جو بندھا تھا، رومال دھر منہ پر خوب روئی۔ پھر مثل سیماب نپٹ بے تاب ہو ؎
لگی کہنے: ہے ہے، یہ دیکھوں میں سیر
نہ ہو پاس میرے وہ، یادش بخیر
وہی جانے اس سوزِ دروں کو جس کی کہیں لگی ہو لاگ، سچ ہے کہ بن معشوق کے اگر گلزارِ ارم ہو تو لگ جائے آگ۔ جس کو فراق ہو، جی اس کا باغ بہشت میں بھی نہ کھلے۔ تو کب واشُد ہو اُس کو اِس گلشن کے دیکھے سے۔ گل پر کیا خاک کرے وہ نظر، جس کو اپنے دل کی نہ ہووے خبر۔ کب نہال کرے اُسے درختوں کا عالم، جسے اپنے سروِ رواں کا ہووے غم۔ جس کے جگر میں ہووے آہ کی سول، کانٹا سا چبھے اُس کے دلِ زار میں پھول۔ یہ کہہ کر حسرت و افسوس سے وہ دل ربا اٹھی اور منہ لپیٹ چھپرکھٹ میں جا گری۔ وہ عالم جو تھا شادی کا، ماتم ہو گیا۔ سماں وہ خوشی کا درہم برہم ہو گیا۔ خواصیں کسی طرف چلی گئیں اور طایفے کی رنڈیاں کہیں کی کہیں۔ عقل میری بھیچک رہ گئی دیکھ کر یہ ڈھنگ، کس قدر بے ثبات ہے اس باغ کا رنگ۔ کبھی اس میں بہار ہے کبھی خزاں، ایک وتیرے پر نہیں اس کا سماں ؎
پلا ساقی ایک جام مجھ کو شتاب
کہ پردے میں شب کے گیا آفتاب
شبِ ہجر کی پھر علامت ہوئی
غرض عاشقوں پر قیامت ہوئی