احوال سے بے نظیر کے اور کوے میں قید کرنے کا اس کے
القصہ ایک دیو نے پری کو خبر دی کہ جس کو تم چاہتی ہو، وہ اور کو چاہنے لگا۔ یہ سنتے ہی آگ کا شعلہ ہو گئی اور کہنے لگی: مجھے قسم ہے حضرت سلیمان کی، جیسی میں اس کی دوست تھی ویسی ہی اب اُس کی دشمن ہوئی۔ پر تو سچ بتا کہ یہ ماجرا کیوں کر ہے؟ دیو نے کہا کہ ایک دن مَیں کسی طرف اڑا ہوا جاتا تھا۔ قضا را متصل ایک شہر کے جا نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک باغ نہایت ستھرا اور پاکیزہ ہے۔ اس کی ایک روش پر شہ زادہ بے نظیر ایک عورتِ نازنیں کا ہاتھ میں ہاتھ لیے کھڑا ہے اور آپس میں ناز و نیاز ہو رہے ہیں۔ یہ خبر اڑتی سی وہ سن غضب ہو کر بولی: میں اگر دیکھ پاؤں ایک نظر ؎
تو کھا جاؤں کچا اسے مَوت ہو
لگی ہے مری اب تو وہ سَوت ہو
اور وہ ایسا تیسا آوے تو سہی۔ آج گریبان اُس کا دھجی دھجی کر ڈالوں اور دامن ٹکڑے ٹکڑے۔ یہی قول قرار اس نے میرے ساتھ کیا تھا۔ کیسی سزا دیتی ہوں۔ ہمارے بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ آدمی زاد کا تمام فرقہ بے وفا ہوتا ہے۔
یہ غصے میں پیچ تاب کھا رہی تھی کہ بے نظیر آ پہنچا اور اس کی یہ حالت دیکھ کر ڈر گیا، بلکہ قریب تھا کہ جی نکل جاوے۔ وہ دیکھتے ہی بلا سی پیچھے لگ گئی کہ اے موذی! تیری باتیں سب میری نظر میں ہیں اور تیری گھاتیں چوریاں سب معلوم ہیں ؎
تجھے سیر کو میں نے گھوڑا دیا
کہ اس مال زادی کو جوڑا دیا
ہم سے دل کو یوں چھڑانا اور کہیں لگانا، اوپر ہی اوپر مزا اڑانا۔ دیکھ تو کیسا مزا چکھاتی ہوں اور کیسی ناک چنے چبواتی۔ یہی مُچلکہ دیا تھا تو نے، اپنے لکھے پر خوب عمل کیا۔ میں بھی اُس کا بدلا لیے بن نہ رہوں گی۔ کیوں جی ہم سے یوں اور اُس سے ووں؟ جیسا تو راتوں کو شاد شاد پھرا ہے، ویسا ہی اپنے دنوں کو رووے گا۔ چاہ کی ایک ذرا لذت اٹھا، دیکھ تو کیسے کوے جھکاتی ہوں اور کیسی بلا تیرے سر پر لاتی ہوں۔ جی سے تو کیا ماروں کہ تجھے چاہتی تھی مگر تیری چالاکیوں کی سزا دینی ضرور ہے۔ تو تو صحیح کہ تجھے ایسے ایک اندھے کوے میں بٹھاؤں کہ اپنی پرچھائیں بھی نہ دیکھے تو۔ بس تو ہو اور تیرا سر ہو اور زانو۔ یہ کہہ کر ایک پری زاد کو بلایا اور فرمایا کہ اسے جلد لے جا کر فلانے جنگل میں کوہِ قاف کے نزدیک وہ جو ایک کوا ہے، کئی سو من کا پتھر اس پر دھرا ہے، اسے اٹھا کر اُسی میں اِسے بند کر پھر وہی پتھر اُس کے منہ پر دھر۔ خبردار! اس کی فریاد نہ سنیو اور اس پر رحم ایک ذرا نہ کیجیو۔ جب شام کا وقت ہو تو ایک پیالہ پانی کا اور ایک روکھی روٹی اس کو پہنچانا۔ یہی معمول رہے۔ خلاف اس کے عمل میں نہ آوے گرچہ وہ کتنا ہی کہے۔ دیو یہ سنتے ہی شہزادے کو لے کر آسمان کی طرف اڑا۔ بے چارے پر ایک بلاے آسمانی اور آفتِ ناگہانی نازل ہوئی۔ دل اس کا نہایت پژمردہ ہو گیا بلکہ جینے سے بھی نا امید ہوا۔ سواے آہ و نالے کی فوج کے کوئی اس کا مددگار نہ تھا اور بغیر لشکرِ غم کے کوئی مونس و غم خوار۔ اپنے دل سے کہا کہ اے گرفتارِ اندوہ و غم! ہم پر یہ مصیبت جو آج ہے، عشق کی یہی معراج ہے۔ آخر اس یوسفِ ثانی کو دیو نے کوے میں بند کیا اور اُسی صورت سے اُس سنگِ گراں کو اُس پر دھر دیا۔ اِس ماہ رو کے جلوے سے بند کوئیں کے نصیب کھلے، تاریکی سب جاتی رہی اور اُس میں کیوں نہ اجالا ہو کہ اس کی پتلی کا جب ایسا تارا ہو ؎
وہ اندھا کوا تھا سو روشن ہوا
جواں اُس میں وہ سانپ کا من ہوا
بلکہ وہ حقیقت میں اندھا نہ تھا، اُس آئینہ رو کے حسن کو دیکھ حسرت سے پانی اُس کا زمین میں سما گیا اور اُس کے آنے کی خوشی سے آنسو اُس کے سوکھ گئے۔ غرض جب کہ تہ پر اُس اسیرِ غم کا پاؤں پہنچا تب وہ اُس کے اندوہ و الم سے بھر گیا۔ ہوا نے بھی کانپ کانپ کر اوپر کی راہ لی اور کوے نے مارے خطرے کے پتھر کی نقاب منہ پر ڈال لی۔ الغرض اُس نازنیں جوان کا نازک دل اُس ہول ناک جگہ میں دھڑکنے لگا اور جگر اس کا مارے خوف کے مانندِ مرغِ اسیر پھڑکنے۔ اندھیرے نے یہاں تک اُس کا دم خفا کیا کہ سانس بھی رک گئی۔ یہ حالت ہوئی اس کی کہ جیسے کسو کو دبا لیتی ہے سیاہی۔ کسو طرف اس کو راہ نکلنے کی جو نظر نہ آئی، تمام دنیا اُس کی آنکھوں میں تاریک ہو گئی۔ بہتیرا پکارا اور چلایا اور اپنے سر کو اُس کوئیں کی کوٹھی سے ٹکرایا۔ اُس کی فریاد کسو نے نہ سنی اور داد نہ دی۔ کسی کاروان کا بھی گذر نہ ہوا کہ اُس یوسفِ بے نظیر کو اُس چاہِ عمیق سے نکالتا۔ اُس کا مونس و غم خوار بجز ذاتِ کردگار کوئی نہ تھا۔ رفیق اُس کا وہی کوا اندھیارا اور شفیق اس کے سر پر وہی سنگِ خارا۔ ہوا کا بھی کسو طرف سے وہاں نہ تھا گذر کہ اُس کی آواز کو لے جاتی وہی باہر۔ غرض کوئیں کی آواز کو سواے کوئیں کے کون سنے۔ جو کچھ وہ کہتا تھا، کوا ہی اس کا جواب دیتا تھا ؎
کوا اُس کو پوچھے وہ پوچھے اسے
اندھیرے سِوا کچھ نہ سوجھے اسے
وہ کوا نہ تھا، نمونہ تھا شبِ ماتم کا یا نشان تھا شامِ مصیبت و غم کا۔ سیاہی میں تیرہ تر مانندِ دلِ کافر اور گرمی اور عفونت میں سقر سے بھی بد تر۔ نہ شب کی تاریکی کا وہاں دخل، نہ دن کی روشنی کا گذر۔ ظلمت کا ہمیشہ وہاں ظہور، ساے سے اس کے کوسوں بھاگتا تھا نور۔ اب اُس کے اندھیرے کے بیان کو کیوں کر لکھوں کہ صفحۂ کاغذ نہیں سوجھتا اور قلم کی بھی آنکھوں سے اشکِ سیاہ بہ چلا۔ لازم ہے اب اس غم کی بات کو مختصر کیجیے اور زیادہ طول نہ دیجیے۔
القصہ اُس رشکِ آبِ حیات نے وہیں قرار پکڑا۔ اب نجات اپنی کسی طرح اُسے نہیں سوجھتی۔ دیکھیے خدا کب اِس قیدِ شدید سے اُس کو رہائی دیوے ؎
غم و درد الفت کا کھا کھا جیے
لہو پانی اپنا کوئیں میں پیے
یہاں تو بے نظیر اس طرح سے اس کوئیں میں اسیر ہوا اور وہاں دردِ فُرقت نے بدرِ منیر کو حد سے زیادہ بے قرار کیا۔ سچ ہے دو دلوں میں جو محبتِ جانی ہوتی ہے، ایک کی حالت دوسرے پر چھپی نہیں رہتی۔ قلق جو اس پر یہاں گذرا، اُس پر بھی وہاں غم و الم ہوا۔ اس کا جی جو گھبرا کر رکا، اُس کا بھی دم خفا ہوا۔
جب کہ وہ رشکِ ماہ کئی رات بدرِ منیر کے پاس نہ آیا، جہانِ روشن اس کی آنکھوں میں تاریک ہو گیا۔ گھبرائی اور نجم النسا سے کہنے لگی کہ میراجی ٹوٹا جاتا ہے۔ خدا جانے کہ اُس شخص پر کیا صدمہ پڑا۔ کہا اس نے کہ بی بی! کچھ تمھیں سودا ہے؟ وہ عاشق معشوق مزاج ہے۔ خدا جانے کس شغل میں لگ گیا۔ اتنی بھی بے قراری میری چڑ ہے، اپنے تئیں سنبھالنا بھی شرط ہے۔ وہ اپنی رہ رہ کے چاہ دلاتا ہے۔ ٹک تھانبھو اپنے دل کو، اتنی بےچین مت ہو ؎
رکے جو کوئی، اس سے رک جائیے
جھکے آپ سے جو، تو جھک جائیے
خدا کو مانو اور تفوّل بھلا منہ سے نکالو۔ اختیار کو اتنا ہاتھ سے نہ دو۔ دلِ بے قرار کو ٹک سنبھالے رکھو۔ یے باتیں سن کر اُس کی نہایت پیچ تاب شہزادی نے دل ہی دل میں کھایا اور اُس کو کچھ جواب نہ دیا۔ جب کئی دن اِس بات پر اور بھی گذر گئے، تب اُس کے طور بے قراری سے کچھ اور ہوئے۔ دیوانی سی ہر ایک طرف پھرنے لگی اور جا بہ جا درختوں میں جا جا کر گرنے۔ جان حزیں میں اُس کی اضطراب نے ٹھکانا کیا اور صبر نے اس کے دل سے کنارا۔ بے ہودہ بے ہودہ خیال باندھنے لگی اور وحشت آلودہ خواب دیکھنے۔ ہجر کی تپ دل میں شدت سے بھڑکی اور جلن جانِ سوزناک میں حد سے زیادہ بڑھی۔ آنکھوں سے گرم گرم آنسو نکلنے لگے، دل و جگر جدائی کی آگ سے جلنے۔ تنہائی ڈھونڈھنے لگی اور بہانے بہانے سے رونے ؎
تپِ غم کی شدت سے وہ کانپ کانپ
اکیلی لگی رونے منہ ڈھانپ ڈھانپ
اگلا سا ہنسنا بولنا سونا بیٹھنا چھوڑ دیا۔ کھانا پینا وقت پر ترک کیا۔ جہاں بیٹھنا وہاں سے از خود نہ اٹھنا، محنت و غم سے دن رات گھٹنا۔ اگر کسی نے کہا: چلو کسی طرف جی بہلاؤ، تو اٹھ کھڑے ہونا کہ اچھا۔ جو کسی نے پوچھا کہ مزاج کیسا ہے؟ تو کہنا: جیسا تھا۔ جو کسی نے کہا کہ خاصے کا وقت گذر گیا ہے، کچھ کھائیے تو سہل انگاری سے کہا کہ بہتر ہے منگوائیے۔ جو کوئی بولا کہ ایسے رکے بیٹھے رہنے سے مرض پیدا ہوتے ہیں، ادھر ادھر ذرا سیر کیجیے کہ کچھ تفریح طبع ہو۔ کہا: سیر سے میرا دل بھر چکا ہے، کچھ خواہش نہیں۔ غرض کھانا پینا موقوف اوروں کے کھلانے پلانے پر، جاگنا سونا بھی موقوف لوگوں کے سلانے جگانے پر۔ سب لوازم زندگی کے غیروں کے ہاتھ، فقط غمِ دلبر ہی اس کے ساتھ۔ آہیں بھرنے سے شوق اور رونے سے ذوق۔ نہ سدھ بدھ جان کی، نہ تن بدن کا ہوش۔ دل بے تاب میں اُس کے یار ہی کی محبت کا جوش۔ نہ تماشاے چمن پر مائل، نہ گل پر اس کی نظر۔ اُسی کی صورت کا تصور چشم و دل میں آٹھوں پہر۔ عالمِ خیال میں اسی سے سوال و جواب، دھری رو برو اس کے حسن کی کتاب۔ جو آجائے کچھ شعر و سخن کی گفتار، تو ایک آہ بھر کر حسَن کے پڑھتی یہ شعر دو چار ؎
یہ کیا عشق آفت اٹھانے لگا
ملا میرے دلبر کو مجھ سے خدا!
گنہ چشمِ خوں بار کا کچھ نہیں
فلک نے تو اتنا ہنسایا نہ تھا
نہیں مجھ کو دشمن سے شکوا حسَنؔ
مرے دل کو مجھ سے چھڑانے لگا
نہیں تو مرا جی ٹھکانے لگا
مرا دل ہی مجھ کو ڈُبانے لگا
کہ جس کے عوض یوں رُلانے لگا
مرا دوست مجھ کو ستانے لگا
غزل یا رباعی یا کوئی فردِ پر درد ہی پڑھتی۔ سو یہ بھی جو کچھ مذکور نکلے، الّا نہ اس کی بھی کچھ خواہش نہ تھی۔ کس واسطے کہ ہر ایک چیز کا تعلق دل ہی سے ہے۔ جب اس پر صدمہ ہو تو ایک بات بھی کہنی سننی قہر تھی ؎
گیا ہو جو اپنا ہی جیوڑا نکل
گلابی میں غنچے کی بھر کر شتاب
پیالے میں نرگس کے دے میری جاں
کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل
پلا ساقیا کیتکی کی شراب
کہ دیکھوں میں کیفیتِ بوستاں