پلا ساقیا مجھ کو صہباے عیش
بہم مل کے بیٹھے ہیں وہ رشکِ مہ
ملی ہے نصیبوں سے یھاں جاے عیش
قِرانِ مہ و مہر ہے اس جگہ
ان کے وصل کی بہار ایسی ہوئی کہ وہ جاگہ رشکِ صد گلستاں ہو گئی۔ وہ بیٹھی عجب ایک ناز اور پھبن سے۔ بدن کو چرائے ہوئے کس کس جتن سے۔ منہ کو دوپٹے کے آنچل سے چھپائے اور شرم و حیا سے لجائے۔ پسینے میں ڈوبی ہوئی، ایسی لگتی تھی جیسے شبنم آلودہ سیوتی۔ غرض ایک آدھ گھڑی تک تو دونوں نیچی نگاہ کیے رہے اور شرم سے کچھ نہ بولے۔ اتنے میں یہ رکاوٹ کی صحبت دیکھ کر نجم النسا تِننگ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک گلابی جھلکتی ہوئی ان کے آگے لا کر رکھ دی۔ پھر آپ ہی پیالہ بھرا اور مسکرا کر کہا: اے شہ زادی! چپکی کیا بیٹھی ہے، اے لے یہ پیالہ پی اور اپنے ہاتھ سے اس کو بھی پلا۔ بھلا میری ہی خاطر سے ٹک ہنس بول، اپنے لبِ شیریں کو ذرا تو کھول۔ مجھے ایسی گونگی صحبت خوش نہیں آتی اور سنسنان مجلس نہیں بھاتی ؎
میں صدقے ترے، تجھ کو میری قسم
کئی ساغر اس کو پلا دم بدم
جب منت اس نے بہت سی کی، تب ناز سے پیالے کو اٹھا منہ پھیر اس کی طرف سے اور مسکرا ؎
کہا: بادہ نوشی سے ہو جس کو ذوق
پیے یہ پیالہ، نہیں اس کا شوق
تب ہنس کر شہزادے نے یہ بات کہی کہ شراب پینی کسی کے نہوروں سے کیفیت نہیں رکھتی۔ غرض بعد اس نیاز و ناز کے، پہلے تو اس نے بہ امتیاز دو تین پیالے پیے۔ پھر تو بے تکلف پیالا اٹھا بادشاہ زادی کے بھی منہ سے لگا دیا اور کہا کہ بس اب اتنا حجاب جانے دو۔ میرے سر کی سوں دو تین گھونٹ لو۔ پھر تو پیہم پیالے شراب کے چلنے لگے۔ دونوں کے غنچۂ دل برنگِ گل کھل گئے۔ بعد اس کے آپس میں احوال پرسی شروع ہوئی اور درِ گفتگو کھلا۔ تب شاہ زادے نے حسب اور نسب بیان کرکے اپنی حالات اور پری کی واردات کو ابتدا سے انتہا تلک کہا۔ پھر بدرِ منیر نے بھی حقیقت اپنی اُس سے کہی۔
غرض دونوں ملے جلے بیٹھے تھے ہنسی خوشی کہ شہ زادے کے منہ سے نکل گیا کہ ایک پہر کی مجھے رخصت ہے۔ اس میں جہاں چاہوں تہاں پھروں اور سیر کروں۔ اس بات کے سنتے ہی بادشاہ زادی سُن ہو گئی اور دل میں پیچ تاب کھا یہ جواب دیا: میری بلا سے وہ تجھ پر مرے تو اُس پر مر، لیکن میرے پاس سے سرک اور بیٹھ اُدھر ؎
میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں
یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں
کسی کو کیا کام جو تجھ سے جی ملاوے، بھلے چنگے اپنے دل کو ایک روگ لگاوے۔ گرم آنسوؤں سے شمع کی مانند کس واسطے گلے کوئی اور آتشِ رشک سے کس لیے جلے کوئی۔ یہ سنتے ہی بے نظیر گھبرا کر پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا: ہاے بدرِ منیر! لا چار ہوں، میں کروں کیا۔ کوئی لاکھ جی سے قربان ہووے مجھ پر، مجھے کیا کام میں تو نثار ہوں تجھ پر۔ کہا اس نے: بس زیادہ لگ نہ چل، اپنا سر اٹھا۔ میں کیا جانوں کسی کے دل کا احوال ہے کیا۔ یہ رمز و کنایہ آپس میں کرکے کچھ ہنسے اور روئے آہیں بھر کے۔ اتنے میں پہر رات گذر گئی اور بات دل کی دل ہی میں رہی کہ بے نظیر نے سراسیمہ ہو کر کہا: اے بدرِ منیر! میں اب جاتا ہوں، خدا حافظ ہے تیرا۔ اگر اس بلا کی قید سے چھوٹوں گا اور فرصت پاؤں گا تو آج کے وقت کل پھر آؤں گا ؎
یہ مت سمجھیو میں ہوں آرام میں
کروں کیا پھنسا ہوں برے دام میں
یہاں سے اٹھنے کو جی ہرگز نہیں چاہتا اور دردِ جدائی سے دل ہے کراہتا۔ یہ دکھ بے بسی سے بھرتا ہوں۔ اے جان! کیا میں آپ سے مرتا ہوں ؎
کرم مجھ پہ رکھیو ذرا میری جاں
میں دل چھوڑے جاتا ہوں اپنا یہاں
یہ کہہ کر ادھر کو چلا اور اپنے وقت پر جا پہنچا۔ طرفہ ماجرا ہے کہ پری کا قیدی انسان کے دام میں پھنسا۔ غرض جوں توں پری کے ساتھ رات کو بسر کیا اور وقتِ سحر تاسّف سے ہاتھ ملتا اٹھا۔ لیکن سماں بدرِ منیر کی صحبت کا آنکھوں میں چھایا ہوا اور مزا وہاں کا اُس کے دلِ بے تاب میں سارا سمایا ہوا۔ کیوں کر نہ ہوتا اس کے دل کو قلق و اضطراب۔ دیکھا تھا اس نے وصل کا ایک خواب ؎
نئی بات کا لطف پانا غضب
وہ پہلے پہل دل لگانا غضب
گھبرایا ہوا پڑا پھرتا تھا کہ دن کیوں کر کٹے اور وہ شمعِ شب افروز بن شام ہوئے کیوں کر ملے۔ کبھو اس کی زلفِ سیہ فام کے تصور میں پیچ تاب کھاتا تھا، کبھی شام کے انتظار میں چشمِ زار کو آئینۂ حیرت بناتا تھا۔ وہ ہجر کا دن اُس کی شامت کا دن تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُس کے واسطے قیامت کا دن تھا۔ غرض اِدھر کا تو احوال میں نے جس تس طرح مختصر کرکے کہا۔ اب اُدھر کا بیان کرتا ہوں کچھ کچھ ماجرا۔
جب بادشاہ زادہ گیا، جتنی رات کہ باقی تھی شہزادی کو بھی تڑپھتے اور بلکتے کٹی بلکہ ہر گھڑی اُس کے غم و اندوہ سے تکیوں پر سر پٹکتے کٹی۔ یار کی صورت جو اس کی آنکھوں میں جلوہ گر تھی، اُس کے رخساروں کی یاد میں رو رو کر صبح کی اور بے تابانہ خواب گاہ سے نکلی۔ دل میں کچھ امید اور کچھ مایوسی۔ چہرہ اداس، آنکھوں میں آنسو، لبوں پر ہنسی۔ یہ حال دیکھ کر اس کا نجم النسا نے مسکرا کر کہا کہ بے اختیار جی چاہتا ہے میرا کہ آج تو بناؤ سنگار کرکے خوب اپنے تئیں بنا اور مجھے اپنے حسن کی بہار ایک نئے انداز سے دکھا۔ آنکھیں نیچی کرکے وہ بولی: چل ری دیوانی نہ ہو۔ میں بناؤ کا عالم دکھاؤں کس کو، اپنی بھی ہوتی ہے کہیں پرائی چیز۔ کیا یاوہ یاوہ بکتی ہے اے بے تمیز ؎
غرض شاہ زادی بہت دور تھی
یہ شکل اُس کو پہلے ہی منظور تھی
القصہ نہائی دھوئی اور ایسی بنی ٹھنی جیسی دو دن کی ہوتی ہے بنی۔ اس وقت اس کے مکھڑے کا عالم اور کنگھی کا سماں جو دیکھتی تو چاندنی رات کو چکا چوندھ لگ جاتی۔ اُس کے لبِ لعل فام پر مسّی کی ایسی تھی رنگت جیسی ہو سوادِ شامِ بدخشاں کی کیفیت اور پانوں کے لکھوٹے کا اس پر یہ لطف تھا، شفق کے ہاتھ جس طرح دامن ہو شب کا۔ اس کی چشمِ مے گوں میں کاجل کا رنگ تھا ایسا، نرگستان میں شام پھول رہی تھی گویا۔ ڈانک کی پشواز گلے میں وہ جھمجھاتی پہنی اور سر پر جالی کی مقیشی اوڑھنی ایسی جگمگاتی اوڑھی کہ جن کو دیکھ کر شبِ عیش کی چاندنی پھیکی ہو گئی اور ستاروں کی آنکھ جھپک گئی۔ جواہر نگار اس کی انگیا، جو دیکھے تو فرشتہ بھی حسرت سے ہاتھ ملنے لگے۔ کرتی وہ پاکیزہ اور لطف ہوا سی جس سے صاف نظر آوے رنگت بدن کی اور لال نیفے کی سرخی اُس سے یوں نمایاں تھی گویا گرد اس کے ایک تہ تھی گلابی۔ جھمک پایجامے کی ایسی تھی زیر دامن، جیسے فانوس میں شمع ہو روشن۔ پڑا ہوا اس میں وہ مقیشی ازار بند، عقدِ ثریا سے بھی جس کی چمک تھی دو چند۔ پاے نگاریں میں وہ کفشِ زریں جس کے ستاروں سے جگمگا رہی تھی زمیں۔ جواہر سر سے جو پاؤں تلک پہنا، ہر ایک عضو کا حسن کر دیا دونا۔ ترکیب اس کی خوش اسلوب اور آئینہ سا بدن۔ پوشاک اور زیور کی تس پر یہ پھبن۔ چھب تختی نزاکت بھری اور سوڈول، اس پر موتیوں کے مالے چمکتے ہوئے انمول۔ مانگ میں موتیوں کی لڑی ایسی تھی خوش نما جیسے عالم شبِ یلدا میں ہووے کہکشاں کا۔ ٹیکا جڑاؤ ایسا عالم دکھاتا تھا ماتھے پر، جیسے چاند اور تارے وقت سحر ؎
ہوس ہو نہ دیکھ اس کو زیور کی پھر
کہے تو کہ ٹیکا تھا سب اس کے سر
صبحِ گلو پر ہیرے کے تکمے کی آب و تاب، جو دیکھے بھیچک رہ جائے دیدۂ آفتاب۔ بالے کی جھوک کے ساتھ جو گردن نزاکت سے جائے مڑ، تو بجلی کے ہوش و حواس یک بار جاویں اُڑ۔ چھاتی پر جگمگاتی تھی وہ الماس کی دُھگدُھگی، ٹک رہی تھی جس کو آنکھ سورج کی۔ جڑاؤ ہیکل گلے میں اس ادا سے تھی پڑی ہوئی، ستاروں کی آنکھ جس کے نگوں سے تھی لڑی ہوئی۔ بُھج بند اور نورتن کی بازوؤں پر سوبھا، پھیکا کرتی تھی رنگ شاخِ گل کا۔ پہنچے پر زمرد کی پہنچی اور یاقوت کے دست بند، حسن کی بہار دکھاتے تھے چار چند۔ وہ پاؤں میں لعلوں کی پازیب اور اس میں موتیوں کے آویزے، جن پر لختِ جگر عاشق کے نثار اور گوہرِ اشک صدقے۔ پاؤں میں ایسے خوب گڑھت کے چھلّے تھے میٖنے کے، جن پر خوباں کے دل گُل کھائیں آنکھوں سے۔ سراپا عطر میں جو ڈوبا اس کا بدن، اور سر کے بالوں کی باس بھی تھی رشکِ مشکِ ختن۔ ہوا زمیں سے معطر ہو گئی تا بہ فلک، سب کا سب عالم اس کی بو باس سے گیا مہک۔ بناؤ اور سنگار جب اُس غیرتِ حور نے کیا ایسا، فلک نے ماہ و مہر کو اس کے مکھڑے پر سے صدقے کیا۔ اُس کے حسن کا شہرہ جب عرش تلک پہنچا، مشاطہ نے بے اختیار خوش ہو کر اپنا ہاتھ آپ چوم لیا۔
بعد اس کے خواصوں نے گھر کو بہ خوبی آراستہ کیا۔ تمامی کے پردے دالانوں کے دروں پر لگا دیے۔ پھر جا بجا فرش ہر ایک مکان کے مناسب بہ صفائی بچھا، ایک مرصع کا چھپرکھٹ اُس پر زربفت کا غلاف سج کر رکھ دیا اور نرگس کے وے دستے (کہ چشم فلک نے نہ دیکھے تھے) روپے سونے کے گلدانوں میں رکھ کر طاقوں میں چنے اور ولایت کے میوے پاکیزہ و لطیف (کہ جن کی باس اور رنگت بہشت کے پھول پھل پر شرف رکھتی تھی) جڑاؤ خوانچوں میں لگا کر رکھ دیے۔ ہر ایک مکان میں لخلخے ایسے روشن کیے کہ تمام باغ معطر ہو گیا اور ہر شخص کا دماغ اس کی عطریت سے معنبر۔ ایک طرف رکھ دیں برابر برابر طرح بہ طرح کے پھولوں کی کیاریاں، ایک سمت چن دیں قطار قطار قسم قسم کی ڈالیاں۔ چھپرکھٹ کے آگے ایک مسند جھلا جھل کرتی ہوئی بچھا کر تمامی کے تکمے لگا دیے۔ چنگیروں میں مرصع کی اور جڑاؤ پاندانوں میں ہار پان لگا کر رکھ دیے۔ قرینے سے جڑاؤ عطر دانوں میں ہر ہر قسم کا عطر اور چوگھڑوں میں الایچی سپیاری بن دھنیا سلیقے سے بھر کر بہ تکلفِ تمام دھر دیا۔ اور ایک کتاب مجلد خوش قطع سنہری جدول کی جس میں نظیری اور ظہوری کا انتخاب اور ایک بیاض بھی ویسی ہی خوش اسلوب جس میں مرزا اور میر حسن کے شعر منتخب تھے، سرہانے رکھ دی اور قلم دان جڑاؤ مینے کے کام کا مع اسباب چھپرکھٹ کے نیچے لا رکھا۔ ایک گنجفہ خوش قماش (کہ جس کے نقش و نگار دیکھ کر مانی و بہزاد بھیچک رہ جائیں) مسند کے پاس دھر دیا۔ اور ایک چوسر مخملی زری کے کام کی جڑاؤ نردوں اور پانسوں سمیت جی بہلانے کو مسند کی دوسری طرف رکھ دی۔ کسی طرف ساقیانِ خوش ادا نے مخفی سونے کی ایک چوکی پر وے گلابیاں شراب کی (جنھیں دیکھ بادہ نوش غش کریں اور طرح بہ طرح کی گزک جس پر ہر کسی کا جی جلے) چُن کر بادلے کا تورہ پوش ڈال دیا۔
پھر شاہ زادی نے ایک خواص کو ارشاد کیا کہ جلد بکاول کو تقید کر کہ خاصہ تیار رہے۔ یہ کہہ کر ایک مرصع کی چھڑی ہاتھ میں اٹھا لی اور ادھر ادھر روش پر ناز سے پھرنے لگی۔ پر دل میں چاؤ ملنے کا اور تمنا کہ کہیں جلد سورچ چھپے اور وہ چاند نکلے ؎
پلا مجھ کو ساقی شرابِ وصال
کہ اب ہجر سے تنگ ہے میرا حال
جب آفتاب غروب ہوا اور شام ہوئی، تب وہ گرفتارِ دامِ بلا بھی چھوٹا۔ جلدی جلدی ایک جوڑا دھانی نہایت باریک تمامی کی سنجاف کا پہنا اور لعل کے بازو بند نورتن کہ جس کا جواہر نہایت چوکھا اور بیش قیمت تھا، بازوؤں پر باندھے۔ سواے اس کے بھی کچھ جواہر جس قدر کہ مناسب تھا زیبِ بدن کیا اور اُسی فلک سیر گھوڑے پر سوار ہو کر آسمان کی ہَوا ہُوا۔ پلک مارتے وہیں آ پہنچا جہاں وہ منتظر کھڑی تھی۔ جوں ہیں بادشاہ زادی کی نظر اُس پر پڑی، خوش تو ہوئی پر شرارت اور ناز سے منہ پر اوڑھنی لے کر ایک درخت کے اوجھل چھپ گئی۔ لیکن اس وقت اس کے عالم پر جو دھیان کیا تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک دھانی جوڑا گلے میں پہنے ہوئے ایسا کھڑا ہے، جیسے سرو میں چاند چھپا ہوا جھلکتا ہے یا اِس رات لباسِ سبز سے چاند نے کھیت کیا کہ آفتاب نے کانِ زمرد میں جلوہ لیا۔
غرض اس شعلۂ سبز کا یہ سماں جو دیکھا تو آتشِ شوق سے دلِ بے تاب اس کا زیادہ جلنے لگا۔ خواصیں ادھر ادھر جو جان بوجھ کر دم بخود ہو رہیں تھیں، اُن میں سے ایک ہم راز نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ جدھر کو فرمائیے، شہزادے کو ہم لے جا کر بٹھا ویں۔ آنکھیں نیچی کرکے بولی: وہ جو مکان آراستہ ہے، اُدھر سے چھپے چھپے لے جا اور وہیں بٹھا۔ موافقِ ارشاد اس حسن کے مہتاب کو ایک نقاب میں چھپا کر اسی مکان میں لے آئی اور اسی مسند پر بٹھایا۔ اتنے میں آپ بھی ووں ہیں ایک ناز و حیا سے مسکراتی جھجھکتی اور ہر قدم پر ٹھٹھکتی کچھ ایک دیر میں آئی۔ دیکھتے ہی اسے پھر وہ کشتۂ عشق غش ہونے لگا۔ بارے جوں توں سنبھلا اور اس کی شرم سے نہایت اکتایا۔ اِدھر اِسے عشق کی بے تابی، اُدھر اُسے حیا سے پُر حجابی۔ آخر نہ رہ سکا، پادشاہ زادی کا ہاتھ پکڑ مسند پر کھینچ لیا تب وہ نازنین لجا اور مسکرا ؎
لگی کہنے: ہے ہے مرا چھوڑ ہاتھ
یہ گرمی رہے اُن سے، ہے جن کے ساتھ
تب اس نے کہا کہ جانی! تیری رُکھائیوں نے تو مجھے جلا کر سوختہ کر دیا۔ بس میرے پہلو سے لگ کر ایک ذرا بیٹھ جا۔ کب سے تڑپھتا ہے میرا دل، ٹک ایک آغوش کھول اور مجھ سے مل۔ آخر بڑے امتیاز و ناز سے مسند پر آ بیٹھی۔ ساقیانِ گل اندام الماس تراش گلابیوں میں ستھری ستھری شراب بھر کر اور جڑاؤ پیالے ہاتھوں میں لے کر حضور میں آئے اور شراب چلنے لگی۔ جب اُن جامِ عشق کے مدہوشوں کو نشہ خوب چڑھا تب طور اُن کی گفتگو اور صحبت کا کچھ اور ہوا۔ خواصیں جتنی سامھنے کھڑی تھیں، اُن کی یہ کیفیت دیکھ کر کام کاج کے بہانے سامھنے سے سرک گئیں بلکہ نرگس کے دستے جو رو برو دھرے تھے، انھوں نے بھی حجاب سے آنکھیں نیچی کر لیں۔ آخر جب نشے نے نہایت زیادتی کی اور بے حجابی بہت بڑھ گئی تب چھپرکھٹ میں جا کر لیٹے اور پردے چھوڑ دیے۔ گویا مہر و ماہ ایک مقام میں چھپ گئے۔ پھر چھیڑ چھاڑ اور بوس و کنار ہونے لگا۔ منہ سے منہ، ہونٹھ سے ہونٹھ، آنکھ سے آنکھ، دل سے دل، بدن سے بدن مل گئے۔ شرابِ وصل آپس میں پینے لگے۔ ازبسکہ بے اختیار ہو ہو کر لگے گلے، شوق و ناز کے آپس میں ہاتھ خوب چلے۔ کسی کی چولی چل گئی، کسی کی چین نکل گئی۔ غم و درد نے دامن کھینچا۔ عیش و طرب ہر ایک کا گریبان گیر ہوا۔ وہ پیاسے شربتِ وصال کے سیراب ہو کر اور شرابِ عیش کو بہ خوبی پی کر اٹھے۔ کسی کے منہ پر سرخی، کسی کے منہ پر سفیدی۔ اس رنگ روپ سے پھر مسند پر آبیٹھے لیکن خاموش۔ ادھر پسینے پسینے یہ مہ جبین، اُدھر آنکھیں شرم سے نیچے کیے ہوئے وہ نازنین۔
غرض اس کیفیت میں تھے، نجم النسا نے آکر عرض کیا: خاصے کو کیا حکم ہے؟ فرمایا: منگاؤ۔ ووں ہیں پہر بجا اور بے نظیر گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا، پر عجب اس کی حالت تھی۔ اِدھر بادشاہ زادی کی رنجیدگی کا خوف و خطر، اُدھر اُس پری کے غصے کا ڈر۔ پر یہ سوچا کہ بھوت کی آشنائی جی کا ضرر ہے۔ شہزادی سے آبدیدہ ہو کر کہا کہ میں مجبور ہوں۔ وہ غم کی تصویر ہو گئی اور کچھ نہ بولی بلکہ آنکھ بھی ادھر نہ کی۔ تب بے نظیر کہنے لگا کہ مجھ سے آزردہ و بے زار مت ہو۔ میرا جی کب چاہتا ہے کہ جاؤں لیکن پراے بس میں ہوں۔ اگر جیتا رہا تو کل پھر آؤں گا۔ ان نے تیوری چڑھا کر کہا: آؤ یا نہ آؤ، مختار ہو۔ اس کی خفگی کی بول چال سے بادشاہ زادہ رونے لگا، پر چار و ناچار رخصت ہوا اور گیا۔
القصہ پھر ہجر کا پردہ دونوں کے بیچ پڑ گیا اور رونا دھونا ہر ایک کو لگ گیا۔ یہ معمول ٹھہرا کہ ہر روز رات کو آنا اور پہر بھر بادشاہ زادی کے ساتھ ہنسنا بولنا اور دل کے عُقدوں کو کھولنا۔ غرض ایک پہر تو دونوں وصل میں ہنستے بولتے اور سات پہر ہجر میں زار زار روتے ؎
پلا جلد ساقی مجھے بھر کے جام
یہ دو دل کو یک جا بٹھاتا نہیں
یہ ہے دشمنِ وصل و دل سوزِ ہجر
جدائی انھوں کی خوش آئی اِسے
کہ ہے چرخ بھی درپے انتقام
کسی کا اِسے وصل بھاتا نہیں
کرے ہے شب وصل کو روزِ ہجر
یہ اتنی بھی صحبت نہ بھائی اِسے