ایک دن کی واردات ٹک دل دے کر سنو تو نہایت لطف اٹھاؤ۔ کسی رات شہزادہ بے نظیر شام کے وقت سیر کے ارادے فلک سیر پر سوار ہوا۔ بادپا از بس کہ تیز رفتار تھا، چڑھتے ہی اس نے سیکڑوں کوس پر جا دم لیا۔ اتنے میں ایک سہانا سا باغ اس کو دور سے نظر آیا۔ اس کا دل اس کے دیکھنے کے واسطے بہت ہی للچایا۔ جب کچھ ایک نزدیک پہنچا تو ایک عمارت ایسی سفید بلند نظر پڑی کہ چاندنی سے بھی دو چند برّاق تھی۔ آسمان نکھرا ہوا، چاند چمکا ہوا، جاڑے کی ہوا ٹھنڈی خوش آئند، چاندنی کا ہر طرف ظہور، شام سے صبح تک یکساں عالمِ نور۔ سماں وہاں کا جو اس کو بھایا تو یک بیک اس کی خاطر میں یہی آیا کہ اس باغ کو دیکھیے۔ وہ پری زاد گھوڑا جس کو ہوا پر اڑائے چلا جاتا تھا، ووں ہیں اس کی باگ لی اور اوپر سے نیچے کو رخ پھرایا تو اسی رنگ کی خوش قطع عمارتیں کتنی ہی دکھائی دیں، اور بھی دل مائل ہوا کہ اسے چل کر خواہ مخواہ ہی دیکھیے۔ تب اس کی پیٹھ سے ایک کوٹھے پر اتر پڑا۔ ادھر ادھر جھانکنے لگا کہ دیکھوں تو یہاں کوئی رہتا بھی ہے یا نہیں۔ یکایک ایسا کچھ دکھائی دیا کہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ سُرت بسر گئی، ہر ایک چیز جی سے اتر گئی ؎
کہا جی سے، اب جو کچھ ہو سو ہو
ذرا چل کے اِس سیر کو دیکھ لو
یہ سوچ سمجھ سیڑھیوں سے نیچے اترا اور وہاں کے کواڑ کھولے۔ پھردبے پاؤں نظر سے اپنے ساے کو بچائے آڑ میں درختوں کی چلا ؎
تھے یک طرف گنجان باہم درخت
کہ لپٹے ہوں جس طرح مشتاق سخت
وہیں جا کر کھڑا ہوا اور چھپ چھپ ادھر ادھر تکنے لگا کہ ایک صحبتِ پر کیفیت اور شکلیں خوب صورت کسی طرف نظر آئیں۔ جان و دل سے فریفتہ ہو گیا ؎
ملی جنس کی اپنی جو اس کو بو
مغرّق زمیں پر تمامی کا فرش
لگا تکنے حیرت سے حیران ہو
چمک جس کی لے فرش سے تا بہ عرش
یہ چمکاہٹ دیکھ کر نگاہ خیرگی کرنے لگی، چکا چوندھ سی لگ گئی۔ غرض جوں توں اُس مکان کی طرف جو ٹھہرا کر نظر کی تو کیا دیکھتا ہے کہ در و بام اس کے ایسے سفید ہو رہے ہیں کہ نورِ صبح ان کے جلوے سے منفعل ہے اور چمک موتیوں کی خجل۔ فرش ہر ایک مکان میں جگمگا بچھا ہوا جس کی چمک کا فرش سے تا عرش جھمکڑا تھا۔ بلور کے سنگِ فرش ایسے خوش تراش قرینے سے دھرے ہوئے کہ جن سے فرش کی چمک دونی نظر آوے۔ اس کی نگاہ جو اس پر گئی اور عکسِ ماہ ان میں دیکھا، بھیچک رہ گیا۔ از بس کہ طرح اُس ہر ایک کی ایسی مانوس تھی کہ جیسے شیشے کی فانوس۔ اگر دانا نظارہ کرے تو دیوانہ ہو کر کہے کہ ہر ایک کونے پر شیشے میں پری کو بند کرکے رکھ دیا ہے اور چمنوں کا یہ رنگ تھا ؎
لپیٹے ہوئے بادلوں سے درخت
زمین و ہوا صاحبِ تاج و تخت
اندر باہر شمعیں روشن، قدِ آدم آئینے لگے ہوئے۔ سارا مکان روشنی کی کثرت سے ایسا اجاگر ہو رہا تھا جیسے آسمان تاروں سے۔ جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھو تو ازدحامِ نور ہے اور روشنی کا وفور۔ چوپڑ کی ملبب وہ پاکیزہ نہر جس میں موج زن چشمۂ ماہ کی لہر۔ جو کوئی چاندنی میں اسے دیکھے تو سمجھے کہ ایک پٹری بلور کی جھلک رہی ہے یا روش الماس کی چمک رہی ہے۔ فوارے اس میں اس خوبی سے چھوٹ رہے تھے جیسے موتی برستے ہیں ہوا سے ؎
مقرّض پڑا اس میں مقیّش جو
گرا ماہ وھاں رشک سے پرزے ہو
تس پر ہر ایک مہ پارہ کترا ہوا مقیش اور بھی جھولی میں بھرے اڑا رہی تھی اور ہوا میں اس کے تار جگنو سے چمکا رہی تھی۔ وہ اس کے ہاتھ سے جب نکلتے تھے، جلوۂ ماہ کو پاؤں تلے ملتے تھے ؎
غرض اپنی صنعت سے تاروں کو توڑ
زمیں کو فلک کا بناتی تھی جوڑ
یہ زر افشانی کی کثرت تھی کہ اُس باغ کی ساری زمین لگا چمنوں سے روشوں تلک مع درخت و گل و غنچہ و شاخ و ثمر پُر زر ہو گئی ؎
زمانہ زر افشاں، ہوا زر فشاں
زمیں سے لگا تا سما زر فشاں
جوانانِ باغ زر کی پوشش سے اس چمک پر کہ غش ہو جائیں اُن کو مہر و مہ دیکھ کر۔ اُس نہر کے کنارے ایک نمگیرا زرّیں اس زرق برق سے کھڑا تھا کہ جس کی جھالر کی رخشندگی پر گوہرِ آب دار نثار ہو اور چشم فلک کی کیا تاب جو اس سے دوچار ہو۔ اُس کی چوبیں الماس کی جڑاؤ ایسی خوش تراش کہ گویا ایک سانچے میں ڈھلی ہوئی تھیں۔ جھمکڑا ان کا دیکھتا تو اِستادۂ کہکشاں بھی جھک جاتا اور ڈوریوں سے اس کی تارِ شعاعی آفتاب کی کیا تاب تھی کہ اپنے تئیں دور کھینچتا۔ فی الواقع جتنی تعریف اُس کی خوش قطعی و زر نگاری کی کیجیے سو تھوڑی ہے۔ اس میں ایک مسند نہایت خوب زربفت کی جگمگی بچھی تھی کہ جس کے پاے انداز چاندنی چاند کی بھی رہے پڑی ؎
کہوں کیا میں جھالر کی اس کی پھبن
کہ سورج کے ہو گرد جیسے کرن
تکیے بھی پھولے نہ سماتے تھے اس لیے کہ اس پر دھرے تھے، با وجود اس کے کہ خود بھی سر بسر حسن سے بھرے تھے۔ صراحی اور جامِ بلور کے سامھنے اس کی اِس کیفیت پر تھے کہ دیدۂ دل اس کو دیکھ کر مست ہو جائے اور اگر زاہدِ خشک بھی انھیں پائے تو تقوی سے ہاتھ اٹھائے۔ غرض جدھر کو نگاہ وہاں جاتی تھی، سواے نور کے کچھ نظر نہ آتا تھا ؎
زمیں نور کی، آسماں نور کا
اگر کیجیے سایے اوپر نگاہ
ستاروں کا مہتاب میں حال یوں
جدھر دیکھو اودھر سماں نور کا
تو ہے وہ بھی جوں سایۂ مہر و ماہ
کہ چونے کے قطرے ہوں پانی میں جوں
چمن سارے داؤدی کے پھولوں سے بھرے، ہر طرف شبّو کے پھول شاخوں پر کھلے ہوئے۔ حاصل یہ ہے کہ کس حسن کو کوئی انتخاب کرے۔ ہر ایک شے میں اُسی ایک آفتاب کا جلوہ ہے۔ نزدیک دور جدھر آنکھ جاوے اسی ایک مہتاب کا پرتو ہے۔ غرض خودی کی وحدت سے نکل اور اپنے بیگانے کی کثرت میں آ، تو ہر ایک میں وہی ایک جلوہ نظر پڑے گا۔ اس واسطے کہ ہر ایک چیز میں اسی کے نور نے رنگ پکڑا ہے، اگر آنکھ بینائی کی کھولے گا تو اس کے سوا غیر کو ہرگز نہ دیکھے گا ؎
حقیقت کی لیکن بصارت بھی ہو
گلابی میرے سامھنے ساقیا
کہ دیکھے سے ہو جس کے، دل کو سرور
کہ دیکھے نہ اس کے سوا غیر کو
مہِ چاردہ کو دکھا کر ہِلا
نظر کام کر جائے نزدیک و دور