القصہ وہ پری جو اس کو وہاں سے لے اُڑی، پرستان کے اندر جا پہنچی اور ایک باغ میں اسے اتارا۔ وہاں کا عالم دنیا سے نرالا تھا ؎
طلسمات کے سارے دیوار و در
نہ یہاں کے سے کوٹھے نہ یہاں کے سے گھر
وہ باغچہ معمارِ قدرتِ الٰہی نے بنایا تھا اور باغبانِ قضا نے رنگ برنگ کا گل بوٹا اس میں لگایا تھا۔ عمارتیں اس کی رنگین، رشکِ عماراتِ خلدِ بریں۔ نہ انھ میں آگ پانی کا خطرا، نہ سردی گرمی سے دھڑکا۔ اور ہر ایک مکان کی چھت ایسی درخشاں، جیسی دیوارِ چراغاں۔ مطلّا و منقش ہر ایک دیوار و بام، مشبّک و پاکیزہ دروازے تمام ؎
گرے چھن کے وہاں اس لطافت سے دھوپ
زمیں وھاں کی ساری جواہر نگار
کہ زردی کا جوں زعفراں کی ہو روپ
اَدھر میں چمن اور ہوا میں بہار
ہر ایک وہاں کی چیز عجائب و نادر اور ہر ایک مکان میں وہاں کے صنعتِ صانع ظاہر۔ بلبلیں رنگ برنگ کی درختوں کی ٹہنیوں پر چہچہوں میں اور انوٹھی انوٹھی رنگتیں وہاں کے گلوں میں۔ جس چیز کا کسو کو ہووے اشتیاق، وہیں دیکھ لے اسے بالاے طاق۔ جواہر کے وحوش و طیور دن کو دور دور ہر طرف صحن میں چگتے پھریں اور وہی حیوان رات کو آدم کی صورت بن کر گھر کا کام کاج کریں۔ اور اُس عمارتِ پرکیفیت کے گوہرِ شب چراغ، دن کو تو جواہر نظر آویں اور رات کو چراغ۔ جس وقت ان کی کوئی کوٹھری کھل جاوے، دنیا کے باجوں کی صدا آوے ؎
وگر بند کر دیجیے ایک بار
صدا آپ سے آپ گھڑیال کی
تو جوں ارغنوں راگ نکلیں ہزار
کہیں ناچ کی اور کہیں تال کی
ہر ایک مکان میں موافق اُس کے فرشِ مخمل منقش بہ خطِ سلیمانی، جس کی دلالی میں دیا جائے ارژنگِ مانی۔ اندر سے باہر تک بچھا ہوا اور ایک ایک پلنگ بھی جواہر نگار جہاں چاہیے وہاں کسا ہوا۔ دروں پر بندھے ہوئے طلسمات کے پردے اور چِقیں، دل کی خواہش پر اُٹھیں اور گریں۔ سیکڑوں خواصیں پری زاد اس پری کے مطیع و فرماں بردار بلکہ اس پر جان و دل سے نثار۔ قصہ کوتاہ سرِ نہر ایک مرصع کا بنگلا تھا۔ اسی میں شہزادے کا پلنگ لا رکھ دیا اور وہ بنگلا اس کے حسن کی چمک سے دو چند روشن ہو گیا ؎
قضا را کھلی آنکھ اس گل کی جو
نہ وے شخص دیکھے، نہ وہ اپنی جا
اچنبھے کا یہ خواب دیکھا جو وھاں
نہ پائی وہاں شہر اپنے کی بو
تعجب سے ایک ایک کو تک رہا
لگا کہنے: یا رب! میں آیا کہاں؟
از بس کہ شاہ زادہ کم عمر تھا، کچھ سہما پھر کچھ ڈھاڑس اپنے دل میں باندھ ڈھٹائی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اتنے میں سرہانے کی طرف جو نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک رنڈی خوب صورت نا آشنا سی ہے کھڑی۔ پوچھا: تو کون ہے، یہ گھر کس کا ہے اور مجھے یہاں کون لایا؟ یہ سن کر منہ پھیر، اُدھر سے رخسار پر نقاب لے کر مسکرائی اور یہ جواب دیا ؎
خدا جانے تو کون، میں کون ہوں!
مجھے بھی تعجب ہے میں کیا کہوں
پھر ایک لحظہ چپ رہ کر ہنس پڑی اور کہنے لگی: تو میرا مہمان ہے اور قضا و قدر تجھ کو یہاں لے آئی ہے ؎
یہ گھر گو کہ میرا ہے، تیرا نہیں
پر اب گھر یہ تیرا ہے، میرا نہیں
سن اے بے نظیر! تیرے عشق نے مجھے دیوانہ کیا اور تیرا غم میرے دل میں پیدا کیا۔ تجھے تیرے شہر سے یہ بندی تقصیر وار ہی اڑا لائی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں پری ہوں اور یہ پرستان ہے۔ یہاں کے باشندے انسان نہیں۔ یہ سن کر ہکا بکا سا رہ گیا، پھر کچھ نہ بولا ؎
کہاں صحبت جن، کہاں شکلِ انس
غرض قہر ہے صحبتِ غیر جنس
غرض وہ تو اس کے وصل کی شادی سے پھولی نہیں سماتی تھی اور اِس کے دل کی کلی اپنے لوگوں کے غمِ دوری سے مرجھائی جاتی تھی ؎
کبھو یوں بھی ہے گردشِ روزگار
کہ معشوق عاشق کے ہو اختیار
جوں توں وہاں دل اپنا پرچایا اور جی کو لگایا۔ پر جو کچھ وہ کہتی ہاں ہاں کیا کرتا اور وحشیوں کی طرح اکثر اداس بد حواس پھرتا۔ کبھی سانس لے کر آنکھوں میں آنسو بھر لاتا اور کبھی وے محلوں کی چہلیں، گھر کی خوشیاں دھیان کر بے خود ہو جاتا۔ جب پیار ماں باپ کا یاد آتا تب رو رو آنسوؤں کے دریا بہاتا۔ کبھی اپنی تنہائی پر غم کرتا کہ ہاے! میں کہاں آیا، اور کدھی اپنے پر دعائیں دم کرتا کہ حیف! مجھے کیا ہوا۔ اور جو کبھی اپنے ناز و نعمت کے پلنے کا تصور کرتا تو ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں بھرتا۔ کسی بہانے کبھی رات دن سویا کرتا اور جو اکیلا ہوتا تو وطن کی جدائی سے رویا کرتا۔
غرض اس کو ہر ساعت ایسی بے قراری تھی جیسے نئے جانور کو جال میں۔ اور ماہ رُخ پری نے یہ کام باپ کی چوری سے جو کیا تھا، اسی لیے کبھی وہاں رہتی اور کدھی باپ کے یہاں؛ تاکہ یہ احوال کسی پر ظاہر نہ ہووے۔ از بس کہ وہ پری صاحبِ شعور تھی، نئی نئی چیزیں لاتی اور قسم قسم کے راگ رنگ مچواتی کہ دل اس کا پرچے اور جی بہلے۔ عجائب و غرائب، سوانگ تماشے وہاں کے اسے ہر شب دکھلاتی اور کشتیاں اچھی اچھی پوشاک کی اور پاکیزہ پاکیزہ کھانوں کے خوان، طرح بہ طرح کے میوے آگے رکھتی تاکہ جس لباس پر طبیعت میل کرے سو پہنے اور جس خورِش کی رغبت ہو وہ کھاوے ؎
شرابوں کے شیشے چنے طاق میں
شراب و کباب و بہار و نگار
گزک وہ کہ نکلے نہ آفاق میں
جوانی و مستی و بوس و کنار
غرض ہمہ چیز مہیا اس کی خاطر رکھتی کہ کسی وجہ دل شکستہ نہ ہو؛ کیوں کہ ایک تو میں نے اس کو ماں باپ اور بھائی بند دوست آشنا سے تنہا کر دیا اور جو اَب خاطر داری بھی نہ کروں تو ان کے فراق کا ایسا غم کھاوے گا کہ بیمار ہو جاوے گا۔ باوجود اس خاطر داری کے بھی شاہ زادہ اپنے خویش و اقربا کی دوری کے غم سے گلتا تھا اور شمع کی مانند سوزِ دروں سے جلتا، پر ہرگز منہ پر نہ لاتا بلکہ بہ ظاہر زمانہ سازی سے اس کی طرف جھکا رہتا، پر نا جنسی کے سبب جی میں رکا رہتا ؎
پری وہ جو تھی دل لگائے ہوئے
وہ بیٹھی تھی اس کو اڑائے ہوئے
چنانچہ اس کی رکاوٹ کو تاڑ گئی لیکن از بس کہ شعور دار تھی، جی میں تو رکی رہتی پر اس کے منہ پر کچھ نہ کہتی۔ اس پر بھی محبت کی زیادتی کے سبب ایک دن اس سے کہا: اے بے نظیر! اب تو تو میرے دام میں اسیر ہو چکا لیکن ادھر اُدھر ایک پہر پھرا چلا کر اور سیر روے زمین کی کیا کر۔ میں تو سرِ شام اپنے باپ کے پاس جاتی ہوں اور تو اکیلا اداس پڑا رہتا ہے۔ اگر سیر کرے گا تو تیرا مزاج بحال رہے گا اور میرا دل بھی نہ کڑھے گا۔ اسی لیے گھوڑا کل کا میں تجھے دیتی ہوں لیکن تو مجھے یہ مچلکا دے کہ اگر پھر اپنے شہر کی طرف یا کسی اور ملک کی سمت جاوے یا کسو سے اپنا دل لگاوے تو حال تجھ سے دل دار کا، گنہگار کا سا ہو ؎
کہا: کیوں کہ میں تجھ کو جاؤں گا بھول
مجھے جو کہا تو نے سو سب قبول
تب ماہ رخ نے اس قول قرار پر خوش ہو کر کہا کہ نام اس باد پا کا “فلک سیر” ہے۔ تیرے بخت یاور تھے کہ میں نے یہ سلیمان کا تخت تجھ کو بخشا۔ تجھ سا کوئی دنیا میں خوش نصیب نہیں ہوا کیوں کہ ایسا فلک سیر گھوڑا کسو کو آج تک نہیں ملا۔ زمین سے آسمان تک اور مشرق سے مغرب تلک جہاں چاہو سیر کیجو۔ جو اوپر کو چڑھاؤ تو کل اس کی یوں جوڑیو، اور نیچے کو اتارو تو یوں موڑیو۔ کیا کہوں میں اس گھوڑے کی خوبیاں، ایسی دوِند اور پرند میں کب ہوتی ہیں محبوبیاں ؎
ذرا کل کے موڑے، فلک پر ہوا
نہ کھاوے، نہ پیوے، نہ سووے کبھی
نہ حشری، نہ کمری، نہ شب کور وہ
نہ ساپن، نہ ناگن، نہ بھونری کا ڈر
جو کہیے تو کہیے اسے باد پا
نہ ٹاپے، نہ بیمار ہووے کبھی
نہ وہ کہنہ لنگ اور نہ منہ زور وہ
ہر ایک عیب سے وہ غرض بے خطر
القصہ سرِ شام بے نظیر اُس باد رفتار پر سوار ہو کر پہر بھر جہاں چاہتا وہاں پھرتا، پر اس کے غصے سے ایسا خوف کھاتا کہ پہر کے بجتے ہی چلا آتا۔ ایک مدت تو یوں ہیں کٹی۔ پر ایک دن سیر کے درمیان دل میں یہ ترنگ آئی کہ اتنی سیر سے تو سیری نہیں ہوتی۔ ٹک آگے بڑھا چاہیے، اس میں جو ہو سو ہو ؎
کدھر ہے تو اے ساقیِ شوخ و شنگ!
کہ آیا ہوں میں بیٹھے بیٹھے بہ تنگ
پلا مجھ کو دارو کوئی تیز و تند
کہ ہوتا چلا ہے مرا ذہن کند
مرے توسنِ طبع کو پر لگا
مجھے یھاں سے لے چل فلک پر اُڑا