جنوں کو ضبط سکھا لوں تو پھر چلے جانا میں اپنا آپ سنبھالوں تو پھر چلے جانا
قسم خدا کی میں پی کر بہک نہیں سکتا اگر میں جام اُچھالوں تو پھر چلے جانا
اُسی طرح ہے اَبھی تِشنگی اِن آنکھوں میں میں اِن کی پیاس بُجھا لوں تو پھر چلے جانا
یہ گفتگو تھی ستاروں کی تُم نہ آہو گے میں اِن کی شمعیں بُجھا لُوں تو پھر چلے جانا
جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اُٹھا رکھا ہے
دور کے چاند سے مٹی کا دیا ہی بہتر جو غریبوں نے سر شام اُٹھا رکھا ہے
اب میرے دید کی دُنیا بھی تماشائی ہے تُو نے کیا مُجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے
تُم نے تو ہاتھ میرے ہاتھ پہ آ رکھا ہے میں نے کوھسار ہتھیلی پہ اُٹھا رکھا ہے
پتھرو آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو میں نے تُم کو بھی کبھی اپنا خُدا رکھا ہے