آبش کی شادی کے دن قریب آرہے تھے ہر جگہ ہلا گلا تھا کمی تھی تو بس عنایہ کی ایک وہی نہیں تھی
"یار عنایہ کہا چلی گئی ہے"
سارہ آبش سے ملنے آئ تھی جو رونے دھونے میں مصروف تھی ہر چھوٹی بات پر آبش کے آنسو گرنے لگتے تھے آبش کو روتا دیکھ سارہ نے بات چینج کی
"پتا نہیں یار کہا چلی گئی ہے عنایہ کی فیملی بھی اتنی پریشان ہے ہم ان کے گھر گئے تھے تو پورا گھر سنسان پڑا تھا ایسا لگ رہا تھا گھر میں کوئی ہے ہی نہیں
عنایہ کی امی بھی اتنی اداس تھی بس اسی کی باتیں کرتی رہی پورا گھر گم سم ہوگیا ہے"
آبش اداس لہجے میں بولی
ہاں یار یہ تو ہے عنایہ کے بغیر تو ہمیں بھی مزہ نہیں آرہا جیسے کسی کی کمی رہ گئی ہو"
سارہ بھی اپنے آنسو کا گلہ گھوٹتی ہوئی بولی
کیوں کے اگر سارہ رو پڑی تو آبش بھی رو پڑے گی اور اگر آبش روی تو اسکو چپ کرانا بہت مشکل ہو جائے گا
"عنایہ جہاں بھی ہو اللّه اسے خوش رکھے"
آبش دعا مانگتی ہوئی بولی
"امین"
سارہ بھی ہم سنگ کہنے لگی
_________
صبح کی کھنکتی ہوئی روشنی کھڑکی کو چیرتی ہوئی عنایہ پر پڑھ رہی تھی روشنی کی وجہ سے عنایہ کی نیند میں خلل پیدا ہوا
آہستہ آہستہ آنکھیں کھولی تو خود کو آبیان کے حصار میں پایا
آبیان عنایہ کو ایسے پکڑ کر۔ سورہا تھا جیسے عنایہ ابھی بھاگ جائے گی
عنایہ کا دماغ بیدار ہوا۔ تو رات کا منظر عنایہ کی آنکھوں میں آیا
رات کا۔ سوچ کر۔ ہی عنایہ سرخ پر گئی
عنایہ نے تھوڑی سی نظر اٹھا کر آبیان کو دیکھا تو وہ سورہا تھا
عنایہ کو یاد آرہا تھا کیسے اس نے اپنی شدت پنسدی دیکھای اپنی محبت کا صبوت دیا اور بہت پیار سے آبیان نے عنایہ کو اپنا بنایا
"نظر نا لگانا"
عنایہ انہی سوچو میں تھی کہ آبیان نے۔ کہا
آبیان عنایہ سے پہلے ہی جاگ گیا تھا
عنایہ آبیان کے ہاتھ پر سورہی تھی اس لیے آبیان نے ہٹانا مناسب نہیں سمجھا
کہی اسکی نیند ہی خراب نا ہوجاے اس ڈر سے وہ ایک گھنٹے سے لیٹا ہوا تھا اور عنایہ کے اٹھتے ہی سونے کی ایکٹنگ کی تاکہ عنایہ کو فیل نا . ہو . کہ وہ جاگ رہا ہے
عنایہ نے گھبرا کر اپنا رخ موڑا
"ارے ارے دیکھ لو میں نے کب منا کیا ہے تمہارا ہی ہو"
آبیان کو اسکا منہ پھیرنا پسند نہیں آیا اس لیے بولا اور ایک جھٹکے سے خود کے قریب کیا
عنایہ آبیان کے سینے سے لگی
"پہلی صبح مبارک ہو میری جان"
آبیان عنایہ کے کان میں کہنے لگا
عنایہ اسکا مطلب سمجھ کر آبیان کے سینے میں چھپ کر آنکھیں بند کرلی
آبیان اسکی حرکت دیکھ کر دل سے مسکرا دیا
*****
آج آبش کی شادی تھی وہ کافی ڈری ہوئی تھی سارہ کب سے اسکو حوصلہ دے رہی تھی
آبش کی امی نے بھی آبش کو بہت سمجھایا جس سے وہ کافی بہتر ہوئی
سارہ اور آبش کی کچھ کزن آبش کو لے کر پارلر گئی
"یار صرف لڑکی ہی کیوں اپنا گھر چھوڑ کر جاتی ہے لڑکے چھوڑے تو پتا چلے کہ اپنا سب کچھ چھوڑنا کتنا مشکل کام ہے"
آبش مکیپ کرتے ہویے بول رہی تھی
"تو چپ کر کے مکیپ کروا اب اپنا منہ نہیں کھولنا"
سارہ ڈانٹتی ہوئی بولی
پورا راستہ سر کھایا ہے میرا میں کیسے رہو گی کیسے ایڈجسٹ ہونگی
ایسا لگ رہا ہے پلوٹو بھیج رہے ہو اسے جہاں انسان نہیں عجیب مخلوق رہتی ہو کوئی حد ہی ہوگئی
سارہ کا برداشت کا۔ مادہ تھوڑا کم ہے اس لیے آبش کو سنا دی
جس سے یہ فائدہ ہوا کہ آبش چپ ہوگئی
اسکن کلرڈ کے شرارے میں ملبوس جس کی شرٹ میرون کلر کی تھی۔۔۔ہلکے کام کی شرٹ میں میرون ہی ڈوپٹے جس کے کارنرز پہ اسکن کلر کی لیسس۔سے کام کیا گیا تھا۔۔ڈوپٹہ نفاست سے ٹکائے۔۔۔وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی۔۔جبکہ اسکے تھیکے نین نقوش آج ہیوی میک اپ کی وجہ سے مزید نکھر گئے تھے۔۔۔لبوں پہ دراک ریڈ لپ سٹک سجائے وہ بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
"بہت کمال لگ رہی ہے یار بہت خوبصورت لگ رہی ہے"
سارہ نے آبش کو دیکھ کر بے اختیار کہا
"آج تو حسن بھائی نے فلیٹ ہی ہوجانا ہے"
آبش کی کزن آبش کو دیکھتی ہوئی ہستے ہویے بولی
آبش انہیں آنکھیں دیکھانے لگی
"اللّه تجھے نظر بد سے بچاے"
سارہ دل سے دعا دینے لگی
"اللّه تجھے بھی خوش رکھیں اور عنایہ کو بھی"
آبش آنکھوں میں آنسو لاے کہنے لگی
"یہاں رونا دھونا مت شروع کردینا گاڑی آگئی ہے چلو"
آبش کی کزن کہنے لگی
سارہ آبش کو چادر اڑھاتی ہوئی باہر لے۔ جانے لگی
*****
ہال میں آبش نے اپنے ماں باپ کے ساتھ انٹری کی
آبش جب اندر آئ تو حسن مہبوت سا رہ گیا اسے دیکھ کر
"اتنا بھی حسین کوئی ہوسکتا ہے"
بے خیالی میں حسن کے دماغ میں خیال آیا
وائٹ کرتا شلوار میں اپنے بھورے بال جیل سے سیٹ کیے ، وہ بہت گریس فل لگ رہا تھا ۔۔۔۔سفید کلر اس پہ ہمیشہ سے ہی جچتا تھا لیکن آج وہ مزید کھل رہا تھا۔۔۔۔اسکے کھرے نین نقوش اسکی خوبصورتی میں مزید اضافہ کررہے تھے جبکہ اپنے گلابی لبوں پہ مسکراہٹ سجائے وہ بہت پرکشش نظر آرہا تھا
آبش اپنے ماں باپ کے ہاتھ سکتی سے پکڑے ہوئی تھی
اسٹیج پر پہنچ کر آبش کے ابو نے اپنا ہاتھ آبش کے ہاتھ سے نکال کر حسن جو انکے آنے پر کھڑا ہوگیا تھا حسن کے ہاتھ میں دے دیا
آبش سمبھل کر اوپر چڑھی
دونو اسٹیج پر بیٹھے دونو ہی بہت خوبصورت لگ رہے تھے
دونو ایک دوسرے کے لیے مقمل تھے کچھ دیر میں نکاح ہوا اور کچھ ہی دیر میں آبش احمد سے آبش حسن بن گئی
کھانا کھا کر رخصتی کا شور ہوا
آبش کو سب نے مل کر رونے دھونے کے بعد رخصت کیا
آبش کے تو آنسو ہی نہیں روک رہے تھے سب نے مل کر آبش کو چپ کرا کر حسن کی گاڑی میں بھیٹھایا
*****
سعد عنایہ کا چیک اپ کرنے آیا تھا جب وہ عنایہ کو چیک کر رہا تھا تو آبیان کے موبائل میں کال آئ تو آبیان بات کرنے باہر چلا۔ گیا
"میں اب اور نہیں کر سکتی میں آبیان کو سب سچ بتا دونگی"
آبیان کے جاتے ہی عنایہ نے سعد کو کہا
"پر وہ جو حال کریگا اسکا کچھ سوچا ہے کیسے بچہ جائے گا"
سعد کی بھی شرط پوری ہوگئی تھی اس لیے وہ بھی چاہتا تھا کہ آبیان کو سب سچ پتا۔ چل جائے
پتا۔ نہیں اسی بات کا۔ ڈر ہے کہ وہ کیا ریکٹ کریگے ان کا۔ تو غصہ بھی خطرناک ہے"
عنایہ اپنا۔ گلہ تر کرتے ہویے بولی
"کل کا ہی دن بچا ہے پرسو تو جس ڈاکٹر کی بات کی تھی وہ ضرور اس بارے میں پوچیگا"
سعد عنایہ کو وضاحت سے بتانے لگا
"کچھ بھی ہے میں انہیں جلد ہی بتا دونگی"
عنایہ اپنا فیصلہ سناتے ہویے بولی
"کل تک کا ٹائم ہے میں مار کھانے کے لیے تیار ہوجاؤ"
سعد ہستے ہویے بولا
"ہاں ضرور برداشت تو کرنا ہے"
عنایہ ہستے ہویے بولی لیکن دل میں ڈر بھی تھا۔ کہ وہ سچ جانے کے بعد کیا کریگا
___________
"سب سہی ہے نا"
آبیان روم میں آیا تو سعد چیک اپ کر چکا تھا
آبیان سعد کو دیکھتے ہویے بولا
"ہاں سب. سہی ہے لیکن اب ڈاکٹر ہی بتاے گے اور پھر تم ہمیں بتاؤ گے"
سعد آبیان کو بتاتے ہویے آخری بات دل میں کہی
"سہی ہے میں چلتا ہو"
سعد نے جانے میں ہی افيت سمجھی
کل رات ڈاکٹر آجانا چاہیے ورنہ....
آبیان سعد کو جاتا ہوا دیکھ کر بولا
"ہاں ہاں کل آجاے گا"
سعد کہتے ہویے نکل گیا
"دوستی بہت مہنگی پڑنے والی ہے یا اللّه میری حفاظت کرنا"
سعد سیڑیاں اترتے ہویے دل میں بولا
سعد کے جانے کے بعد آبیان عنایہ کے پاس آیا
جو کہ سعد کے جانے کے بعد بیڈ پر لیٹ گئی تھی
عنایہ کو لگا آبیان سعد کے ساتھ ہی جائے گا لیکن آبیان دروازے سے ہی اندر آگیا
عنایہ آبیان کو دیکھ کر بیٹھ گئی
"سویٹ ہارٹ تم ٹھیک ہو"
آبیان عنایہ کے پاس بیٹھتے ہویے بولا
"ہاں میں ٹھیک ہو"
آبیان عنایہ کو دیکھتی ہوئی بولی
"تم ٹھیک ہو تو آج رات ہم ڈنر پر چلتے ہے"
آبیان عنایہ کی گود میں سر رکھتے ہویے بولا
عنایہ نے آبیان کو گھورا
"اب تمہاری گھوری سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا بےبی"
آبیان عنایہ کے ہاتھ اپنے سینے۔ پر بھاندتا ہوا بولا
"آپ ہٹے گے تو میں تیار ہونگی نا"
عنایہ اپنا ہاتھ نکالنے کی سعی کرتی ہوئی بولی
اہاں یہ چنج کیسے آیا تم تو بہت۔ تمیز دار ہوگئی ہو میری شدت نے تمھیں اتنا بدل دیا ہے"
آبیان آنکھ دباتے ہویے بولا
عنایہ اسکی بات سن کر سرخ ہوگئی تھی
"ایسی کوئی بات نہیں ہے بس منہ سے اب یہی نکلتا ہے اب نہیں بولنگی آپ کو کیڑے نکالنے ہے تو"
عنایہ روٹھے پن سے بولی
"تمہارا جو دل کرے وہ بولو میں ہر چیز میں خوش ہو چلو تم تیار ہوجاؤ پھر چلتے ہے"
آبیان اسکی گود سے اپنا۔ سر ہٹاتے ہویے بولا
"سہی ہے آپ باہر ویٹ کرے میں چنج کرکے آتی ہے"
عنایہ اٹھتے ہویے بولی
آبیان باہر چلا۔ گیا
تو عنایہ سوچ میں پڑ گئی
کہ اب آبیان کو کیسے بتاؤ آج کی ہی رات ہے میرے پاس ڈنر کے بعد بتاتی ہو اللّه مجھے ہمت دینا"
عنایہ نے۔ حتمہ فیصلہ سوچا
اور چنج کرنے چلی گئی
*****
آبیان روم سے باہر اکر لاؤنج میں بیٹھاتھوڑی دیر موبائل استعمال کر۔ رہا تھا کہ آبیان کو سوچ ای کہ وہ اب عنایہ کو اسکی فیملی سے۔ ملوا دینگآ
اگر۔ ڈاکٹر نے۔ کچھ کہا تو میں عنایہ کو باہر ملک لے۔ جانے سے۔ پہلے عنایہ کو ملوا دونگا
یہی سب سوچو میں تھا کہ عنایہ نیچے آتی نظر ای
بلیو کلر کی گھیر دار فروک سر پر بلیو کلر کا اسکاف نفاست سے سیٹ کیا ہوا چوری دار پاجامے میں کوئی چھوٹی سی ڈول لگ رہی تھی
تم ہمیشہ اتنی پیاری لگتی ہو یا صرف آج لگ رہی ہو"
آبیان اسکو چہرتا ہوا بولا
"میں ہمیشہ سے ہی بہت پیاری ہو"
عنایہ ایک ادا سے بولی
اسکی ادا پر آبیان مسکرا دیا اور اسکے گھیرے ڈمپل نمودار ہویے اور عنایہ اسکے ڈمپل دیکھ کر مسکرا دی
"مجھے پلاسٹک سرجری کروانی ہے"
عنایہ آبیان کو دیکھتی ہوئی بولی
"کیوں"
آبیان عنایہ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا
مجھے بھی ڈمپل چاہیے"
عنایہ نخرے پن سے۔ کہنے لگی
یہ سن کر آبیان کا جاندار قہقہ گونجا
"پاگل"
آبیان کہتے ساتھ عنایہ کو اپنے ساتھ لگاے گاڑی کی طرف بڑھا
"مجھے ڈمپل بہت۔ پسند ہے یار "
عنایہ آبیان کے ساتھ چلتی ہوئی بولی
"تم میرے لے لو"
آبیان عنایہ کو گاڑی میں بھٹھاتا ہوا بولا اور۔ خود ڈرائیونگ سیٹ پر اکر بیٹھا
"نہیں وہ اپکا ہے نا مجھے اپنا چاہیے"
عنایہ آبیان کو دیکھتی ہوئی بولی
عنایہ کی باتیں ہی نرالی تھی
آبیان کو حیرت ہو رہی تھی کہ یہ لڑکی ڈمپل کے پیچھے پاگل ہے
"میں بھی تو تمہارا ہوں"
آبیان شوخیہ بولا
"ہاں پر..
عنایہ سوچنے کے انداز میں بولی
"ہاں ہاں کیا پر مطلب میں تمہارا نہیں ہو یہی کہنا چاہ رہی ہو نا "
آبیان اپنی مسکراہٹ دباتے ہویے بولا
"نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا"
عنایہ نظریں نیچی کرتے ہویے بولی
"تو پھر کیسا کہا"
آبیان سیریس موڈ کرتے ہویے بولا
"میں آپ کی ہو"
عنایہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی ہوئی بولی
اسکی بات سن کر آبیان دل سے خوش ہوا
"ایک بار میری طرف دیکھ کر کہو"
آبیان ایک ہاتھ سٹیرنگ پر ہاتھ رکھے کہنے لگا
"میں آپ کی ہی ہو"
عنایہ آبیان کی طرف دیکھ کر آہستہ سے بولی
"ہاے دل خوش ہو گیا"
آبیان خوشی میں تیز چلانے لگا
"آرام سے چلاے"
آبیان کی سپیڈ دیکھ کر عنایہ نے گھبرا کر کہا
"جیسا میری جان کہے"
آبیان سپیڈ سلو کرتے ہویے بولا
عنایہ اسکی بات پر شریر سی مسکرائی اور باہر کے نظارے دیکھنے لگی
ایک شاندار ریسٹورانٹ میں انکی گاڑی رکی
آبیان نے پہلے ہی ٹیبل ریزرو کروائی ہوئی تھی
میوزک کی دھن کے ساتھ دونوں کا کھانا سرو ہوا
عنایہ کو چائنیس زیادہ پسند تھا۔ تو ہر ڈیش اسی کی ای
آبیان نے عنایہ کے لئے اسکے پسند کا کھانا کھایا
"اچھا ایک بات تو بتاؤ"
آبیان پلیٹ میں چمچ گھوماتے ہویے بولا
"جی بولے"
عنایہ پلیٹ سے نظریں ہٹا۔ کر بولنے لگی
"تمھیں میں زیادہ پسند ہو یا چائینس"
عنایہ کو کھانے کے ساتھ انصاف کرتا ہوا پوچھا
"چائینس"
عنایہ اپنی مسکراہٹ دباتی ہوئی بولی
"مجھے تمہاری یہ بات بلکل پسند نہیں ای ویسے"
آبیان نورملی کہنے لگا
"اچھا۔ مجھے چائینس کے ساتھ آپ بھی پسند ہے"
عنایہ پلیٹ پ جھکے جھکے کہنے لگی
"یہ بات تم نے کچھ اچھی کہی"
آبیان ہستے ہویے بولا
"یا اللّه اس ہسی کو قائم رکھنا سچ سن نے کے بعد بھی"
عنایہ اسکو ہستا ہوا دیکھ کر دل سے دعا کرنے لگی.