"اسنے رشتہ بھیج دیا تو کیا کرونگی میں مجھے شرط لگانی ہی نہیں چاہیے تھی کیا کردیا میں نے"
سارہ دو دن سے یہی سوچ رہی تھی گھر آکر سیدھا اپنے کمرے میں گئی اور لیٹتے ہوئے سوچنے لگی
سارہ کا گھر اتنا بڑا نہیں تھا نہ اتنا چھوٹا تھا دو ہی بھائی بہن تھے ایک بڑا جو اپنے ابو کے ساتھ شاپ پر جاتا تھا اور ایک وہ خود تھی
اتنے میں روم کا دروازہ نوک ہوا اور سارہ اپنی سوچوں سے باہر آئی
"جی آجائیں"
"بیٹا تیار ہوجاؤ لڑکے والے آئے ہیں تمہیں دیکھنے کے لیے میں تمھیں بتانا بھول گئی تھی ہمارے دهور کے رشتے دار ہیں صرف سلام دعا کرکے کمرے میں آجانا"
سارہ کی امی اسے بتانے لگی پہلے تو رشتے کا نام سن کر ہی اسکی سانس اٹک گئی کہ وہ رشتہ لے۔ کر آگیا لیکن جب دهور کا رشتہ بتایا تو سانس بھال ہوئی کہ وہ کہاں سے رشتے دار ہوگا
"جی امی آئ"
سارہ انھیں جواب دے کر واشروم میں گھس گئی
جب سارہ فریش ہو کر باہر آئی تو اسکاے بلیو کلر کی فراک اور چُوری دار پاجامہ کے اوپر وائٹ نیٹ کا دوپٹہ اوڑھے سارہ اینے میں خود کو آخری ٹچ اپ دے رہی تھی
جب وہ نیچے آئ تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئی
سامنے سلمان اپنے روب سے بیٹھا تھا سارہ کو دیکھ کر پہلے تو نظروں نے پھیرنے سے انکار کردیا لیکن سب کا خیال کر کے ایک دل جلا دینے والی مسکراہٹ اچھال کر آنکھ مار کر سلمان نے نظریں پھیر لی
سارہ کا دل کیا اسے زمین میں غار دے لیکن ہاے مجبوری
"آو یہ میری بیٹی سارہ"
سارہ کی امی سارہ کو دیکھتی ہوئی بولی
"ماشااللہ کتنی پیاری بیٹی ہے کیا کرتی ہو بیٹا"
سلمان کی امی پیار سے پوچھنے لگیں
"جی پڑھ رہی ہو"
سارہ نے دھیرے سے کہا
"ماشاءاللہ یہ تو بہت اچھی بات ہے"
"جا سارہ بھائی کو دیکھ کر آؤ"
سارہ جی کہ کر وہاں سے چلی گئی
"بہن ہمیں آپ کی بیٹی بہت پسند آئ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو گھر گھر جا کر لڑکیوں کو دیکھتے ہے اور پھر نکس نکال کر کھڑے ہو جاتے ہے"
سلمان کی امی سے سیدھی بات کی
"جی میں سمجھ سکتی ہوں"
سارہ کی امی نے کہا
"چلیں آپ بتادیں کب میں اپنی بہو کو لینے آو"
سلمان کی امی ہنستے ہوئے کہنے لگی
"اتنی جلدی مطلب ابھی تو.."
سارہ کی امی کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کہے
"آپ سوچ لیں بھائی صاحب سے مشورہ کرلیں پھر بتادیں کوئی مسلہ نہیں ہے"
سلمان کی امی نے ہستے ہویے کہا.
آبیان کو آج لوٹنے میں کافی دیر ہو گئی تھی اسکی کچھ میٹنگ تھی تو بارہ بجے گھر پر آیا اور آتے ساتھ عنایہ کے کمرے میں گیا آبیان سونے سے پہلے عنایہ سے سب پوچھ کر سوتا کہ اسنے کھانا کھایا اسے کوئی مشکل تو نہیں ہے جب سے عنایہ بیمار ہوئی تھی تب سے آبیان روز اسکے کمرے میں آتا اور اس سے سارے جہاں کی باتیں کرتا لیکن عنایہ اب بھی صرف ہاں ہو میں جواب دیتی
"آج کافی لیٹ ہوگیا میں یار بہت کام تھا اور...."
آبیان عنایہ کے کمرے میں آتے ہی شروع ہوگیا جب اسے بیڈ پر سر پکڑے پایا تو زبان کو بریک لگا
"کیا ہوگیا ہے عنایہ تم ٹھیک ہو"
آبیان فوراً اسکے پاس آیا
"مجھے چکر آرہے ہیں"
عنایہ سر پکڑے کہنے لگی
"اچانک کیا ہوگیا تمہیں "
آبیان سچ میں بہت پریشان ہوگیا تھا
آبیان کو پریشان دیکھ کر اسے اپنا پلان سکسس ہوتا ہوا نظر آرہا تھا عنایہ نے پہلے ہی دیکھ لیا تو کب سے گیلری میں کھڑی تھی کہ آبیان کی گاڑی اندر آئ اسے پتا تھا آبیان اس سے ملنے آئےگا تبھی پوری تیاری کر کے بیٹھی تھی
"چلو ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں"
آبیان عنایہ کو سہارا دیتے ہویے بولا
"ابھی کون کھلا ہوگا ایک منٹ تم یہیں بیٹھو میں ڈاکٹر کو بلا کر آتا ہو"
آبیان عنایہ کو بیڈ کراون سے ٹیک لگاتے ہویے بولا اور فون کان پر لگاے باہر چلا گیا
"یار سعد جلدی آجا ایک ایمرجنسی ہے پتا نہیں عنایہ کو کیا ہوا ہے"
آبیان کان پر فون لگاے سعد سے کہنے لگا
"چل میں آتا ہو"
سعد نے فوراً ہامی بڑھ لی
"تھوڑا سا پانی پی لو"
آبیان دوبارہ کمرے میں آکر عنایہ کے پاس پانی کے جگ میں سے پانی بڑھ کر عنایہ کی طرف گلاس بڑھاتے ہویے بولا
عنایہ نے اسکے ہاتھ سے تھوڑا سا پانی پیا اور دوبارہ بیڈ سے ٹیک لگا لی
دس منٹ بعد ڈاکٹر آیا
"کیا ہوگیا بھابھی کو"
سعد ملازمہ کے زریعے اندر آیا اور کہنے لگا
"تو ڈاکٹر ہے میں ڈاکٹر ہوں حد ہے"
آبیان تپ کر بولا
"اچھا اچھا غصہ نہیں کر میں دیکھتا ہو"
سعد عنایہ کا چیک اپ کرنے لگا
"یار ہسپتال لے کر جانا پڑیگا انکی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے"
سعد چیک اپ کرکے بولا
"کیا ہوا ہے عنایہ کو"
آبیان ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگا
"یہ ٹیسٹ کے بعد پتا چلیگا ابھی تو بھابھی کو اٹھا کر ہسپتال چل ہم رسک نہیں لے سکتے"
سعد کھڑا ہوتا ہوا بولا
عنایہ نڈھال سی ہورہی تھی
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تو کیا کہنا چاہ رہا ہے"
آبیان کو سچ میں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
"تو چل میں سب بتاتا ہو میں تیرا نیچے ویٹ کر رہا ہو"
سعد کہ کر روم سے باہر نکل گیا۔
اور آبیان عنایہ کی طرف بڑھا
"کیا کہ رہے تھے ڈاکٹر"
عنایہ مدہوشی کی ایکٹنگ کرتی ہوئی بولی
"میں چل لونگی"
آبیان کا ارادہ بھانپ کر عنایہ نے جلدی میں کہا
"میں اٹھا رہا ہوں تو کوئی مسلہ ہے اور اگر ہے بھی تو اپنے تک رکھو"
آبیان عنایہ کو چادر اڑھا کر گود میں اٹھاتے ہویے بولا
عنایہ جھنپ سی گئی
ہسپتال پوچھے سعد نے سارے نکلی ٹیسٹ کرواے
ایک دن نکل گیا انھیں ہسپتال میں
"تو اب تو بتادیں عنایہ کو کیا ہوا ہے اب مجھے کچھ ہورہا ہے یار تو بس ٹیسٹ ہی کر رہا ہے اسکے"
سعد نے ایک دن کے لیے ایڈمٹ کردیا تھا کہ جب تک ٹیسٹ نہیں ہوتے تمہیں کہی نہیں جانا
"بیٹھ تسلی سے میں بتاتا ہوں"
سعد کے چہرے پر سنجیدگی چاہی ہوئی تھی
عنایہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی
"آپ کے پاس وقت نہیں ہے "
ڈاکٹر عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا
"ڈاکٹر یہ کیسے ہو سکتا ہے"
آبیان ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے بیچ میں بولا
"یہ سچ ہے اور آپ کو جلد یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی ان کے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے ہم اسے ہسپتال میں ایڈمٹ کر رہے ہیں"،
"ایسا نہیں ہو سکتا ڈاکٹر آپ سہی سے چیک اپ کریں"
آبیان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے
"ہم چیک اپ کر چکے آپ کی بیوی کا اس لیے بتا رہیں ہے"
سعد ایک پروفیشنل طریقے سے آبیان اور عنایہ کو بتا رہا تھا
"یہ کیسے ممکن ہے ٹیسٹ کی رپورٹ غلط ہوگی تو ایک اور بار ٹیسٹ کروا"
آبیان جیسے آپے سے باہر ہورہا تھا
"نہیں میں اسے کہیں اور لے کر جاؤ گا باہر ملک لے کر جاؤنگا" وہاں اسکا بہتر طریقے سے علاج ہوگا"
ہاں یہ ٹھیک ہے میں ہر ملک میں کوشش کرونگا ہم یہاں نہیں رہینگے چلو عنایہ"
آبیان خودی سوچتے ہویے عنایہ کو اٹھاتے ہویے بولا
❤❤❤
"ارے رکو صبر تو کرو یار"
سعد آبیان کو جاتا ہوا دیکھ کر بولا سعد کو اپنا پلان فیل ہوتا ہوا نظر آرہا تھا
"کیا ہے بیوی ہے وہ میری ایسے ہی چھوڑ دوں میں اسکو میں اپنی جان پر کھیل کر بھی اسکو بچاؤں گا"
آبیان نے تیش میں آکر ساتھ پڑا گلاس اٹھا کے پوری قوت سے دیوار پر دے مارا
"میں یہاں بھابھی کا پورا علاج کروائوں گا تم کیوں فکر کر رہے ہو میں یہاں بیسٹ سرجن کو جانتا ہو اور میں خود بھی تمہاری بیوی کا دیہان رکھونگا میری بھی بھابھی ہے وہ اور جتنا دکھ تمھیں ہورہا ہے اسکا اندازہ مجھے نہیں ہے لیکن میں اس دکھ کے برابر کا شریک ہوں نیکسٹ ویک ڈاکٹر آے گے تم خود بات کرلینا"
سعد نے آبیان کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا۔ اسکی حرکت سے سعد دل میں ڈر ضرور رہا تھا اگر اسے پتا لگتا میں نے مذاق کیا ہے تو کہیں گلاس کی طرح مجھے بھی نا توڑ دے
"اگر اسنے کوئی حل نہیں بتایا تو میں عنایہ کو اگلے دن ہی لے جاؤں گا تمہاری بات اس لیے سن رہا ہو کیوں کے تم ایک ڈاکٹر ہو اگر عنایہ کو کچھ ہوا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا تمہارا یہ ہسپتال بند کروادونگا جو کرنا ہے کرو جسے بلانا ہے بلاؤ لیکن عنایا مجھے پہلے کی طرح چاہیے آئی سمجھ"
آبیان بھوکے شیر کی طرح دھارا اور اپنے بال مٹھی میں جکڑے اسکی حالت بن پانی میں ٹرپتی مچھلی کی طرح تھی سب کو ناچنے والا خوف میں مبتلا کرنے والا آج کچھ در با در ٹھوکریں کھا رہا ہے خود خوف میں مبتلا ہے۔ آبیان نے خود کو حصر حد تک مضبوط رکھا تھا لیکن پھر بھی کہیں وہ کمزور پڑرہا تھا اسلئے ضبط کے باوجود بھی آبیان کی آنکھیں حد درجہ لال ہورہی تھیں
"ہاں ٹھیک ہے میں بلاتا ہوں ڈاکٹر کو اگر اسکا علاج نہ نکلا تو تم بھلے لے جانا"
سعد نے سکون کا سانس لیتے ہوئے بولا
عنایہ بھی اسکا تیش دیکھ کر ڈر گئی تھی کہ جب اصلیت سامنے آئے گی تو وہ اسکا کیا حال کریگا؟؟ لیکن بدلہ تو لینا تھا اسے وہ بھی تڑپے میری طرح لیے یہی سوچ کر ووب خاموش رہی۔
"اور ہاں ایک اور بات اسکا پورا ٹریٹمنٹ گھر پر ہوگا عنایہ ہسپتال میں نہیں رہیگی میں عنایہ کو گھر لے جارہا ہوں ڈاکٹر کو وہیں بھیجنا"
آبیان کہ کر عنایہ کی طرف بڑھا اور اسکو گود میں اٹھا کر باہر لے گیا بنا سعد کا جواب سنے
"ہف شکر مان تو گیا کہاں پھس گیا میں اسکو پتا چل گیا تو سب سے پہلے میرا ٹریٹمنٹ کریگا"
سعد وہیں کرسی پر بیٹھے دونوں ہاتھ سر پر رکھے سوچ رہا تھا
*****
"کچھ لوگ سارہ کو دیکھنے آئے تھے دهور کے رشتےدار ہے مجھے تو لڑکے کی ماں اور لڑکا دونوں اچھے لگے اب آپ معلومات کروا لیں"
سارہ کی امی اپنے شوہر سے کہ رہیں تھیں جو کھانے کے بعد اپنے روم میں بک پڑھ رہے تھے
"تم نے کیا کہا ان سے"
سارہ کے ابو نے بک بند کرتے ہویے پوچا
"میں نے کہا کہ میں مشورہ کرکے بتاونگی"
وہ بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولیں
"سارہ سے پوچھا تم نے"
"نہیں پہلے آپ معلوم کروایں اسکے بعد پوچھونگی"
سارہ کی امی بیڈ شیٹ سہی کرتے ہوئے بولیں
"چلو سہی ہے میں صبح معلوم کرواتا ہوں"
"جی ٹھیک ہے اب لائٹ بند کردیں پلیز"
وہ بیڈ پر لیٹتی ہوئی بولی
"جو حکم آپکا"
وہ ہستے ہویے بولے اور روم کی لائٹ بند کی
*****
یونی میں ٹیسٹ چل رہے تھے تو غلطی سے سارہ پڑھ رہی تھی یا یوں کہا جائے کہ پڑھ کم اور دو دو منٹ بعد موبائل کو دیکھ رہی تھی اتنے میں اسکا موبائل بجا
"ہیلو جی کون بات کر رہا ہے"
سارہ نے انجان نمبر دیکھ کر پہلے تو نہیں اٹھایا پر بار بار بجنے پر اکتاتے ہوئے اٹھایا
"اتنی جلدی بھول گئیں اپنے ہونے والے شوہر کو؟؟ صبح ہی تو ملے تھے"
سلمان شوخیہ ہوا
"کون ہو بھائی غلط نمبر ملا لیا ہوگا"
سارہ کو لگا کوئی رونگ نمبر ہے
"تم مس سے مسز سلمان بننے والی ہو اور اتنی جلدی بھول گئیی"
سلمان اپنے بالوں میں ہاتھ پھرتے ہویے بولا
"تم سمجھتے کیا ہو میں انکار کردونگی اس رشتے سے"
سارہ غصے سے بولی
"میں نے تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کی ہے اور نہ ہی میں نے تمہیں گن پائنٹ پر رکھا ہے میں نے تمھیں بہترین طریقے سے پرپوس کیا اور تب بھی فورس نہیں کیا تھا تم نے شرط رکھی میں نے شرط جیت لی پھر تمہارے گھر رشتہ بھیجا ہے"
سلمان سنجیدہ لہجے میں سارہ کو وضاحت کے ساتھ بتانے لگا
"جو بھی ہے مجھے نہیں پسند یہ رشتہ"
سارہ ہچکچاتے ہویے بولی
"بےبی اب کوئی آپشن نہیں ہے تمہارے پاس ماننا تو پڑیگا آگر تم نے نہ مانا تو میں تمھیں اٹھا کر لے جاؤنگا پھر آگے تم سوچ سکتی ہو"
سلمان کو پتا تھا یہ کہنے سے سارہ مان جائے گی سلمان ہر گز یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ ڈر کر یا زبردستی ہاں کرے تبھی سارہ کو پرپوس کیا تھا اور آخر میں اسکا سرخ ہونا اس بات کی وضاحت تھی کہ وہ خوش ہے بس اسکا اکڑ پن ہے جسکی وجہ سے سلمان کو یہ سب کہنا پڑا
"تم چاہ رہی ہو نہ کہ میں تمھیں اٹھا کر ایک سنسان گھر میں لے جاؤں پھر دو تین دن رکھ کر تمہارے ساتھ رہ کر پھر تمھیں گھر چھوڑوں"
سارہ کو چپ پا کر سلمان دوبارہ بولا
"بھاڑ میں جاؤ"
سارہ نے کہ کر فون رکھ دیا
"سوری میری جان میرے پاس آجاؤ پھر منا ہو لونگا تمھیں"
سلمان نے جان دار قہقہ لگایا اور فون دیکھ کر کہا
❤❤❤
"تم دعا میں کیا مانگتی ہو"
عنایہ نے جب نماز پڑھ کر دعا میں دس منٹ لگاے تو آبیان نے اپنے ہی خیال میں پوچھا
"بہت کچھ مانگتی ہوں ایک وہی تو ہے جو ہماری ساری دعائیں قبول کرتا ہے اور سب کچھ جانے کے باوجود بھی ہماری باتیں سنتا ہے ہم اتنی غلطیاں کرتے ہیں کھبی بھی ہماری روزی نہیں چھینتا لیکن جب ناراض ہوتا ہے تو سجدہ چھین لیتا ہے دنیا کا سارا سکون ہی اس سجدے میں ہے ہم ایک قدم اللّه کی طرف بڑھاتے ہیں اللّه دو قدم بڑھاتا ہے ہماری طرف ایک دفع تو ہر انسان کوایک بار کوشش ضرور کرنی چاہیے "
عنایہ آبیان کو سمجھانے لگی
"میں نے اللّه کا ساتھ بہت پہلے چھوڑ دیا تھا میں نے اللّه سے بہت مانگا تھا پر مجھے کچھ نہیں ملا"
آبیان زمین کو گھورتے ہوئے بولا
" گناہ کا راستہ چھوڑ دیں اللّه آپکا ساتھ ضرور دینگے"
آبیان کو اس طرح کہتے پا کر عنایہ میں کہنے کی ہمت آئ
"تمہارے ساتھ کیا مسلہ ہوا ہے"
عنایہ کے اندر پتا نہیں کہاں سے ہمدردی آئ عنایہ اسکا مرجھایا ہوا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی اس سے رہا نہیں گیا تو پوچھ بیٹھی
"تم آرام کرو میں بعد میں آتا ہو"
آبیان کہتے ساتھ باہر نکل گیا
آبیان نے سب باتیں اپنے اندر عرصے پہلے دفن کردیں تھی وہ کیسے ان کو زندہ کر سکتا تھا
*****
"انہوں نے تاریخ مانگی ہے"
آمنہ اپنے شوہر کو بتانے لگی
"اتنی جلدی کیا ہے"
آبش کے ابو حیرت سے پوچھنے لگے
"حسن کو واپس اپنی جاب پر جانا ہے پھر واپسی کچھ سالوں بعد ہوگی اس لیے وہ چاہتیں ہیں کہ شادی ہوجائے انہوں نے مگنی اتنے عرصے نہیں رکھنی ہے اور پڑھائی ہم خود کروا لینگے ویسے سہی بھی ہے اتنی ووت مگنی رکھنا بھی اچھا نہیں ہے جب کرنا چاہتے ہیں تو کردیتے ہیں آج نہیں تو کل کرنی تو ہے"
آمنہ تفصیل سے سمجھانے لگی
"پھر بھی چھوٹی ہے میری بیٹی"
آبش کے ابو آمنہ کو سمجھانے لگے
"اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے اور کرنی تو ہے آج نہیں تو کل آپ بتاے کیا کہتے ہیں"
آمنہ مشورہ لینے لگی
"ہاں بات تو سہی ہے چلو پوچھ لینا لیکن ان کو کہنا کہ چھ ماہ بعد ہی کرینگے اور اگر لیٹ کرسکتے ہیں تو بھلے کرلیں"
آبش کے ابو نے سوچتے ہویے جواب دیا
"چلیں میں بات کرتی ہو
******
آبیان کی ماں آبیان کے پیدا ہوتے ہی بیماری میں مبتلا ہوگئیں تھیں انہوں نے آبیان کو وقت ہی نہیں دیا تھا جب سے وہ پیدا ہوا تھا تب سے ایک ملازمہ سے ہی پل رہا تھا آبیان کا باپ بھی سارا دن اپنی بیوی کے پیچھے ہی ہوتا ہر جگہ علاج کروایا لیکن وہ ٹھیک نہ ہو سکی اور دو سال بعد آبیان کی ماں کا انتقال ہوگیا آبیان اپنی ماں کو پہچانے لگا تھا آبیان صرف تھوڑی دیر ہی اپنی ماں کے پاس بیٹھتا تھا۔
آخری ٹائم آیا تو آبیان نے آخری بار اپنی ماں کو دیکھا دو سال کا بچہ کتنا سمجھ سکتا تھا کچھ عرصے بعد آبیان کے باپ نے دوسری شادی کرلی شادی کے بعد ماں کے لمس سے تو محروم تھا پھر باپ سے بھی ہوگیا کیوں کے اسکے باپ کے پاس اپنی اولاد کے لیے ٹائم نہیں تھا آبیان نے بہت دعائیں مانگی کہ مجھے میری ماں لوٹا دو وہ چھ سال کا بچا بلک بلک کر روتا پورے گھر میں اپنی ماں کو ڈھونڈتا باپ کو ڈھونڈتا جو اسے تنہا کتنے ہی دن اکیلے چھوڑ دیتے اپنی نئی بیوی کے سات۔آبیان نے کتنی ہی بار ڈر کر اپنی ماں کو بلایا لیکن جانے کے بعد کوئی لوٹا ہے جو وہ لوٹتیں آبیان نے وقت کے ساتھ نماز بھی چھوڑ دی اور پھر ایک ایسی دنیا میں قدم رکھ دیا جہاں صرف بربادی ہی تھی۔۔ وہ دیکھتے دیکھتے سمگلنگ کا باپ بن گیا
❤❤❤
آبیان اپنے کمرے میں آیا سوچ کا تسلل لے کر
"میں ایسا نہیں کرسکتا میرے ساتھ کون سا اچھا ہوا ہے میں بھی تو کتنا رویا تھا مجھ پر کسی کو رحم نہیں آیا تو میں کسی پر رحم کیوں کھاؤ"
آبیان سوچتے سوچتے بیڈ پر ڈھ گیا
"اگر اللّه نے مجھ سے عنایہ کو چھین لیا تو "
یہ سوچ ہی ہلا دینے والی تھی بےشک اللّه ہر چیز پر قادر ہے آبیان جانتا تھا کہ اسکے بس میں کچھ نہیں ہے سب وہی کرنے والا ہے یہی سوچتے سوچتے آبیان کی آنکھ لگ گئی
عنایہ کو یقین آگیا تھا کہ آبیان اس سے بہت محبت کرتا ہے کینسر کا سن کر آبیان کی حالت دیکھنے لائک نہیں تھی دو دن سے آبیان عنایہ کا بہت خیال رکھ رہا تھا اسکا کھانا پینا یہاں تک کہ ڈریس بھی آبیان نکال کر دیتا پھر ایک رات عنایہ کو پیاس لگی تو عنایہ آبیان کے کمرے کے سامنے سے گزرنے لگی تو آبیان جائے نماز پر بیٹھا رو رو کر دعا کر رہا تھا سناٹے کی وجہ سے آبیان کی آواز صاف آرہی تھی آبیان بس ایک ہی دعا بار بار کر رہا تھا کہ عنایہ کی بیماری دور ہوجاے
"عنایہ کو شفا دیدو مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے میں تیرا بہت گناہ گار بندہ ہوں میرے گناہ کی سزا عنایہ کو مت دینا اسکو ٹھیک کردو!!! یہ ہم دونوں کا معملہ ہے وہ بےگناہ ہے سزا مجھے دو،،، مجھے میرے درد سے ترپاؤ لیکن یہ زخم اسکے جسم پر نا ہو "
آبیان رو رو کر بس ایک ہی بات کر رہا تھا
عنایہ اسکو دیکھ کر رک سی گئی کہ کوئی مجھے اس طرح بھی مانگ سکتا ہے
"شاید نہیں"
عنایہ کی اندر کی آواز نے کہا
عنایہ نے فیصلہ کیا کہ وہ آبیان کو سیدھے راستے پر لاے گی
اگلے دن آبیان صبح اٹھ کر جوگنگ کے بعد کام کرکے عنایہ کے پاس ناشتے کی پلیٹ لایا عنایہ کے کپڑے نکالے عنایہ چینج کرکے آئ تو آبیان نے عنایہ کے بال بناے اپنے ہاتھ سے ناشتہ کروایا پھر خدا حافظ کہ کر چلا گیا آبیان عنایہ کی آنکھوں میں نہیں دیکھتا تھا آبیان کو ڈر تھا کہ کہیں وہ ہمت نہ ہار جائے آبیان چاہتا تھا اسے یقین ہوجائے میری محبت کا اور عنایہ مجھ سے خوش رہے۔۔۔ آفس میں بھی وہ اسی کو سوچتا رہتا اللہ کے آگے نا جھکنے والا آج اسکے تمام فرائض پورے کر رہا ہے ڈیلی دارل امان میں کھانا اسکے آدمی پھونچاتے آبیان نے خاص انھیں دعا کا حکم دیا تھا تاکے اسکی
عنایہ جلد سے اسکے پاس واپس لوٹ آئے کتنے ہی دارل امان میں وہ لاکھوں بھجوا چکا تھا کیا فائدہ اس دولت کا جب جان ہی جسم میں نا ہوگی جو عنایہ کے دم سے تھی اسی نے تو اس وحشی کو تھوڑا بہت انسان بنایا تھا۔۔
ایسے ہی رات میں آبیان کھانا کھلا کر اپنے روم میں چلا گیا
روم میں آکر پھر سے آبیان ٹوٹ جاتا تھا جب جب اسے یاد آتا کہ عنایہ کو کینسر ہے تب تب آبیان کی آنکھیں حد درجہ لال ہوجاتیں
بہت ضبط کرنے والا مرد تھا آبیان اپنی مشکلیں اپنے اندر ہی رکھتا تھا مرد مضبوط تبھی بنتا ہے جب وہ بہت سی تکلیفوں سے گزرا ہو
آبیان سوچ ہی رہا تھا کہ اب کب ڈاکٹر آئے گا اور سہی سے چیک اپ کریگا
اتنے میں روم کا دروازہ کھلا آبیان نے نظر اٹھا کر دیکھا تو عنایہ کھڑی تھی
عنایہ آبیان کی آنکھیں دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ وہ کس حالت میں ہے عنایہ کو آبیان کا پاسٹ تو نہیں پتا تھا لیکن اسے یہ ضرور پتا تھا کہ آبیان اس سے پیار کرتا ہے اور اسی وجہ سے عنایہ اسکو برای سے باہر لاے گی
"تم مجھ سے محبت کرتے ہو نا"
عنایہ زمین پر بیٹھتے ہوئے آبیان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھنے لگی
"تمہیں کیا لگتا ہے؟؟"
آبیان الٹا اس سے پوچھنے لگا
"جس طریقے سے تم نے مجھے بند کیا تھا نہ اس حساب سے تو نہیں لگتا"
عنایہ رونی شکل بناتے ہوئے بولی
"میں مانتا ہو میں نے غلط کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تم سے پیار نہیں کرتا بس تمھیں کھونے سے ڈرتا ہوں تم میری زندگی کی روشنی ہو میری آنکھوں کی چمک ہو تم ہوتی ہو تو مجھے سکون آتا ہے میں بہت ڈر گیا تھا جب تم یہاں سے نکلیں بس تمھیں پانے کے لیے میں نے یہ قدم اٹھایا اور تمھیں پتا ہے جب تم بیمار ہوئیںں تھی تب میں نے اس کمرے سے سارے جانور کیڑے سب باہر نکال دیے روم پورا خالی ہوگیا ہے میرے غصے کی وجہ سے تمھیں تکلیف ہوئی میرا خیال تھا وہ وجہ مٹ جائے گی تو تم ٹھیک ہوجاؤ گی تمہاری طبیعت بھی ٹھیک رہے گی"
آبیان عنایہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ایک جذب سے بولا
"اگر تم مجھ سے اتنا ہی پیار کرتے ہو تو یہ کام چھوڑ دو"
آبیان کی نرمی کی وجہ سے عنایہ نے بولا
"اگر میں یہ کام چھوڑ دونگا تو تم مجھے کھبی چھوڑ کر نہیں جاؤ گی "
آبیان کو ڈر تھا۔ جیسے وہ چلی جائے گی اس لیے اپنے خدشہ کی بنا پر پوچھا
"نہیں میں کہیں نہیں جاؤں گی آگر تم یہ سب چھوڑ دیتے ہو تو"
عنایہ آبیان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی
"ٹھیک ہے میں یہ سب کام چھوڑ دونگا بس تم سہی ہوجاؤ ایک بار"
آبیان نے عنایہ کاے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی
"میں ٹھیک ہوں میر میرا مطلب ہے کہ ٹھیک ہو جاؤ نگی"
عنایہ نے جلد بازی میں بول دیا جب آبیان نے سر اٹھا کر عنایہ کی طرف دیکھا تو عنایہ کو احساس ہوا وہ اپنی بچائے جال میں پھنس چکی ہے۔۔
"اللّه تمیں ٹھیک کردیے"
آبیان عنایہ کودونوں ہاتھ سے زمین سے اٹھاتے ہوئے بیڈ پر بھیٹاتے ہوئے بولا اور خود عنایہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا.
"یہ کیا کرہے ہو"
عنایہ تو گھبرا ہی گئی اسکے عمل پر
"میں نے تمھیں آج تک کچھ کیا ہے بغیر تمہاری مرضی کے جو اب کرونگا جب تک تم خود راضی نہیں ہوگی تب تک میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کرونگا بس تھوڑا سکون چاہتا ہوں وہ مل سکتا ہے"
آبیان عنایہ کو تفصیل بتاتے ہوئے عنایہ کی طرف دیکھتے ہوئے اجازت لینے لگا
عنایہ نے دھیرے سے سر ہاں میں ہلایا
آبیان عنایہ کا ہاں دیکھ کر مسکرایا اور عنایہ کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کرلی
آج پہلی بار آبیان کو سکون آیا تھا آج اسکی جان اسکے پاس تھی اور خوش تھی آبیان جلد ہی سوگیا تھا
عنایہ نے دیکھا کہ آبیان سو گیا ہے تو عنایہ بے خیالی میں آبیان کا چہرہ دیکھ رہی تھی تیکھی ناک گلابی ہونٹ غصے کا شبہ بھی نہ تھا اور جاگتے ہویے تو ناک پر رہتا ہے یہ سوچتے ہی چہرے پر مسکان آئ اور دھیرے سے اپنے ہونٹ آبیان کے ماتھے پر رکھے
"نکھری لے ہیرو"
عنایہ کہتے ساتھ مسکرای پھر اپنے ہاتھوں پر نگاہ گئی اپنے ہاتھ آبیان کے ہاتھوں میں قید دیکھے عنایہ نے دھیرے دھیرے نکالنے کی کوشش کی کہ کہیں اٹھ نہ جائے لیکن نہیں نکال پائی تھوڑی کوشش کے بعد بھی نہ ہوا تو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئی
******