حوادث کی ایسی چلی تند آندھی، کمر جھک گئی
گرانباری زخمہائے عبادت سے دیر و حرم کی کمر جھک گئی
روشنی بُجھ گئی اور صحرائے ظلمت کے بے پیڑ سائے میں انسان گم ہو گیا
آنکھ حیرت کے دریا میں ڈوبی تھی ڈوبی رہی کمر جُھک گئی
کلی پھول بننے سے پہلے کٹی شاخ سے کانٹا بن کر گری خاک پر
جھپکتی پلک پر دمکتے ہوئے شبنمی آنسوؤں کی نظر کیا اٹھی کمر جھک گئی
ہجوم مصائب نے ہر موڑ ہر گام پر اس طرح روکا ٹوکا
ابھی تک نہ ہو پائی تھی جو سیدھی کمر جھک گئی
٭٭٭
سر بفلک کوہساروں پر/ سے چڑھتے / اُترتے زینے
برفانی ماحول سے گھبراتے، ڈرتے زینے
شور مچاتی، خنک ہواؤں سے پنجہ لڑاتے
پگڈنڈی کے سر اپنا الزام دھرتے زینے
لے جاتے اونچائی پر کبھی رہگیروں کو
اور کبھی ان کے ساتھ پستی میں گر کے بکھرتے زینے
صحرا صحرا، ذرے ذرے، کی خشکی نچوڑ کر
دریا دریا گھاٹ گھاٹ سے گیلا پانی بھرتے زینے
٭٭٭
ماخذ:
لنک
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید