ان سے اُمّید پاسداری قول
واہ، زود اعتباریاں دل کی
جانتے پہچانتے بھی، بے تعلق بے نیاز
اس دیار اجنبی میں کتنے ہیں اغیار لوگ
وہ کافر ادا جس پہ ایمان قرباں
خدا جانے کیوں آج یاد آ رہا ہے
منتظر نگاہوں کو منزلوں کا سودا ہے
بے چراغ راہوں پر گامزن اندھیرا ہے
کچھ نکھرا ہوا روپ ہے برسات سے پہلے
کچھ چمکی ہوئی دھوپ ہے برسات سے پہلے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑتی ہوں
وہ شہرِ سنگ کیا آباد کرتا
آسماں سے ابر برسا رات بھر
آنسوؤں کو کوئی ترسا رات بھر
جمی تھی گردِ کدورت دلوں کی بستی میں
کسی کی یاد بھی آئی تو سوچ کر آئی
تمھارا دیکھنا آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
مجھے اندھیرے میں اک روشنی نظر آئی
مجھ تک آتے آتے خالی مینا بھی پیمانہ بھی
کتنا مہنگا ہے یارو، یہ ساقی کا یارانہ بھی
شیشوں کے گھر میں رہ کر کھوئے ہیں کس نے ہوش و حواس
پتھر سے پھوڑے سر اپنا، ہے کوئی دیوانہ بھی ّ
باتوں باتوں میں ٹھنی بات کی بات
ایسی بگڑی، نہ بنی بات کی بات
خود اتارے گی کسے تھا معلوم
بال کی کھال یہی بات کی بات
ڈرتا تھا جس کے تصور سے ضیا
چل گئی چال، وہی بات کی بات