تڑپ سجدوں کی ہے ہر در کے پیچھے
کبھی اس در کبھی اُس در کے پیچھے
زمانہ کارواں بنتا گیا ہے
کسی رہزن، کسی رہبر کے پیچھے
خلل خوابوں میں کیسا آ گیا ہے
بگولے اٹھ رہے ہیں گھر کے پیچھے
فصیلِ شہر تک لے آیا تھا عزم
پلٹتے بھی تو کیا ہم ڈر کے پیچھے
نہ جانے کیوں تعاقب میں ابھی تک
اندھیرے ہیں شہہ انور کے پیچھے
یقینِ آبلا پائی سلامت!
پھر اگ آئے ہیں کانٹے گھر کے پیچھے
ضیا صاحب! چلو گے بچ کے کب تک
کھڑی ہے موت ہر پتھّر کے پیچھے
٭٭٭