وہ تصور میں جو تصویر بنا بیٹھا ہے
لگتا ہے ماتھے کی تحریر بنا بیٹھا ہے
کرنے جاتا ہوں اُسی سے گلۂ بیخوابی
میرے خوابوں کی جو تعبیر بنا بیٹھا ہے
ختم ہوتا ہی نہیں یہ سفر منزل شوق
راستہ پاؤں کی زنجیر بنا بیٹھا ہے
اے ضیا، بزم ِ سخن میں یہ تماشہ دیکھا
کوئی غالب تو کوئی میر بنا بیٹھا ہے
٭٭٭