میری دنیا نے نگاہوں سے گرایا ہے مجھے
اے فلک، تُو نے بہت سر پہ اٹھایا ہے مجھے
پھاڑ کر کپڑے نکل آیا ہوں باہر گھر سے
ہوش اب میکدۂ زیست میں آیا ہے مجھے
دور تک نجد کے صحرا میں نہیں کوئی درخت
دھوپ میں جائے اماں میرا ہی سایہ ہے مجھے
نفع و نقصان میں جو فاصلہ تھا ہو گیا طے
دل نے کھویا ہے اگر درد نے پایا ہے مجھے
کوئی آدم گری عہدِ محبّت دیکھو
اپنا آتا ہے نظر وہ جو پرایا ہے مجھے
خود پہ لے آیا ہوں ایمان یہی کیا کم ہے
اب یقیں اپنے سوا کس پہ خدایا ہے مجھے
یہ تری جلوہ نمائی، یہ ترا حُسن نظر
میں نمودار ہوا ہوں تو چُھپایا ہے مجھے
زندہ رہنا تو ہے اس بات کی کیا بحث ضیا
میں خود آیا ہوں یہاں یا کوئی لایا ہے مجھے
٭٭٭