حُسن کے رُخ پر آنکھ گڑی ہے
چھوٹا منھ اور بات بڑی ہے
نوٹوں کے انبار لگے ہیں
چاندی کی دیوار کھڑی ہے
کون کسی کا دکھ بانٹے گا
سب کو اپنی اپنی پڑی ہے
تم نے مجھ سے پھیر لیں آنکھیں
کیسا لمحہ، کیسی گھڑی ہے
پیاسی دھرتی آگ بُجھا لے
مدھماتی ساون کی جھڑی ہے
نور سحر کا رستہ روکے
سج دھج کر کیوں رات کھڑی ہے
بکھرا بکھرا، رشتہ رشتہ
ٹوٹی ٹوٹی، کڑی کڑی ہے
مصلوبی ہے جس کا حاصل
وہی ضیا انمول گھڑی ہے
٭٭٭