حُسن کی بارگاہ کیا کہیے
عشق سے رسم و راہ کیا کہیے
ہم نے سورج کو کر دیا ننگا
تب و تاب نگاہ کیا کہیے
تختۂ دار پر چڑھا تو ہُوا
سرخرو روسیاہ کیا کہیے
دل شاعر کو زندہ رکھتی ہے
داد و تحسیں کی چاہ کیا کہیے
کوئی مر مر کے یوں بھی کرتا ہے
زندگی کو تباہ کیا کہیے
خود پرستی و پست کرداری
ہوسِ عز و جاہ کیا کہیے
بے گناہی کا کچھ جواز بھی ہے
نہیں کوئی گواہ کیا کہیے
دھوپ میں پاؤں جلتے ہیں دن بھر
رات کو روسیاہ کیا کہیے
پُرسش ِحال کو وہ آئے ضیا
ان سے کہیے تو آہ کیا کہیے
٭٭٭