ہوئی صبح، پائے گئے بے سہارے
وہ جو رات بھر دیکھتے تھے سہارے
جئے کوئی کب تک کسی کے سہارے
بڑے جان لیوا ہیں جھُوٹے سہارے
سہاروں پہ جینا بھی جینا ہے کوئی
ہمیں ایک دن مار دیں گے سہارے
اندھیرے سے باہر نکل کر تو دیکھو
تمنا نے کیا کیا اُجالے سہارے
زمانے میں دیں گے خوشی کیا کسی کو
سہارے ہیں خود غم کے مارے سہارے
سفینہ ڈبو ہی دیا بیچ دریا
بڑے تھے مگر نکلے چھوٹے سہارے
صلیبوں پہ رہزن چڑھا دیں گے ہم کو
اگر مل گئے رہبروں کے سہارے
یہ کشتی شب و روز کی بہتی جائے
ہمارے سہارے، تمھارے سہارے
نظر کش، دل آرا ضیا کس قدر ہیں
کراں تا کراں پھیلے، بکھرے سہارے
٭٭٭