راہزن راہنما ہو جیسے
نا خدا موج بلا ہو جیسے
محفلِ شعر میں پڑ جاتی ہے جان
داد بھی کوئی دوا ہو جیسے
پھیر لی آنکھ بھری محفل میں
میں نے کچھ مانگ لیا ہو جیسے
پھر دل سوختہ میرا شب بھر
صفتِ شمع جلا ہو جیسے
دیکھ کر بھی نہیں دیکھا ان کو
پردہ آنکھوں پہ پڑا ہو جیسے
گلیوں کوچوں میں کوئی پھرتا ہے
کھو کے دل ڈھونڈ رہا ہو جیسے
یاد کرتا ہوں تجھے شام و سحر
تو مجھے بھُول گیا ہو جیسے
دل شکستہ ہوں، کوئی ٹُوٹ کے پھر
شاخ سے پتّہ اگا ہو جیسے
چلتا بازار میں دیکھا ہے ضیا
کھوٹا سکّہ بھی کھرا ہو جیسے
٭٭٭