دل ناتواں تو کھلونوں سے بہل جاتا ہے
کوئی بھی سانچہ ہو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے
کارواں وقت کا تھمتا نہیں، تھمتا ہے اگر
غازۂ یاد رخ زیست پہ مل جاتا ہے
واپس آتا نہیں ’درباسا‘ کا جیسے کوئی شاپ
تیر اک بار کماں سے جو نکل جاتا ہے
شمع کے جلنے پہ ہوتا ہے اُجالا لیکن
رشک کی آگ میں پروانہ تو جل جاتا ہے
طائر فکر کی پروازِ سرافراز نہ پوچھ
آسمانوں سے بھی آگے یہ نکل جاتا ہے
کسے معلوم کہ سہما ہوا دل سینے میں
سُن کے شہنائی کی آواز مچل جاتا ہے
فصل گل آتی ہے گلشن میں لگاتی ہوئی آگ
کوئی دیوانہ سوئے دشت نکل جاتا ہے
آمد و رفت کا دنیا میں لگا ہے میلہ
آج آتا ہے ضیا، جو وہی کل جاتا ہے
٭٭٭