کیا ساون بھادوں کی جھڑی ہے
توبہ کی صورت بگڑی ہے
انگ انگ تو بول رہی ہے
گوری کیا خاموش گھڑی ہے
سب کچھ دل نے سہا لیکن اب
سر پہ مصیبت آن پڑی ہے
کانٹے بوئے، پھول اگائے
عشق عجب جادو کی چھڑی ہے
غزلیں کہیں اور نظمیں لکھیں
کہنے کی بات اب بھی پڑی ہے
سایہ کہاں مجنوں کو ڈھونڈے
ریگستاں کی دھوپ کڑی ہے
دھند میں سارا کمرہ کھویا
باہر شب بھر برف پڑی ہے
بھیج کوئی پھر میر و مرزا
پھر اردو پر بھیڑ پڑی ہے
ٹھٹھر رہی ہے ساری دلّی
شملہ میں وہ برف پڑی ہے
آنکھیں کھول ضیا، دیکھ اٹھ کر
دستک دروازے پہ کھڑی ہے