گلفشاں موج جوئبار آئی
تشنگی کا لباس اتار آئی
واہ وا، ذوقِ گلشن آرائی
خوں چھڑکتی رگ بہار آئی
موت نے آ کے در پہ دی دستک
زندگی آج ساز گار آئی
قہقہوں میں نہ چیخیں کھو جائیں
ساتھ لے کر خزاں بہار آئی
دلکشی بیتے موسموں کی نہ پوچھ
یاد کیوں ان کی بار بار آئی
خلشِ نوکِ خار کا احساس
کیا چمن زار میں بہار آئی
کوئے قاتل کو کر گئی باطل
وہ حقیقت جو سوئے دار آئی
اس جبیں پر ہے سورجوں کی چمک
سجدہ گا سے جو داغدار آئی
کیا قفس میں وہی چمن کی ہوا
لے کے پیغام نو بہار آئی
اہلِ دل دشمنوں سے پوچھیں تو
دوستی کس کو ساز گار آئی
دن کی رُسوائیوں سے ڈرتی ہوئی
رات در پردہ پردہ دار آئی
یاد اس ہموطن کی جانے کیوں
ایک بار آئی، بار بار آئی
سر چھُپاتے کہاں اندھیرے ضیا
عرش سے روشنی ہزار آئی
٭٭٭