پرِ ہُما اک مہان پر ہے
پرندہ اونچی اڑان پر ہے
زمیں کو پامال کرنے وا لا
دماغ جو آسمان پر ہے
اتر کے دھرتی پہ آ نہ جائے
وہ دھوپ جو سائبان پر ہے
تعاقب رادھیکا میں کب تک
وہ صبح جو شام بان پر ہے
کبھی تو آئے گی میرے دل میں
وہ بات جو ہر زبان پر ہے
وہ لمحہ لمحہ غم محبت
جو شکوہ شکوہ زبان پر ہے
بگڑ کے جب سے گیا ہے کوئی
بنی ہوئی دل پہ، جان پر ہے
قدم حدِ لامکاں میں لیکن
نظر ابھی تک مکان پر ہے
کھُلے گا تو حرف و صوت ہی سے
جو قفلِ ابجد زبان پر ہے
سمندروں سے کہاں بُجھے گی
وہ تشنگی جو اٹھان پر ہے
ضیا یہ کیسی ہے بدگمانی
شک اس کو میرے گمان پر ہے
٭٭٭