ہواؤں نے امڈتے بادلوں کو گدگدایا ہے
درونِ سینۂ گیتی اُتر کر مور ناچا ہے
تکلف بر طرف، تا ب تماشہ کس میں ہے، ورنہ
دو آنکھوں پر پڑا ہے جو وہ پردہ کوئی پردہ ہے
تمنا نے لگا دی آگ جو بجھتی نہیں یارب
بلا نوشی کا یہ عالم، مگر دل اب بھی پیاسا ہے
بدلتے موسموں کا یہ شکست و ریخت کا عالم
مگر کیا ٹوٹتا جو دو دلوں میں غم کا رشتہ ہے
پرستش چڑھتے سورج کی تو کرتے ہیں سبھی، لیکن
اٹھا کر آنکھ کس نے ڈوبتے سورج کو دیکھا ہے
نہ کچھ تیری خبر ہے اور نہ کچھ اپنا پتہ مجھ کو
بتا، کس کام کی پھر تو تماشہ گاہِ دنیا ہے
زوال آمادگی، تکمیل توفیق تمنا کی
اترتے پانیوں میں چڑھتی ندی کیا تماشہ ہے
جمود و کسل کا عالم، نفیِ زندگی ٹھہرا
نہ دل میں کوئی ارماں ہے، نہ سر میں کوئی سودا ہے
الگ چلتے کناروں کو جو اک رستے پہ لے آئے
کوئی ایسا بھی طوفاں، اے سکونِ سطح دریا ہے
مرے اندھے کنویں میں دوُر کی آواز تھی گویا
بھری محفل میں ان کا پوچھنا – تُو بھی ضیا کیا ہے
٭٭٭