وہ آرتی بجلی کی اتارا نہیں کرتے
جلتے ہیں مگر جگنو اجالا نہیں کرتے
انمول ہے جو شے اسے بیچا نہیں کرتے
دیوانے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے
جو پیشِ نظر رکھتے ہیں منزل کو شب و روز
پیچھے کی طرف مُڑ کے وہ دیکھا نہیں کرتے
پلکوں پہ سجا لیتے ہیں پیاس اشکوں کی ہم لوگ
چڑھتے ہوئے دریا کو تو رُسوا نہیں کرتے
سائے پہ ہم آ بیٹھتے ہیں دھوپ سے جل کر
کیا ہے پسِ دیوار، کریدا نہیں کرتے
جلتے ہوئے سورج کی طرف دیکھنا ہے جرم
جلتے ہوئے سورج کو تو دیکھا نہیں کرتے
چلنے سے انھیں کام ہے، چلتے ہیں مسافر
رستہ کہاں جاتا ہے، یہ سوچا نہیں کرتے
ممکن نہیں باہر کو وہ اندر سے سمجھ پائیں
اندر سے جو باہر کا تماشا نہیں کرتے
زخموں پہ مرے چارہ گرو، رکھو نہ مرہم
یہ زخم ہیں وہ جِن کا مداوا نہیں کرتے
داغوں کے نشانات ابھر آئے ہیں دل پر
اب سر مرے قدموں پہ جھکایا نہیں کرتے
میں چُپ ہوں ضیا، اس لیے غیروں سے وہ مل کر
کہتے ہیں بُرا مجھ کو، وہ اچھا نہیں کرتے