تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے
کیوں نہ کر جاتا بھری محفل میں دل تنہا مجھے
شاخ در شاخ اب کوئی ڈھونڈا کرے پتّہ مجھے
میں تو خود ڈرتا ہوں، آندھی نے نہیں توڑا مجھے
لغزش پا نے دیا ہر گام پر دھوکا مجھے
تا درِ منزل تُو ہی اے جذب دل پہنچا مجھے
صورت آئینہ حیرت سے وہ تکتا رہ گیا
آئینہ خانے میں جس نے غور سے دیکھا مجھے
اے کہ تیری رونمائی، میری ہستی کی دلیل
ہو کے خود روپوش تُو نے کر دیا پیدا مجھے
چھین کر ساقی سے پیتا ہوں کہ دنیا دیکھ کر
چھین کر لے جائے گی مجھ سے کہاں صہبا مجھے
ایک جادہ، ایک منزل، ہمقدم ہمدم مگر
میں نہیں سمجھا تجھے، تُو بھی نہیں سمجھا مجھے
حادثوں کی پے بہ پے یلغار سے دل تنگ ہے
میں چلا، اے مست جام و سُبو لینا مجھے
آنکھ اصنام خیالی نے جو کھولی صبحدم
پتھروں کے شہر میں کھویا ہوا پایا مجھے
مار ہی ڈالے گی اک دن کاروبار زیست میں
تنگ دامانی تری، اے وسعت دنیا مجھے
جلوۂ در پردہ کی تھی چشم بینا کو تلاش
کون اب جلوے کو ڈھونڈے، مل گیا پردا مجھے
دے کے دل خوش تھا کہ میں نے پا لیا راز حیات
حیف، ارزانیِ غم، مہنگا پڑا سودا مجھے
عمر بھر ملتی رہی تیری عدالت سے نہ پوچھ
میری نا کردہ گناہی کی سزا کیا کیا مجھے
برگ گل پر رقص شبنم کا یہ منظر اے ضیا
اب تو ہر قطرے میں آتا ہے نظر دریا مجھے
٭٭٭