کہو وقت کے کوہ سے اب وہ سرکے
ہواؤں کو لایا ہوں مُٹھی میں بھر کے
کھُلا چھوڑ کر میں گیا تھا، جو پلٹا
تو تھے بند دروازے میرے ہی گھر کے
سُناتی رہے شام اپنی کہانی
ابھی تو پیام آ رہے ہیں سحر کے
جبینوں کی تقدیر سجدے ہی سجدے
کہیں نقشِ پا تو کہیں سنگِ در کے
نہیں میں تو ہے کون شایانِ رحمت
گناہوں سے توبہ کی میں نے ہی ڈر کے
وہی اوج پرواز کی پستیاں ہیں
وہی حوصلے مرغ بے بال و پر کے
وہ دل، درد جس کا ہے آپ اپنا درماں
اٹھائے گا احسان کیا چارہ گر کے
اب الجھی ہوئی زلفیں سلجھا رہے ہیں
بہت خوش تھے مجھ کو پریشان کر کے
خلاؤں کے تنہا اندھیروں میں مجھ کو
پکارا ہے میری انا نے بکھر کے
یہ دیوارِ حائل کی جادوگری ہے
نہ ہو تم اُدھر کے ، نہ ہیں ہم اِدھر کے
بغیرِ بصیرت بصارت نہیں کچھ
ضیا سب تماشے ہیں حسن نظر کے
٭٭٭