وہ پہاڑی تھا، مت ہوا کس کا
بھات کھاتے ہی چُپکے سے کھسکا
پا بھی لیتا تو کرتا کیا درماں
دل زر دار، درد مفلس کا
اُس کا مندر تو من کے اندر ہے
پوچھتا پھرتا ہوں پتہ جس کا
تجھے ہرجائی لوگ کیوں نہ کہیں
تُو کبھی اُس کا ہے، کبھی اس کا
تھا ارسطو کوئی مرا دل بھی
بھر کے پیالہ جو پی گیا بِس کا
درد بن کر جو دل میں بیٹھا ہے
حادثہ ہے نزاکت حس کا
سوتے میں جو چُرا لیا تھا ضیا
یہ غزل ہے جواز ا سی کِس کا
٭٭٭