جب مجھے میرے غم کی خبر ہو گئی
اڑ گئی نیند اور آنکھ تر ہو گئی
رات کے خواب دیکھا کیا عمر بھر
آنکھ کھولی تو سمجھا سحر ہو گئی
کور چشمی تو دنیا کی مشہور تھی
پردہ اٹھا تو وہ دیدہ ور ہو گئی
درد بڑھ کر ہوا آپ اپنی دوا
زخم کو حاجت چارہ گر ہو گئی
حیف، وہ اشک پلکوں پہ جو تھم گیا
ہائے، وہ آہ جو بے اثر ہو گئی
ان گنت دھڑکنیں دل کی سُنتا رہا
یہ طوالت اگر مختصر ہو گئی
وہ دیا لے کے آئے ہیں آخر ضیا
میرے مرنے کی ان کو خبر ہو گئی
٭٭٭