ٹُوٹا ہوا دل رقص میں مستی کی طرح ہے
اجڑا ہوا یہ شہر، تو بستی کی طرح ہے
ساون کی گھٹا اڑ کے جو آئی ہے چمن میں
میخانہ بکف شاہِد مستی کی طرح ہے
کھائے ہی چلا جاتا ہے، ہچکولے بہ ہر موج
دل ڈوب کے ابھری ہوئی کشتی کی طرح ہے
آکاش سمجھتا ہوں جسے ہے وہی پاتال
اب میری بلندی بھی تو پستی کی طرح ہے
کعبہ بھی صنم خانہ بھی ملتا ہے اسی میں
آرائشِ دل حُسن پرستی کی طرح ہے
چھیڑا ہے جسے شوخ نگاہی نے دم صبح
وہ گیت ضیا، نغمۂ ہستی کی طرح ہے
٭٭٭