ہوا زنجیروں میں جکڑی گئی ہے
بڑی آوارہ تھی، پکڑی گئی ہے
پرندے بھی، درندے بھی پریشاں
کہاں جنگلات کی لکڑی گئی ہے
در و دیوار پر بُنتی تھی جالے
نہ جانے وہ کہاں مکڑی گئی ہے
ہوا اب جیل کی کھانی پڑے گی
ہماری چوری تو پکڑی گئی ہے
بدلتے موسموں سے کوئی پوچھے
کب آم آیا ہے، کب ککڑی گئی ہے
کلائی تک پہنچ جائے سلامت
بہن کی بھائی کو رکھڑی گئی ہے
ازل میں جو اٹھائی تھی ضیا نے
اتر کر سر سے وہ گٹھڑی گئی ہے
٭٭٭