گلریز و بادہ بار گھٹا ساونوں کی ہے
اے دست شوق، خیر کہاں دامنوں کی ہے
ریکھائیں لکشمن کی نہ ہیں بان رام کے
سیتاؤں پر نگاہ مگر راونوں کی ہے
ہر سمت زہر اُگلتا یہ ماحول بے شجر
شہروں کے آس پاس ضرورت بنوں کی ہے
خاموش شمع منزل مقصود ہے، نہ پوچھ
جو شکل رہبروں کی وہی رہزنوں کی ہے
خود اپنی آگ ہی میں ستی بھسم ہو گئی
کیا تاب ضبط و صبر یہ شو کے گنوں کی ہے
جھکنے سے عار، ٹوٹنے کا شوق ہے جنھیں
پھندوں سے آشنائی انھیں گردنوں کی ہے
آئنے کی تو بات ہی کچھ اور ہے ضیا
پتھر بھی توڑ دے وہ نظر دشمنوں کی ہے
٭٭٭