بہار میں جو گریباں کے تار ہو کے چلے
وہ لمحے، شمع شب انتظار ہو کے چلے
مزہ تو جب ہے کہ میرے چمن کے آنگن میں
ہوائے خلد، نسیم بہار ہو کے چلے
جنوں کا جشن منایا بگولوں نے اٹھ کر
فصیل شہر سے جب ہم فرار ہو کے چلے
جو سر اٹھا نہ سکے بارِ نا مرادی سے
وہی تو در سے ترے کامگار ہو کے چلے
اُنہی کی خیرگی ہے وجہ کورِ چشم دہر
وہ شعلے طور کے جو آشکار ہو کے چلے
ضیا، فلک سے ستارے تو اشک پلکوں سے
شمار کرتا رہا، بے شمار ہو کے چلے
٭٭٭