آئینۂ دل حسن توا زن کی طرح ہے
یہ بھی تو ہوا خواہِ وفا اُن کی طرح ہے
آواز سی جو ٹُوٹنے کی آتی ہے دل کے
بے لفظ مہک بہکی ہوئی دھُن کی طرح ہے
بکھرا ہوا، سمٹا ہوا، جانا نہ کسی نے
جو دائرہ ہے اصل میں وہ شن کی طرح ہے
سمجھو تو ہے باطل، جو نہ سمجھو تو حقیقت
تہذیب رواں، رفتہ تمدن کی طرح ہے
پتّوں سے گزرتی ہے ہوا سہمی ہوئی سی
لکڑی کو جو کھا جائے یہ اُس گھن کی طرح ہے
دھرتی پہ جنم لینے ہی وا لا ہے کوئی کرشن
پھر دل میں مرے وسوسہ ارجُن کی طرح ہے
تشہیر ِ وفا کر کے ضیا، ہم ہوئے رسوا
اب اُن کا تعلق بھی تعاوُن کی طرح ہے
٭٭٭