وہ ایک پتّہ جو شاخ شجر پہ تنہا ہے
اسی کے قدموں پہ سر آندھیوں کا جھکتا ہے
حصار جسم سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
یہ آب و خاک کا پیکر عجب تماشا ہے
تمام منظر عالم نگاہ کا ہے فریب
زمیں بھی وہم ہے اور آسماں بھی دھوکا ہے
اسی کو میں لیے بیٹھا ہوں بند مٹّھی میں
ہوا کا جھونکا جو گھر میں مرے در آیا ہے
کوئی مسیح، نہ منصور ہے زمانے میں
صلیب و دار کا لیکن ہنوز چرچا ہے
میں اپنی لاش لئے در بدر پھرا تو مگر
کسی نے پوچھا نہ تیرا بھی کیا ارادا ہے
کہاں اندھیرے میں کھو جاتا ہے نہ جانے ضیا
جو سایہ دھوپ میں ہر لہجہ ساتھ رہتا ہے
٭٭٭