چھوڑا ہے جو اسلاف نے دھن کم تو نہیں ہے
ہن کم تو نہیں ہےک یہ ورثۂ تہذی ب
کیا حشر اٹھاتے ہیں ہوا و ہوس و حرص
دھرتی کے مٹانے کو گگن کم تو نہیں ہے
امید زیادہ کی تھی، مایوس ہوں ورنہ
اس شہر میں کچھ قدر سخن کم تو نہیں ہے
سورج کی تمازت ہو کہ ہو برف کی خنکی
آنکھوں کی نمی، دل کی جلن کم تو نہیں ہے
اتنی بھی ہے کیا مدح و ثنا زہرہ جبیں کی
با لا نظرو، غنچہ دہن کم تو نہیں ہے
خورشید کہ مہتاب، نمودار ہو کوئی
اب کالی گھٹاؤں کی گھُٹن کم تو نہیں ہے
بکتا ہے ضیا اشکوں کی قیمت یہاں اخلاص
بازار میں دھوکے کا چلن کم تو نہیں ہے
٭٭٭