آستاں سے تیرے، اپنا سر اٹھا لے جاؤں گا
ایک دن یہ راہ کا پتھّر اٹھا لے جاؤں گا
زندگی کی رہگزر ہموار یا دشوار ہو
بارِ غم ہر حال میں دل پر اٹھا لے جاؤں گا
میری آوارہ خرامی کے نشاں رہنے بھی دو
میں انھیں گلیوں میں پھر آ کر اُٹھا لے جاؤں گا
گردِشِ افلاک تھم جائے گی، رک جائے گا وقت
دشت وحشت میں جب اپنا گھر اُٹھا لے جاؤں گا
صبح کا تھا منتظر، آئی، تو ہوں اس فکر میں
اب کہاں میں رات کا بستر اُٹھا لے جاؤں گا
رہ گیا ہے اب یہی اک میرے حصّے کا ضیا
دل جو ہے ہر درد کا خوگر، اُٹھا لے جاؤں گا
٭٭٭