وہ بد نصیب تھا، اس کا کبھی نہ بخت اُگا
جو تیرے در کے مقابل کوئی درخت اگا
ہزاروں چہرے، مگر سب کا ایک ہی چہرہ
شکستہ ہو کے ہی آئینہ لخت لخت اگا
مٹے سکندر و فرہاد دونوں ایسے کہ پھر
نہ کوئی تختہ ہی اٹھا نہ کوئی تخت اگا
یقین و عزم سے ہوتی ہے رہگزر ہموار
زمیں ہے نرم بہت، اس میں سنگِ سخت اُگا
کسی کو رحم کی بھیک اس دیار میں نہ ملی
جو مانگنا ہے تو لہجہ ذرا کرخت اگا
نجوم و ماہ ہوئے محو جلوۂ بادہ
حضورِ پیرِ مغاں آفتاب بخت اُگا
جھلستی دھوپ سے سائے کی کیا اُمید ضیا
زمیں وہ سوکھ گئی جس پہ تھا درخت اگا
٭٭٭